تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرکے تعلیم کو وسعت دینے کا وعدہ کیا کھلا تصاد نہیں؟


ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی تعداد 6 اور 7 فیصد سے 15 فیصد تک یعنی 100 فیصد تک اضافہ، اعلیٰ تعلیم کے معیار میں بہتری، ’متعلقہ‘ اعلی تعلیم کے رجحان کو تقویت دینا، دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کو ووکیشنل تربیت کی فراہمی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کو چُھونا۔
گزشتہ چند برسوں سے حکومتیں انہی ساری باتوں کو اپنے مقاصد اور ترجیحات ٹھہراتی چلی آ رہی ہیں۔ ماضی کے بجائے اگر آج بھی آپ کسی سرکاری افسر سے پوچھیں کہ کیا اعلیٰ تعلیم حکومتی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے؟ تو جواب آئے گا، جی ہاں! بالکل۔
لیکن اس کے باوجود حکومت نے رواں برس اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی کی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یونیورسٹیوں کے ری کرنٹ اخراجات کے لیے مختص بجٹ میں 15 سے 20 فیصد تک کٹوتی کردی گئی ہے۔ مجوزہ توسیع کے منصوبوں کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے جتنی رقم مانگی تھی اس کے مقابلے میں تو یہ بہت قلیل رقم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں جو ترقیاتی اخراجات کا حصہ ہے، اس میں تو اور بھی زیادہ گہری کٹوتیاں کی گئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کے وسائل میں نمایاں کمی لاکر آخر کس طرح اعلیٰ تعلیم میں بہتری لانے اور اسے وسعت دینے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتی ہے؟
ہمیں مالی طور پر دشوار حالات کا سامنا ہے، ایسے میں حکومت نے بحران سے نکلنے کے لیے اپنی تدبیروں اور آئی ایم ایف کے وعدوں کے پیش نظر تمام سرکاری محکمہ جات پر ’کفایت شعاری‘ کی پالیسی لاگو کردی ہے۔ کیا ایچ ای کٹوتیاں اسی کفایت شعاری کے پلان کا حصہ ہیں؟ جب معیشت میں استحکام آئے گا (جو امید ہے کہ جلد ہی آئے گا) تو کیا وسائل میں پھر سے اضافہ کیا جائے گا؟ دیگر لفظوں میں کہیں تو، کیا یہ قلیل المدت تنزلی ہے جس کا ایک آدھ سال میں خاتمہ ہوجائے گا؟
اگر تعلیم اوّلین ترجیح ہے تو اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کیوں؟ حکومت کو ہمیشہ، حتیٰ کہ کفایت شعاری مہم کے دوران بھی، یہ پورا پورا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ کفایت شعاری کا کتنا بوجھ کون سا شعبہ برداشت کرے گا۔ اور اگر کفایت شعاری اتنی ناگزیر تھی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص رقم کو یونیورسٹی کی عام ضروریات اور ایچ ای سی کے اختیار سے باہر متوقع یا ممکنہ منصوبوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کیوں تقسیم کیا گیا ہے؟
کفایت شعاری کی ضرورت شاید اتنی جلدی ختم نہ ہو جس کی توقع کچھ لوگوں کو ہے۔ یہ سچ ہے کہ میکرو سطح پر اقتصادی حالات میں کچھ بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں لیکن پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں وقت لگے گا۔
ہم پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے جنہیں اقساط کی صورت میں واپس ادا کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر معیشت بہتر ہو بھی جاتی ہے، یہ ’اگر‘ بہت اہمیت رکھتا ہے، تب بھی ہمارے پاس اتنی مالی گنجائش نہیں ہوگی کہ اخراجات میں فوری طور پر اضافہ کرسکیں، ہر ضلع میں یونیورسٹیاں بنائیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی تعداد دگنی کرسکیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔