پاکستان

پرویز مشرف کی سزائے موت پر حکومتی ردعمل کراچی بار کیلئے 'دھچکا'

پاکستان کی عدلیہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو ڈی جی آئی ایس پی آر سے بہتر طریقے سے سمجھتی ہے، کراچی بارایسوسی ایشن

کراچی بار ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں سزائے موت پانے والے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کی حمایت اور دفاع پر شدید حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کراچی بارایسوسی ایشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر شدید دھچکا لگا کہ ایک سزا یافتہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا دینے کے بجائے حکومت اسے بچانے اور اس کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونا چاہیے، سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ

بیان میں کہا گیا کہ خصوصاً اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور دیگر وزرا، جنہیں ریاست کی جانب سے سزا یافتہ مجرم کی سزا پر عمل کرنا چاہیے تھا، وہ فیصلے کی حمایت کرنے کے بجائے ایک مجرم کا دفاع کررہے تھے۔

خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔

تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے پرویز مشرف کے خلاف سنائے گئے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا تھا کہ میں اس مقدمے میں کسی فرد کا نہیں بلکہ قانون کا دفاع کروں گا، آئین کے آرٹیکل 342 کے تحت مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا گیا جج نے ویڈیو لنک کے ذریعے یا کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

کراچی بار ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ آئین کو کچرے کے ڈبے میں پھینکنے کے قابل کاغذ کا ٹکڑا قرار دینے والے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دفاع میں آئین کی شقیں پیش کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ: 'افواج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے'

بار ایسوسی ایشن نے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے فیصلے کے بعد دیے گئے ردعمل پر بھی افسوس کا اظہار کیا، آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ جہاں تک افواج پاکستان میں پائے جانے والے شدید غم و غصے اور اضطراب کی بات ہے تو کاش اس بات کا اظہار اس وقت کیا جاتا جب جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے نے آئین کو معطل اور مارشل لا لگا کر پاکستان میں سب سے پسندیدہ افواج پاکستان کو بدنام کیا یا جب 12 مئی 2007 کو ایک خوفناک منصوبہ بنایا جس کے نتیجے میں وکیلوں سمیت درجنوں شہری جاں بحق ہوئے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ اس بدقسمت دن جب دہشت گرد معصوموں کو قتل کر رہے تھے تو آمر نے مکا لہراتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے نزدیک آئین اور انسانی جان کی کیا قدروقیمت ہے لیکن اس بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

کراچی بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ آئین اور قانون کے تحت اپنی ذمے داریوں کو ڈی جی آئی ایس پی آر یا کسی اور سے بہتر طریقے سے سمجھتی ہے اور حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بیان کو بدقسمتی قرار دیا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی سیکیورٹی کو کمزور کرے گا اور غیرملکی عناصر اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے، چیف جسٹس

اعلامیے میں مشورہ دیا گیا کہ فیصلے میں کسی بھی قسم کی غلطی یا نقائص کو ایک پریس کانفرنس یا کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر کیے بغیر ایک اپیل کر کے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

کراچی بار کی جانب سے جاری بیان کے اختتام پر امید ظاہر کی گئی کہ مشرف اپنے سے قبل دیگر رہنماؤں کی طرح وطن واپس آ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب چند دن قبل ہی پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں فیصلے پر کی گئی تضحیک آمیز تنقید پر برہمی کا اظہار کیا گیا تھا۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ اور ایگزیکٹو کمیٹی کے نائب چیئرمین شیر محمد خان کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیال میں مشرف مقدمے کے فیصلے میں کچھ نقائص تھے بھی تو قانون میں اس طرح کے نقائص کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ طریقہ موجود ہے جس کے تحت اعلیٰ عدالتی فورم پر اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح خصوصی عدالت کے فیصلے کوفوج کے ایک عہدیدار کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں تمام ادارے مسلح افواج کے تابع ہیں تاکہ وہ ان کے حکم پر عمل درآمد کر سکیں اور عدلیہ سمیت کسی اور فورم کی کوئی اہمیت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا جسٹس وقار سیٹھ کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان

جمعے کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنے الوداعی خطاب میں آصف سیعید کھوسہ نے اس الزام کو مسترد کیا تھا کہ انہوں نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے۔

فیصلے کا پیرا 66

نومبر 2007 میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی کے نفاذ پر خصوصی عدالت نے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت کا حکم دیا تھا۔

خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس وقار سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ تحریر کیا تھا جس میں ایک جج نے سزائے موت دینے کے ان کے فیصلے سے اتفاق کیا جبکہ ایک جج نے ان کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے سزائے موت کی مخالفت کی تھی۔

عدالت نے ہر جرم کے بدلے سابق صدر پاکستان کو سزائے موت کا حکم دیا تھا لیکن اس تفصیلی فیصلے کا اصل محور پیرا 66 ہے جس پر بینچ کے سربراہ کو شدید تنقید سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے'

پیرا 66 میں کہا گیا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن تک لٹکایا جائے'۔

اس پیرا پر خصوصی طور پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں یفرنس دائر کریں گے۔