’لوگ مسخرہ سمجھتے ہیں مگر ہم بھی انسان ہیں‘
’لوگ مسخرہ سمجھتے ہیں مگر ہم بھی انسان ہیں‘
وہ ہمیں شاپنگ مالز، پارکس، تفریحی مقامات، کسی افتتاحی یا تشہیری تقریب اور کبھی بچوں کے پلے ایریا میں نظر آجاتے ہیں۔ کبھی یہ رنگین کپڑوں میں ملبوس کارٹون کردار بنے ہوئے، کبھی جوکر کے روپ میں تو کبھی لانگ مین کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے: ہسنانا اور تفریح فراہم کرنا۔
رات گئے تک لوگوں کا دل بہلاتے ہوئے یہ پسینے میں شرابور وجود پل میں مختلف کرداروں کو نبھانا جانتے ہیں، لیکن ہنستے مسکراتے کارٹون کرداروں کے علاوہ ان کا ایک روپ ایسا بھی ہے جس پر لوگوں کی توجہ نہیں جاتی اور نہ ہی وہ اس حوالے سے دلچسپی لینا چاہتے ہیں۔ وہ روپ ہے ان کا حقیقی کسمپرسی سے دوچار روپ کہ جس کو چاہ کر بھی وہ بدل نہیں سکتے۔
انہیں زندگی میں کن دشواریاں کا سامنا ہے، یہ جاننے کے لیے شاید ہی ہم نے کبھی کوشش کی ہو۔
ایک مزاحیہ فنکار ہمیں کتنا ہی ہنساتا کیوں نہ ہو مگر اس کی اپنی زندگی کا دامن بھی دکھوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لوگوں سے اپنے آنسو چھپائے اور چہرے پر میک اپ کی تہ جمائے یہ نوجوان اب مارکیٹ آئٹم بن گئے ہیں۔ یہ دہاڑی پر کام کرتے ہیں اور انہیں تو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی کہ یہ اپنی حقیقی زندگی میں کبھی مسکرا بھی سکیں۔