سال 2019: جمہوریت کا حسن 'احتجاج، مظاہرے اور دھرنے'
پُرامن احتجاج اور مظاہرے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ حکمرانوں سے اپنے مطالبات کو منواسکیں یا مذاکرات کے ذریعے ان کا حل نکالا جاسکے۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی ہے اور آمریت اختلاف رائے یا احتجاج کی وہ اجازت نہیں دیتی جو ایک جمہوری معاشرہ فراہم کرتا ہے۔
ایک دہائی سے ملک میں جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے اور 2 منتخب حکومتوں یعنی 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی اور اس کے بعد اب تیسری منتخب حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2018 کے ماہ اگست سے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے کی جانب گامزن ہے۔
تاہم چاہے پیپلز پارٹی کا دور حکومت ہو یا مسلم لیگ (ن) کا سابق دور، اپوزیشن اور دیگر اختلاف رائے رکھنے والے طبقات کی جانب سے حکومت مخالف احتجاج، مظاہرے، تحاریک اور دھرنے دیئے گئے۔
اگر ہم موجودہ دور حکومت کی بات کریں تو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی گزرا ہے مگر اتنے قلیل عرصے میں ان کے اور ان کی پالیسیوں کے خلاف متعدد احتجاج، دھرنے اور ہڑتالیں ہوچکی ہیں۔
تاہم یہاں ہم بات کریں گے تحریک انصاف کے دور حکومت کے ایک سال یعنی جنوری 2019 سے دسمبر 2019 تک کی اور بتائیں گے کہ اس مدت میں حکومت کے خلاف کس طرح کی تحاریک چلیں، احتجاج ہوا۔ ہم ایک نظر ان مظاہروں پر بھی ڈالیں گے جو یا تو حکومت کے حق میں کیے گئے یا ان کا تعلق براہ راست تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نہیں تھا۔
ساتھ ہی یہ بھی بیان کریں گے کہ سیاسی اختلاف کے علاوہ عوام اور مختلف طبقات کی جانب سے بھی نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومتوں کے خلاف بھی احتجاج کیے گئے۔
سال 2019 کی ابتدا ایک ایسے واقعے سے ہوئی جو موجودہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوا اور اس نے ملک میں مبینہ طور پر ہونے والے ماورائے عدالت قتل کے معاملات پر دوبارہ بات کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ عوام کی جانب سے بھی ایک سخت ردعمل سامنے آیا۔
سانحہ ساہیوال: ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے پر احتجاج
رواں سال جنوری کی 19 تاریخ کو پیش آنے والے 'سانحہ ساہیوال' کی، جس میں پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال کے قریب ایک کار پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے مارے گئے افراد کو 'دہشت گرد' قرار دیا گیا تاہم پولیس کے اس ڈپارٹمنٹ اور متاثرین کی جانب سے آنے والے متضاد بیانات نے اسے ایک معمہ بنادیا۔
اس واقعے کے فوری بعد سی ٹی ڈی ترجمان نے کہا کہ مارے گئے افراد دہشتگرد ہیں جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں، تاہم پنجاب پولیس نے ابتدا میں واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
تاہم فائرنگ کے دوران کار میں جو بچے موجود تھے وہ زخمی بھی ہوئے اور انہوں نے ہسپتال میں بیان دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جبکہ فائرنگ سے مارے گئے افراد ان کے والدین، بڑی بہن اور ایک والد کے دوست تھے۔
بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
اس واقعے پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیا تھا جبکہ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، جس کے بعد ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔
تاہم اس واقعے کے بعد جو وجہ حکومت کے خلاف احتجاج کا باعث بنی وہ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کی وہ پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کا دہشت گردوں سے تعلق تھا اور وہ داعش کا حصہ تھے۔
تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔