2019 میں ماحولیاتی منظرنامہ - دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی!
اسپین میں منعقد ہونے والی کانفرنس COP25 بالآخر اختتام کو پہنچی۔ ماحول کے شعبے سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کانفرنس کی کیا اہمیت ہے۔
دسمبر 2019ء میں اسپین کے شہر میڈرڈ میں ہونے والی 25ویں عالمی سربراہی کانفرنس کے اس ’ہائی پروفائل‘ اجتماع پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز تھیں لیکن نتیجے کے اعتبار سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی معاملہ نشستن، گفتن اور برخاستن سے آگے نہیں بڑھ سکا اور کلیدی فیصلوں کو اگلی کانفرنس تک کے لیے روک دیا ہے۔ اس کانفرنس میں کوئی فیصلہ نہ ہونا اس لیے بھی حیران کن ہے کہ اس میں 196 ممالک کے سرکاری اداروں اور دیگر وفود شریک تھے۔
ہاں لیکن اس بار یہ ضرور ہوا کہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے شرکا طویل بحث و مباحثے کے بعد اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ مضر گیسوں کے اخراج سے متعلق پیرس ماحولیاتی معاہدے میں جن اہداف کا تعین ہوا تھا اس پر عملدرآمد توقعات سے کم ہوا جو دنیا کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
ہمیں فخر ہے کہ پاکستان اپنے منفرد جغرافیہ کی بدولت وسائل کی دولت سے مالامال ہے۔ یہاں سمندر سے لے کر بلند و بالا شمال تک ہر قسم کا ایکو سسٹم موجود ہے۔ یعنی سمندر، ساحل، زرعی میدان، صحرا، دریائی نظام اور 7 ہزار سے زائد گلیشیئرز۔ یہاں 3 عظیم پہاڑی سلسلے کوہ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کا سنگم واقع ہے۔ اگرچہ یہ جغرافیائی تنوع ہماری دولت تو ہے لیکن ہمارے لیے خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
ایک طرف گلیشیئرز پگھلنے اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کا خطرہ منڈلاتا ہے تو دوسری جانب خشک سالی کے سائے چھائے رہتے ہیں۔ سمندری طوفان اور سمندری کٹاؤ جیسے خطرات بھی منہ کھولے آبادیوں کو نگلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے ان خطرات سے نمٹنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں کمی
بدقسمتی سے پاکستان میں ماحول کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں سوچتے ہیں بلکہ اس کو انتہائی غیر اہم موضوع بنادیا گیا ہے، یعنی پرند، چرند، پھول پودوں کی بات کردی اور بس۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس موضوع پر بھی لکھتے ہوئے ’خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں ہم نے‘ والی کیفیت ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نامی بلا نے جس طرح ہمارا گھر دیکھ لیا ہے اور اس سے ملک کے اکثر حصوں میں قدرتی آفات نے زندگی کو جس طرح تلپٹ کیا وہ تو اپنی جگہ، مگر مزید افسوس یہ کہ جاتے جاتے بھی یہ سال جھولی میں ایک اور بُری خبر ڈال گیا ہے۔
جی ہاں، اب موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے شکار اوّلین 10 ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر آگیا ہے، جبکہ پچھلے سال ہم آٹھویں نمبر پر تھے۔ گویا ان خطرات سے لڑنے کی ہماری صلاحیت میں 3 درجے کمی واقع ہوئی ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی جرمن واچ The Global Climate Risk Index نے اپنی فہرست جاری کی ہے۔ اس ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 1998ء سے 2018ء یعنی گزشتہ 20 سالوں میں آنے والی قدرتی آفات کے باعث 9 ہزار 9 سو 89 جانوں کا ضیاع اور 3.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔