7 فروری 2019 کو قومی احتساب بیورو نے 3 حکومتی اداروں کے سابق سربراہان کے خلاف ریفرنسز فائل کرنے کی منظوری دے دی تھی، ان میں سے ایک کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے سابق چیئرمین وائس ایڈمرل (ر) احمد حیات اور دیگر کے خلاف غیر قانونی طریقے سے مبینہ طور پر ریاستی زمین الاٹ کرنے پر بنایا گیا، کیونکہ اس سے قومی خزانے کو 18 ارب 18 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اس کے علاوہ دیگر ریفرنس خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی اور دیگر کے خلاف فائل کیا جائے گا، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے گاڑیوں اور ایندھن کی خریداری کے لیے مختص رقم کا غلط استعمال کیا، جس سے قومی خزانے کو 2 کروڑ 34 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان پہنچا۔
ای بی ایم کی جانب سے تیسرا ریفرنس خیرپور میں مشرقی ڈویژن کے محکمہ آبپاشی کے ایگزیکٹو انجینئر ایاز احمد اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی گئی کیونکہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مختلف اسکین میں سرکاری فنڈز کا غلط استعمال کیا اور اپنے من پسند افراد کو کنٹریکٹز دیے، جس سے خزانے کو 8 کروڑ 93 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
14 فروری 2019 کو نیب نے سابق وزیر چوہدری شجاعت حسین، موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) شاہد اشرف تارڑ اور سابق چیئرمین ایواکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ (ای ٹی پی بی) صدیق الفاروق سمیت بڑے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف انکوائریز اور انویسٹی گیشنز کی منظوری دی تھی۔
نیب ترجمان کے مطابق مختلف شخصیات کے خلاف 13 انکوائریز کی تصدیق کی گئی، جن میں سابق ایم این اے غلام ربانی کھر، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے خلاف 2، سابق سیکریٹری آف کمیونیکیشن اور چیئرمین این ایچ اے اور دیگر کے خلاف 2 انکوائریز، ای ٹی پی بی کے سابق چیئرمین صدیق الفاروق، سابق منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال (پی بی ایم) اور دیگر کے خلاف علیحدہ 2 انکوائریز، سابق چیئرمین ای ٹی پی بی ڈاکٹر محمد التمش اور دیگر کے خلاف 2 انکوائریز، کنٹونمنٹ بورڈ کراچی کے سی ای او، آفیسرز آف ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا اور دیگر کے خلاف بھی انکوائریز شامل ہیں۔
اگزیکٹو بورڈ نے مختلف شخصیات کے خلاف 7 انویسٹی گیشن کی بھی منظوری دی، جس میں سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور دیگرز کے خلاف 3 تحقیقات، ٹی ایم شوگر ملز کراچی کے مالک اور دیگر، کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ اور دیگر، سابق سیکریٹری آف اسپیشل ایجوکیشن نور محمد لغاری، سابق پرنسپل سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن محمد علی خاصخیلی، بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افسران اور دیگر شامل ہیں۔
ایگزیکٹو بورڈ نے سابق چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کامران لاشاری، سابق ڈائریکٹر آف اربن پلاننگ سی ڈی اے غلام سرور سندھو، سابق ڈائریکٹر لینڈ سروے ڈویژن سی ڈی اے منیر جیلانی، منیجنگ ڈائریکٹر ڈپلومیٹک شٹل اینڈ ٹرانسپورٹ سروس محمد حسنین گل، سابق ممبر پلاننگ سی ڈی اے بریگیڈیئر (ر) نصرت اللہ اور دیگر کے خلاف 3 بدعنوانی کے ریفرنسز کی منظوری بھی دی تھی۔
ان پر اختیارات کا غلط استعمال کرنے اور غیر قانونی طور پر ڈپلومیٹک شٹل اینڈ ٹرانسپورٹ سروس کا ٹھیکہ دینے کا الزام ہے، جس سے قومی خزانے کو 40 کروڑ 83 لاکھ 20 ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اس کے علاوہ سابق سیکریٹری لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ خیرپختونخوا اورنگزیب اور سابق ڈپٹی پراجیکٹ ڈائریکٹر آڈیل ہائڈرو ٹیک سسٹم پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ اصغر خان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی بھی منظوری دی، ان پر الزم ہے کہ انہوں نے پانی کے منصوبے کے لیے مختص فنڈز کا غلط استعمال کیا، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 19 کروڑ 50 لاکھ 43 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
14 مارچ 2019 کو قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں سابق مشیر ہوا بازی مہتاب احمد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔
ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں سابق مشیر برائے ایوی ایشن مہتاب احمد خان کے علاوہ سابق سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن عرفان الہی، سابق چیئرمین پی آئی اے مشرف رسول، محمد علی ٹبہ اور دیگر کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس دائر کرنے کی منظوری بھی دی گئی تھی۔
ملزمان پر مبینہ طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قواعد و ضوابط کے برعکس مشرف رسول کو چیئرمین پی آئی اے تعینات کرنے کا الزام ہے جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا،مشرف رسول کی تعیناتی بھی غیرقانونی قرار دی جاچکی ہے۔
قومی احتساب بیورو نے سابق سیکریٹری کمیونی کیشن اینڈ ورکس ڈپارٹمنٹ بلوچستان کے سابق سیکریٹری غلام محمد اور دیگر افسران اور ٹھیکہ داران کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، اس کے علاوہ چیئرمین نیب نے سابق ڈائریکٹر جنرل لاڑکانہ ڈیولمپنٹ اتھارٹی اصغر شیخ اور دیگر کے خلاف انویسٹی گیشن کی منظوری بھی دی تھی۔