سال 2019: کرکٹ کے میدان میں کس ٹیم نے لیے پورے نمبر اور کون رہی ناکام؟
لارڈز کے میدان پر شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور فلڈ لائٹس روشن تھیں تاہم میدان اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے شائقین کرکٹ اسکرین پر ٹکٹکی باندھے میدان میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان جاری ورلڈ کپ 2019 کے ناقابل یقین فائنل کے سنسنی خیز آخری لمحات کو محسوس کررہے تھے۔
فائنل مقابلہ ٹائی ہونے کے بعد سپر اوور میں بھی نیوزی لینڈ کو فتح کے لیے آخری گیند پر دو رنز درکار تھے، جوفرا آرچر دوڑتے ہوئے آئے اور مارٹن گپٹل نے مڈ وکٹ کی جانب شاٹ کھیل کر دوڑنا شروع کردیا۔
نئے ورلڈ چیمپیئن کے منتظر شائقین کرکٹ دم بخود ہو کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے کہ جیسن رائے نے گیند کو وکٹ کیپر کی جانب تھرو کیا اور جوز بٹلر نے پلک جھپکنے میں بیلز اڑا دیں اور مارٹن گپٹل رن آؤٹ ہو گئے۔
میچ ایک مرتبہ پھر ٹائی ہو چکا تھا لیکن انگلینڈ کی ٹیم کو تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپیئن کا تاج سر پر سجانے کا موقع ملا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ نہ ہارنے کے باوجود بھی چیمپیئن بننے سے محروم رہ گئی۔
گزرے سالوں میں ہم نے کئی ناقابل یقین دلچسپ میچ دیکھے ہوں گے لیکن کسی بھی میچ خصوصاً ورلڈ کپ فائنل کا ایسا رونگٹے کھڑے کرنے والا اختتام آج تک نہیں ہوا اور شاید آگے بھی ایسا ہونا ناممکن ہے۔
کون جیتا اور کون ہارا اس بات سے قطع نظر، یہ سال ممالک اور ان کی سرحدوں سے قطع نظر ہر کرکٹ شائق کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
ہمیشہ کی طرح ایک اور سال اختتام کو پہنچا جو اپنے پیچھے ان گنت یادیں، حادثات اور ناقابل فراموش واقعات کی پرچھائی چھوڑ گیا۔
کھیلوں کی دنیا کی بات کی جائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کے لیے ہر سال یادگار ثابت ہو بلکہ کچھ لوگوں کے لیے یہ ناقابل فراموش سال ہوتا ہے تو بعض افراد اس سال کو اپنی یاد داشت سے مٹانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال 1992 کا سال ہے جسے ہر پاکستانی آج تک ایک خوشگوار برس کی طرح یاد رکھتا ہے لیکن اسی کے برعکس 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ کے سبب پاکستانی شائقین کرکٹ اس سال کو کبھی بھی یاد کرنا پسند نہیں کرتے۔
تاہم سال 2019 کا معاملہ ماضی کی تمام تر مثالوں کو غلط ثابت کر گیا اور کرکٹ سے محبت اور پسند کرنے والے ہر شائق کو یہ سال تا عمر یاد رہے گا کیونکہ ورلڈ کپ فائنل تو دور اب شاید ہی کسی ورلڈ کپ میں شائقین کو ایسا ایک بھی میچ دیکھنے کا موقع ملے جو دو مرتبہ ٹائی ہوا ہو۔
14 جولائی 2019 کو لارڈز کے تاریخی میدان پر شائقین کرکٹ کو جو مناظر دیکھنے کو ملے اسے وہ چاہ کر بھی نہیں بھول پائیں گے اور یہ ایک شاندار ورلڈ کپ کا بہترین اختتام تھا۔
20 سال بعد کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کی واپسی ہوئی اور 44 سال بعد بالآخر انگلینڈ کی ٹیم نے عالمی چیمپیئن کا تاج سر پر سجالیا۔
کرکٹ 2019 کے جائزے کا آغاز اگر ورلڈ کپ سے نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہو گی جہاں 27 سال بعد ایک مرتبہ پھر راؤنڈ روبن کی طرز پر ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں 10 بہترین ٹیموں نے شرکت کی اور 20 سال بعد کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں عالمی کپ کی واپسی ہوئی۔
اس عالمی کپ سے قبل توقع کی جا رہی تھی کہ شائقین کو بڑے بڑے اسکور دیکھنے کو ملیں گے اور حتیٰ کہ آئی سی سی نے 500 رنز کا اسکور کارڈ تک تیار کر لیا تھا لیکن سوائے چند میچوں کے اکثر میچوں میں ٹیمیں 300 رنز بھی نہ بنا سکیں۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والے اس شاندار ورلڈ کپ میں چند اپ سیٹ اور سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملے لیکن توقعات کے عین مطابق ورلڈ کپ کا فائنل انہی 4 ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جس کی ماہرین نے پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کو بھی سیمی فائنل کی دوڑ کے لیے مضبوط حریف تصور کیا جا رہا تھا لیکن دونوں ٹیموں کی غیرمستقل مزاج کارکردگی سے ان سے کسی خاص کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔
سیمی فائنل میں پہنچنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ پاکستان اور کیویز کے یکساں 11پوائنٹس ہونے کے باوجود گرین شرٹس خراب رن ریٹ کے سبب وطن واپسی پر مجبور ہوئے اور نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔
سیمی فائنل کے انعقاد سے قبل ایک عام تاثر تھا کہ بھارت کی ٹیم باآسانی نیوزی لینڈ کو مات دے کر آگے نکل جائے گی جبکہ روایتی انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا لیکن جب میچ ہوا تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔
مانچسٹر میں کھیلے گئے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
ایک مشکل وکٹ پر نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی نصف سنچریوں کے باوجود کیویز بڑا اسکور کرنے سے قاصر رہے اور جب بارش کے سبب میچ کو ریزرو ڈے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تو کین ولیمسن الیون نے 5وکٹوں کے نقصان پر 211رنز بنائے تھے۔
ایک آسان ہدف نظر آنے پر بھارت بھر میں جشن کا سماں بندھ گیا تھا اور ماہرین کرکٹ سمیت سابق کرکٹرز نے بھی بھارت کی فتح کو پتھر پر لکیر سمجھنا شروع کردیا تھا۔
اگلے دن میچ شروع ہوا تو نیوزی لینڈ مقررہ اوورز میں 239رنز بنا کر بھارت کو فائنل میں رسائی کے لیے 240رنز کا نسبتاً آسان ہدف دیا۔
لیکن بھارتی اننگز کے آغاز میں ان کے ساتھ بالکل وہی ہوا جو 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کے خلاف ہوا تھا۔
ہدف کے تعاقب میں کیویز باؤلرز نے شاندار ابتدائی اسپیل کیا جس کے نتیجے میں بھارتی ٹیم روہت شرما، لوکیش راہل اور کپتان ویرات کوہلی جیسے اہم بلے بازوں کو صرف 5 رنز پر گنوا چکی تھی جبکہ 24 پر دنیش کارتھک بھی کچھ کارکردگی دکھائے بغیر ہی پویلین لوٹ گئے جبکہ 92 کے مجموعی اسکور تک پہنچتے پہنچتے بھارتی ٹیم 31ویں اوور میں 6وکٹیں گنوا چکی تھی اور ان کی شکست صاف نظر آتی تھی۔
اس مرحلے پر دھونی اور رویندرا جدیجا نے شاندار شراکت کے ساتھ ٹیم کو میچ میں واپس لانے کی کوشش کی لیکن ان کی محنت رائیگاں گئی اور بھارت میچ میں شکست کے ساتھ لگاتار دوسری مرتبہ ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہار کے سبب ایونٹ سے باہر ہو گیا اور نیوزی لینڈ نے لگاتار دوسری مرتبہ فائنل میں جگہ بنائی۔