سندھ میں 7ہزار سے زائد این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ
حکومت سندھ نے مستقل وارننگ کے باوجود قوانین کی خلاف ورزی اور مالی ریکارڈز شیئر نہ کرنے پر صوبے میں 7ہزار سے زائد این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کردی ہے۔
آفیشل ذرائع کے مطابق سندھ میں حال ہی میں چلائی گئی ایک مہم میں انکشاف ہوا کہ صوبے میں رجسٹرڈ 70فیصد سے زائد این جی اوز نے حکومت کی جانب سے بار بار انتباہ کے باوجود قانون کے تحت اپنے مالیاتی ریکارڈز، فنڈز کے ذرائع، آڈٹ رپورٹ اور دیگر سرگرمیوں کی تفصیلات حکومت سے شیئر نہیں کیں جس کے نتیجے میں 7ہزار سے زائد این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ’آئی این جی اوز کی رجسٹریشن قومی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی‘
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد صوبے بھر میں این جی اوز کے ڈیٹا کو جمع کرنا ہے جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے سے یہ کام انجام نہیں دیا گیا تھا اور اس عمل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نگراں ادارے کی جانب سے 10ہزار سے زائد آرگنائزیشنز کی رجسٹریشن کی گئی اور ان میں سے اکثر کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جا رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ کیسز میں تو ایسا بھی ہوا کہ ریکارڈ میں این جی اوز کے دفاتر کا پتہ، ان کے منتظمین و حکام کی تفصیلات اور ان کی دلچسپی کے امور تک کی تفصیلات موجود نہیں۔
سندھ سوشل ویلفیئر کے سیکریٹری محمد نواز شیخ نے ڈان کو بتایا کہ سندھ میں کُل ساڑھے 10ہزار رجسٹرڈ این جی اوز ہیں، ہم نے اقدام اٹھاتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ان این جی اوز کا ڈیٹا جمع کر کے ان پر سختی کی جائے جہاں 1961 کے رجسٹریشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس کے تحت ان اقدامات کے ساتھ ساتھ این جی اوز کی کارکردگی اور ان کی خدمات کی نگرانی بھی لازم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس عمل کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ 8ہزار سے زائد این جی اوز نے نگراں اداروں سے کسی بھی قسم کا ڈیٹا، مالیاتی ریکارڈز اور ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات شیئر نہیں کیں۔
یہ بھی پڑھیں: 300 سے زائد غیر منافع بخش ’اداروں‘ کے لائسنس منسوخ
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر حکومت نے ایکشن لیتے ہوئے متعدد اعلانات کرنے کے ساتھ ساتھ ان این جی اوز کو نوٹسز بھیج کر کئی بار خبردار بھی کیا تاکہ وہ رسمی کارروائیاں اور ضوابط پورے کر سکیں لیکن اکثر مواقعوں پر یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
محمد نواز شیخ نے کہا کہ بالآخر محکمہ سوشل ویلفیئر نے نگراں ادارے کی حیثیت سے حال ہی میں سندھ بھر میں 7ہزار 193این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کردی۔
جیسا کہ سیکریٹری کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ این جی اوز قانونی ضابطے پورے کرنے میں ناکام رہیں جو ان کے مالیاتی ریکارڈز اور سرگرمیوں کی نگرانی رکھنے کا تقاضہ کرتی ہیں۔
اس طرح کی این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ 1961 کے قانون کے تحت مالیاتی ریکارڈز کا آڈٹ اور سالانہ رپورٹ جمع کرانا لازم ہے۔
مزید پڑھیں: 'تمام این جی اوز کی نگرانی کرنا ایس ای سی پی کیلئے مشکل عمل'
این جی اوز کے ڈیٹا کو جمع کرنے اور ان کے کاموں کی موثر نگرانی کے سندھ حکومت کے اس اقدام کو ایک اچھی کاوش قرار دیا جا رہا ہے تاہم ماہرین نے ساتھ ساتھ نگراں ادارے کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے جو سوشل ڈیولپمنٹ کے نام پر کئی سالوں سے آرگنائزیشنز کی رجسٹریشن کی نگرانی رکھنے میں غیرموثر رہا ہے۔
سماجی کاموں میں سرگرم اور نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے رکن انیس ہارون نے کہا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ این جی اوز کی ایک بڑی تعداد بہترین کام کر رہی ہے اور مختلف شعبوں میں بیش بہا خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن موجودہ صورتحال نگراں ادارے کے غیرموثر اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوئی، حکام کو متحرک ہونا چاہیے اور سالوں یا دہائیوں بعد اقدامات کرنے کے بجائے قانونی ضوابط پورے نہ کرنے والی این جی اوز کے خلاف مستقل بنیادوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نگراں ادارے کی غیرموثر کارکردگی کے سبب 'جعلی این جی اوز' یا یا مذموم مقاصد کے لیے قائم آرگنائزیشنز نے اُن این جی اوز کی ساکھ بھی مجروح کی جو معاشرے اور انسانی ترقی کے لیے صحیح معنوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی سندھ میں خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبے میں ایک خلا موجود ہے جسے اچھی این جی اوز آ کر پُر کر سکتی ہیں۔