پاکستان

'جسٹس عیسیٰ کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا'

چیئرمین اے آر یو اور وزیرقانون کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے جج کے خلاف تحقیقات کرے، منیر اے ملک کے دلائل
|

سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا ہے کہ ان کے موکل کے کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور عدالت کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستیں دائر کیں۔

منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی ںظرثانی کی درخواست ان کی ذہنی سوچ کی عکاس ہے، درخواست میں واضح کیا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ جج کی برطرفی کے لیے واضح جواز ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ’جائیدادوں کی تلاش کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی‘

انہوں نے کہا کہ ریفرنس میں یہ کہنا کہ جسٹس فائز عیسیٰ جج رہنے کہ اہل نہیں یہ اتفاق نہیں ہے،

ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 4بجے ریفرنس کے حوالے سے ٹوئٹ جاری ہوئی جبکہ ریفرنس کا علم صدر، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کو تھا۔

تاہم منیر اے ملک نے بتایا کہ چیف جسٹس کے سیکریٹری نے خبر لیک نہیں کی، اس کی ذمہ داری باقی 4 افراد پر ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے مطابق صدر نے صرف اس حد تک کہا کہ خبر ان کے دفتر سے لیک نہیں ہوئی جبکہ ایک حکومتی رکن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عدلیہ نے کریز سے نکل کر شاٹ کھیلی اور اب وہ احتساب کے شکنجے میں ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کریز سے باہر نکل کر شاٹ ہونے کا مطلب فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے علاوہ کچھ نہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا ریاست میں کردار واضح ہے، اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرتا ہے حکومت کی معاونت نہیں، اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ذاتی تعریف اور سستی شہرت پر یقین رکھتے ہیں، یہ الزامات سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں بدنیتی کا اظہار ہیں۔

منیر اے ملک کے مطابق اٹارنی جنرل کے جواب الجواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیوی اور بچوں کی شناخت کے پیچھے چھپنے کا الزام ہے جبکہ ان کے موکل نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔

عدالت میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کونسل اٹارنی جنرل یا کسی بھی وکیل کو معاونت کے لیے مقرر کرسکتی ہے، اٹارنی جنرل کا یہ جواب خفیہ قوانین کی خلاف ورزی اور جج کی جاسوسی سے متعلق میرے دلائل کی تصدیق ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ جواب 5 حکومتی افسران نے ایک ہی روز میں تیار کیا ہے، حکومت کو ایک ہی روز میں 5 مختلف ذرائع سے رپورٹ موصول ہونا اچانک نہیں سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔

اس موقع پر عدالت عظمیٰ میں منیر اے ملک نے اپنے بنیادی دلائل دہراتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک جائیدادوں کی بے نامی ملکیت، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کا الزام نہیں لگایا گی۔

انہوں نے کہا کہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین اور وزیرقانون کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے جج کے خلاف تحقیقات کرے۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے مطابق ان کے موکل کے کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا، ہم ایک طرف یہ چاہتے ہیں کہ تمام ادارے قانون کے مطابق کام کریں، دوسری جانب یہ بھی چاہتے ہیں کہ غیرقانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ احتساب اور قانون کی خلاف ورزی کرکے مواد جمع کرنے میں توازن ہونا چاہیے، غیر قانونی اقدام کی اجازت دینے سے ایگزیکٹو (مقننہ) کو یہ لائسنس مل جائے گا کہ وہ عدلیہ کو بلیک میل کرے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کی ایسی کئی مثالیں موجود ہے جن میں غیر قانونی طریقے سے اکٹھے کیے گئے مواد کو الگ کیا گیا۔

وکیل کے مطابق پوری دنیا کے سمندر بھی جج پر عائد الزام کو نہیں دھوسکتے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ جج کے خلاف ریفرنس خارج کر دینے سے کیا یہ الزام ختم ہو جائے گا؟ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ الزام نہ بھی ختم ہو لیکن داغ مٹ جائے گا۔

منیر اے ملک نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ الزام ختم کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جج کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا جائے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں اس وقت ایک فوجی آمر کی حکومت تھی، اس کیس میں ججوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور چیف جسٹس کو عدالت سے باہر پھینک دیا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس الگ الگ ہیں، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ کیا عدالت کے جج کی جاسوسی کرنا کوئی معمولی بات ہے؟ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے بہت کچھ کہہ دیا ہے ہمیں سوچنا پڑے گا۔

اسی دوران منیر اے ملک نے کہا کہ طبی بنیادوں پر بدھ کو چھٹی چاہیے، جس پر عدالت عظمیٰ کے جج نے کہا کہ ہم دیگر وکلا کو سن لیتے ہیں، ہم چھٹیوں پر نہیں جارہے۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت کل (17 دسمبر) تک ملتوی کردی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔