لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سید عارف حسن
عارف حسن کی قیادت کے دوران ہی ابھرتے ایتھلیٹس کی ایک پوری کھیپ نے بُرے حالات سے تنگ آکر کھیلوں سے دُوری اختیار کرلی۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ وہ کبھی نیشنل گیمز کے مقابلوں میں حصہ ہی لے سکے جو پی او اے کی سرپرسی میں ہر 2 سال بعد منعقد ہونا تھے۔
گزشتہ ماہ 7 سال بعد پشاور میں نیشنل گیمز 2019ء کا انعقاد ہوا تھا، بلکہ ان کے 16 سالہ عہدِ صدارت میں صرف 4 بار یعنی 2007ء (کراچی)، 2010ء (پشاور)، 2012 (لاہور) اور 2019ء (پشاور) میں قومی کھیلوں کے مقابلے کروائے گئے۔
عارف حسن کے عہد میں پاکستان کا نام بیرونِ ملک منعقد ہونے والے 5 ایشین بیچ گیمز میں نمایاں تو رہا لیکن جس قومی بیچ گیمز کو قومی کھلاڑیوں کی سلیکشن کے لیے کسوٹی کا کام کرنا چاہیے تھا اس کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نجی اداروں نے سی ویو کے ساحلِ سمندر پر ایک روزہ کھیلوں کی سرگرمی کا اہتمام کرکے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس سرگرمی کو اگر فوٹو سیشن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
عارف حسن نے ایتھنز اولمپکس سے خالی ہاتھ لوٹنے والے ایتھلیٹس کے گرتے معیار کا دفاع کرتے ہوئے 2004ء میں کہا تھا کہ ’درحقیقت نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘۔ بدقسمتی سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ گزشتہ 16 برسوں میں بطورِ سربراہ نظام کو بدلنے میں کس طرح کامیاب ہوئے ہیں۔
کھیلوں کی دنیا میں پہلی بار قدم رکھنے والے عارف حسن نے 2004ء میں پی او اے کی صدارت سنبھالنے کے بعد جو ابتدائی اقدامات کیے ان میں 10 نائب صدور اور 8 ایسوسی ایٹ سیکرٹری سمیت اپنے پسندیدہ ارکان پر مشتمل 40 رکنی ایگزیکیٹو کمیٹی کا اعلان تھا لیکن انہوں نے کسی کو خزانچی کا عہدہ نہیں دیا تھا۔
عارف حسن نے پی او اے میں کرنل یحییٰ اور میجر افضل کو بھی عہدہ دیا تاکہ ایسوسی ایشن پر اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھی جاسکے۔ اسی طرح کرنل ڈین کو پاکستان اسپورٹس ٹرسٹ میں عہدہ دیا گیا۔ یہ ٹرسٹ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ یہ تمام حضرات کئی بار غیر ملکی دوروں پر جاتے رہے اور بے تحاشا مراعات بھی حاصل کرتے رہے۔
حالیہ منتخب ہونے والے افراد کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت حد تک واضح ہوتی ہے کہ ماضی کے صرف انہی ساتھیوں کو دوبارہ رکنیت حاصل ہوئی ہے جو عارف حسن کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے آرہے ہیں۔ ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی ایک خاتون نے تو اسے ’کچن کیبنیٹ‘ کا نام دیا۔
عارف حسن نے کبھی بھی ملک میں کھیلوں کے زوال کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور یہ بات باعثِ حیرت بھی نہیں۔ آج کل وہ اس زوال کا ذمہ دار حکومت اور فیڈریشنز کو ٹھہراتے ہیں اور ان کے مطابق ان کا کام صرف عالمی مقابلوں میں پاکستان کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔
عارف حسن پی او اے میں اصلاحات لانے کے بجائے ہر بار کھیلوں میں زوال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ البتہ، انہوں نے softball، jiujitsu، sepak takraw اور tchoukball فیڈریشنز جیسی نئی قومی فیڈریشنز قائم کیں تاکہ اپنے دوستوں کو ان فیڈریشنز کے اعلیٰ عہدوں پر نوازا جاسکے اور پھر انہیں پی او اے سے منسلک کردیا تاکہ انتظامی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط رکھی جاسکے۔
مگر وہ ہر اس فیڈریشن کو سزا دینے میں ناکام رہے جن کے ایتھلیٹس ڈوپنگ قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے اور ملک کو شرمسار کیا۔
ان کے پہلے دور میں منعقد ہونے والے اسلام آباد ساؤتھ ایشین گیمز کے دوران 3 ویٹ لفٹرز اور ایک باکسر کو ڈوپ ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر ان سے ان کے طلائی تمغے واپس لے لیے گئے۔ بعدازاں کولمبو میں منعقدہ ساؤتھ ایشین گیمز کے موقعے پر بھی مزید 2 باکسرز کو ڈوپ ٹیسٹ میں ناکامی پر اپنے تمغے واپس کرنا پڑے تھے۔ مگر ان ایتھلیٹس کو میدان میں لانے والی فیڈریشنز کے خلاف کبھی کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی۔
2004ء میں عارف حسن نے ہیرو پاکستانی کے نام سے لاٹری متعارف کروائی جس کا مقصد فنڈز کو بڑھانا تھا، جبکہ اسی سال سیف گیمز کا انعقاد بھی ہونا تھا۔ ابتدائی طور پر لوگ قیادت کی تبدیلی پر کافی خوش تھے کیونکہ عارف حسن نے لاٹری کے ذریعے کمائے گئے کروڑوں روپے اسپورٹس فیڈریشنز اور ایتھلیٹس میں تقسیم کیے۔
عارف حسن نے ایک بار صحافیوں کو بتایا تھا کہ جنوری 2005ء سے لے کر 18 نومبر 2008ء تک اسپورٹس فیڈریشنز کو پی ایس ٹی اکاؤنٹس سے 19 کروڑ 60 لاکھ روپے تقسیم کیے گئے تھے۔ تاہم پی ایس ٹی اور ان کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات کبھی بھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئیں۔ آخر میں ملک میں کھیلوں کو تنزلی سے بچانے کے لیے کی جانے والی یہ کوشش بھی بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔
قومی اسپورٹس پالیسی کی مخالفت
درحقیقت عارف کی پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہے ہیں جو قومی اسپورٹس پالیسی کا نفاذ چاہتی ہے۔ پہلی اسپورٹس پالیسی جس کا اعلان 15 فروری 2001ء کو کیا گیا تھا، اسے 2005ء میں چند ترامیم کے بعد اپنا لیا گیا تھا۔ مگر عارف حسن کو تمام فیڈریشنز میں 3 اہم عہدوں یعنی صدر، سیکرٹری اور خزانچی کے لیے 2 مدتوں کی حد پر اعتراضات تھے۔
لیکن پھر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن نے کیا یہ کہ خود سے ملحق چند فیڈرینشز میں ایسی ترامیم کی جو انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (آئی او سی) کے ضوابط کے خلاف تھیں۔ ان ترامیم کے ذریعے چیئرمین کا ایک نمائشی عہدہ بنایا گیا تاکہ 2 مدتوں تک ادارے میں رہ چکے لوگوں کو ایک اور موقع فراہم کیا جاسکے۔
پی او اے کے سربراہ کے نزدیک تو قومی اسپورٹس پالیسی میں بھی خامیاں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پر بنایا گیا ہے‘۔
عارف حسن کے دوسرے دور یعنی 2008ء سے 2012ء کے درمیان معاملات اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئے جب مسلح افواج نے 2012ء میں لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمز کا بائیکاٹ کردیا کیونکہ وہ عارف حسن کے خلاف ایک اور گروہ کی حمایت کر رہے تھے۔ مسلح افواج نے اس وقت حکومت کے زیرِ انتظام پاکستان اسپورٹس بورڈ کو استعمال کرتے ہوئے 2013ء میں ایک اور نیشنل گیمز کا انعقاد کروایا جنہیں بعد میں قائدِاعظم گیمز کا نام دیا گیا۔
اس پر انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے پی او اے اور حکومتی نمائندوں کو سوئٹزرلینڈ طلب کیا اور پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ اس تنازعے کو حل کرے ورنہ آئی او سی سے معطلی کے لیے تیار ہوجائے۔
ملکی اسپورٹس کے بہترین مفاد میں حکومت نے پی او اے کو اپنی اسپورٹس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے مجبور نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ اس وقت سے پی او اے ملکی اسپورٹس پالیسی کے دائرہ کار سے باہر رہ کر کام کررہی ہے۔
پی او اے کی ویب سائٹ
اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ 16 سالوں میں کس طرح عمومیت پسندی کے کلچر کو فروغ دیا گیا ہے، تو اس کے لیے آپ کو صرف پی او اے کی ویب سائٹ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 16 سالوں میں لیجنڈ ایتھلیٹس کی تصویریں اور معلومات جمع کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی نہ ہی نیشنل گیمز میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کی تاریخوں میں کئی غلطیاں ہیں، جبکہ 2014ء کے انچیون گیمز کا ویب سائٹ پر کوئی حوالہ ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ 2010ء، 2014ء اور 2018ء کے کامن ویلتھ گیمز کے حوالے سے بھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس کے بجائے طویل عرصے قبل وفات پاجانے والے لوگوں کا نام اب بھی عہدیداروں کی فہرست میں موجود ہے۔
ملک میں موجود کھیلوں سے تعلق رکھنے والا حلقہ اب اسپورٹس مافیاؤں کے ان چہروں سے تنگ آگیا ہے۔ اچھا یہی ہوگا کہ وزیرِاعظم اور صدر ادب و احترام کے ساتھ عارف حسن کو اسی طریقے سے عہدہ چھوڑنے کے لیے کہیں جس طریقے سے وہ تعینات کیے گئے تھے۔ یا پھر آئی او سی کی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد حکومت کھیلوں کی بحالی و ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا چاہے گی۔ اگر سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو جو سلسلہ چلتا آ رہا ہے وہی چلتا رہے گا۔
یہ مضمون 15 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔