امیت شاہ لوک سبھا میں ترمیمی بل پیش کررہے ہیں—فوٹو ٹوئٹر
اس نئے قانون کے مطابق پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے جو ہندو، سکھ، جین، بدھ اور پارسی مذہبی بنیادوں پر استحصال یا تشدد کی بنا پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے یا اسی بنا پر 31 دسمبر 2014ء سے قبل بھارت میں داخل ہوئے، انہیں 5 سال قیام کے بعد بھارتی شہریت دی جاسکے گی جبکہ مسلمان اس حق سے محروم رہیں گے۔
مزید پڑھیے: بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی
بظاہر یہ قانون جنوبی ایشیا کے ان 3 مسلم اکثریتی ممالک کی اقلیتوں کے لیے بھارت کی درد مندی اور ہمدردی کو جواز بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں اور بھارت کی مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو پیش نظر رکھا جائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور انسانی ہمدردی کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔
شہریت کے قانون میں ترمیم اور اس سے قبل نیشنل رجسٹر فور سٹیزن شپ (این آر سی) کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ حل کرنے کے بجائے بھارت کو 'گھس بیٹھیوں' سے پاک کرنا ہے۔ آر یس ایس قوم پرستانہ نظریات کو اپنا آدرش ماننے والی بی جے پی جب گھس بیٹھیا کہتی ہے تو مسلمان سنائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اس کے ہر اقدام کو محض قانونی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ اس کا تاریخی پس منظر اور بہت واضح نظریاتی تناظر بھی ہے۔
بہرحال، شہریت کے قانون میں پہلی مرتبہ نومبر 2016ء میں ترمیم پیش کی گئی اور منظوری کے مراحل کا آغاز کیے بغیر ہی اسے واپس لے لیا گیا۔ اس تاخیر کا سبب اب جاکر کچھ کچھ واضح ہوتا ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں واقع 6 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں فعال رہی ہیں اور یہاں کے قدیمی باشندے اور قبائلی اپنی شناخت کے تحفظ کے بارے میں خاص حساسیت رکھتے ہیں۔
تقسیم سے قبل مشرقی بنگال سے چائے کے باغات میں مزدوری اور 1971ء میں خانہ جنگی اور بنگلا دیش کے قیام کے وقت پناہ کے لیے بنگالی آبادی نے آسام کا رُخ کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان میں مشرقی بنگال سے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
غیر مقامی آبادی کی اس بڑی تعداد میں آمد سے آسام میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی پیدا ہوئی جس نے فسادات اور بعد ازاں آسام میں مقامی آبادی کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے اور تارکین وطن کو روکنے کے لیے 7 سالہ طویل احتجاجی تحریک کو جنم دیا۔ اس تحریک میں 800 سے زائد افراد جان سے گئے تب کہیں جاکر راجیو گاندھی کے دور میں ’معاہدہ آسام‘ طے پایا اور کچھ خصوصی قوانین منظور کرلیے گئے۔
مزید پڑھیے: بھارت: مسلم مخالف 'شہریت' قانون کے خلاف احتجاج کئی ریاستوں تک پھیل گیا
آسامیوں کے نزدیک لسانی شناخت سب سے مقدم رہی ہے اور مقامی قوم پرست جماعتوں کا مطالبہ یہی تھا کہ این آر سی کے اطلاق کے بعد شہریت ثابت نہ کرنے والوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے۔
16 نومبر 2016ء کو بھارت کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں خود مودی سرکار نے دعویٰ کیا کہ 2 کروڑ بنگلادیشی غیر قانونی طور پر بھارت میں رہ رہے ہیں ۔ لیکن جب نیشنل رجسٹر فور سٹیزن شپ (این آر سی) کی فہرستیں تیار کی گئیں تو صرف 19 لاکھ افراد کی شہریت معطل کی گئی جن میں 14 لاکھ ہندو تھے۔ لیکن اب 3 ماہ کے بعد شہریت کے قانون میں ترمیم کردی گئی۔ جس کے بعد این آر سی میں آنے والے ہندوؤں کے لیے شہریت کا راستہ صاف ہوجائے گا۔
لیکن کیا بی جے پی کے اس فیصلے کے اثرات صرف آسام تک محدود ہیں؟ اور کیا بھارت میں اس ترمیم کی مخالفت صرف کسی ایک وجہ سے ہورہی ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب سادہ نہیں۔ اگر اس ترمیم سے آسام کا مسئلہ حل ہوگیا ہوتا تو آج اس کے خلاف سب سے زیادہ شدید احتجاج اس ریاست میں نہیں ہورہا ہوتا۔ اب تک آسام میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج میں 6 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے اور کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اس لیے یہ بات تو واضح ہے کہ مودی سرکار کا یہ فیصلہ کسی ایک ریاست تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرکے اس کے خدوخال اپنے نظریاتی آدرش کے مطابق ڈھالنا اس کا بنیادی مقصد ہے۔
اس سیاسی آدرش میں مسلمان بیرونی حملہ آوروں اور گھس بیٹھیے ہیں اور ان مسلم حکمرانوں کے قبیل ہی سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نام اور ہر یادگار کو اب ہندوؤں میں جذبہ انتقام کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاسی اعتبار سے بی جے پی نے یہ مفاد بھی حاصل کیا ہے کہ اب وہ اس قانون کی بنیاد پر ہندو ووٹ کی پختہ وابستگی ہی کے بل پر اپنے اقتدار کو طول نہیں دے گی، بلکہ آبادی کے رد و بدل میں اپنے مفاد کے فیصلے کرنے کا بھی اسے بھرپور موقع ملے گا۔ آسام کا تذکرہ آچکا، اسی طرح روہنگیا، سری لنکا کے تاملوں کا راستہ بھی روک دیا جائے گا۔
یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بھارتی آئین بنانے والوں نے سیکولرازم کو صرف مذہبی بنیادوں پر بقائے باہمی کے لیے نظامِ ریاست کی اساس تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اس وسیع و عریض ملک کے ثقافتی، لسانی اور مذہبی تنوع میں پائے جانے والے تصادم کی پیش بندی کرنا بھی ان کے پیش نظر تھا۔
رانا محمد آصف
صاحبِ تحریر گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انٹرویو، ترجمہ نگاری کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی و معاشی حالات ان کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ ادبی و سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔