سوال 19 کروڑ پاؤنڈ کا!


ملک ریاض اور ان کے 19 کروڑ کا معاملہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے اور اس میں کوئی حیرانی کی بات بھی نہیں۔
پڑوس میں مودی سرکار اکثریت پسند استحصالی حاکمیت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے، وکلا نے ہسپتال میں دھاوا بول کر ہمیں یاد دلایا کہ ہم کس قدر انتقامی، ہجومی تشدد کی ذہنیت سے بھرپور سماج میں رہتے ہیں، اور آصف زرداری کی ضمانت بالآخر منظور کرلی گئی ہے۔
ان میں سے چند اہم معاملات گہری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن آخر میں ایسے سارے معاملات مسلسل گھومنے والی ’بریکنگ نیوز‘ کی چرخی گھمانے والے چھوٹی گراریاں ہی ثابت ہوتے ہیں۔
ملک ریاض کے معاملہ نے عام سماجی سطح پر زیادہ خودشناسی کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ یہ ایک منصفانہ سماج کے اصولوں اور تصورات کو آزماتا ہے۔ اب تو خیر یہ سب کو پتا ہے کہ پاکستان پر امیروں اور طاقتوروں کا غلبہ ہے، جو اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے سیاسی و اقتصادی فوڈ چین میں اوپر سے لے کر نیچے تک ذاتی مفادات کی خاطر بڑی ہوشیاری سے اتحاد قائم کرتے ہیں۔
لیکن اس اخبار کے کئی دیگر معزز قارئین اور ان جیسے افراد کا کیا؟ نہیں میرا یہاں مطلب دنیا کے کسی بھی طرح سے مصیبت زدہ افراد سے نہیں بلکہ ان سے ہے جو حکمران طبقے کا حصہ نہیں ہیں۔
اکثریت خود کو فرضی متوسط طبقے کا حصہ بتائے گی، جن میں سے چند کلونیل دور اور دیگر ماضی قریب میں اس دائرے میں داخل ہوئے۔ خیر تاریخ چاہے کتنی بھی پرانی رہی ہو، لیکن یہ تو صاف ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کا ان فریب کارانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں جو ملک ریاض اینڈ کمپنی کی بسائی ہوئی دنیا میں ہو رہی ہوتی ہیں۔
معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا، یہ بے تعلقی ظاہر کرنا ایسا ہی ہے جیسے شتر مرغ کا اپنا سر ریت میں دھنسانا۔
ملک ریاض نے نہ صرف ہمارے حکمران ٹولے کی ناجائز نفع خوری کا چہرہ دکھایا ہے بلکہ انہوں نے بہت سے ’عام‘ پاکستانیوں میں چاردیواری میں بند رہائشی علاقوں میں محفوظ، بنیادی سہولیات کی بلاتعطل فراہمی کے ساتھ ’باعزت‘ زندگی گزارنے کی شدید تمنا کو بھی آشکار کیا ہے۔
آبادی کے اس خاص طبقے کو کسی مخصوص نظریاتی شناخت یا سیاسی وابستگی تک محدود نہیں کیا جاسکتا، لیکن انہوں نے اس تصور کو گھول کر پی لیا ہے کہ ’سرکاری شعبہ‘ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ بحریہ، ڈی ایچ اے یا پاکستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اس طرح کی دیگر رہائشی اسکیموں کی فراہم کردہ رہائشی، تعلیمی، طبّی و دیگر سہولیات کو بہترین و معیاری قرار دیا جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ کہ ان میں سے چند تو وہاں رہنا نہیں چاہتے، اور وہ ایک یا 2 پلاٹ صرف اس لیے خرید لیتے ہیں کہ یہ آگے چل کر بچوں کی تعلیم یا بڑھاپے میں اخراجات پورے کرنے میں مدد دے سکیں۔