پاکستان

جسٹس آصف سعید کھوسہ: 'عدالتی فیصلوں' سے 'حکومت کی آئینی اصلاح' تک

جسٹس آصف سعید نے ازخود نوٹس کا استعمال کم کرنے اور پیش رو کے شروع کیے گئے کاموں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 17 جنوری 2019 کو سبکدوش ہونے والے اپنے پیش رو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر 'ازخود نوٹس کا استعمال' کم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنے پیش رو کی جانب سے شروع کیے گئے کاموں کو جاری رکھیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو کم سے کم استعمال کرنے کے اعلان پر جہاں ایک جانب وکلا اور سینئر قانون دان سب ہی حیران تھے وہیں ان کے اس اعلان کو کچھ وکلا کی جانب سے کافی سراہا بھی گیا، جو عدالت عظمیٰ کے اس اختیار کے 'غیر ضروری' استعمال کے خلاف تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی مدت ملازمت کے آخری روز تک اپنے اعلان پر قائم رہے اور ایک بھی از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا۔

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار ملکی تاریخ کے دوسرے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ از خود نوٹس لیے ان سے پہلے یہ اعزاز سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو حاصل تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ حلف برداری کی تقریب میں موجود ہیں — فائل فوٹو: پی ایم ہاؤس

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رواں سال نومبر کے اواخر میں سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل کرنے کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن چیف جسٹس نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انہوں نے اس درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل نہیں کیا بلکہ درخواست پر آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد کے تحت سماعت کی گئی۔

مزید پڑھیں: مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے رواں سال اپنے پیش رو جسٹس میاں ثاقب نثار کی ملازمت کی مدت مکمل ہونے کے بعد 18 جنوری 2019 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا وہ اس عہدے پر 3 سو 47 دن تک فائز رہنے کے بعد 20 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہوگئے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری— فائل فوٹو

ان کے بعد اس عہدے پر جسٹس گلزار احمد فائز ہوں گے جو یکم فروری 2022 تک چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔

چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے سے شہرت ملی تھی جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔

ایک اندازے کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس بننے سے قبل 18 سال سے زائد عرصے میں جج کی حیثیت سے 50 ہزار کے قریب مقدمات کے فیصلے سنائے تھے۔


2 جنوری 2019 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنانے کی منظوری دی تھی اور وزارت قانون نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019 کو ریٹائر ہوئے تھے، جن کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 18 جنوری 2019 کو 26ویں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ— فائل فوٹو: امتیاز علی

انہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے سے شہرت ملی جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔

انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشنز حاصل کیں، اسی یونیورسٹی سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں 3 مرتبہ نیشنل ٹیلنٹ اسکالرشپ سے نوازا گیا۔

ماسٹرز ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برطانیہ کا رخ کیا، جہاں کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔

20 سال تک وکالت جاری رکھنے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔

مئی 1998 میں آصف سعید کھوسہ لاہور ہائی کورٹ میں جج مقرر ہوئے اور جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔

اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔

علاوہ ازیں جسٹس آصف سعید کھوسہ 4 کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں، ہیڈنگ دی کانسٹیٹیوشن، کانسٹیٹیوشنل اپولوگس، ججنگ ود پیشن اور بریکنگ نیو گراونڈ شامل ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لمز یونیورسٹی، بی زیڈ یو اور پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں قانون پڑھانے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے، ایک اندازے کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس بننے سے قبل 18 سال سے زائد عرصے میں 50 ہزار کے قریب مقدمات کے فیصلے سنا چکے تھے۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ میں میاں ثاقب نثار کے ساتھ گزشتہ 20 سال سے ہوں اور آج ہم دونوں علیحدہ علیحدہ ہوجائیں گے۔

اپنے پیش رو کی تعریف کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کا کہنا تھا کہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی اور اس دوران انہوں نے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی مشکلات سمیت کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کیا۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار— فائل فوٹو

اپنی تعیناتی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں بطور چیف جسٹس، انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کروں گا جبکہ ماتحت عدالتوں میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کے جلد تصفیے کی کوشش کی جائے گی اور غیر ضروری التوا کو روکنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، اس کے علاوہ وہ ملک میں جعلی مقدمات کے خلاف بند بھی بنائیں گے اور عرصہ دراز سے زیر التوا مقدمات کا قرض اتاریں گے۔

ماتحت عدالتوں کو متنبہ کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ عدالتِ عالیہ کو اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہیں جبکہ ازخود نوٹس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے شروع کیے گئے کاموں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے پیش رو کی طرح وہ بھی پاکستان میں ڈیم کی فوری تعمیر اور قرض اتارنا چاہتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی ان باتوں پر عمل درآمد کروانے کی بھرپور کوشش کرتے نظر آئے اور عدالتی نظام میں اصلاحات اور تبدیلیوں کے حوالے سے متعدد اقدامات کی ابتدا بھی کی اور ساتھ ہی زیر التوا مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے۔


چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سامنے آنے والے اہم کیسز اور معاملات:


چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر چلنے والے اکاؤنٹس کے بارے میں وضاحتی بیان جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام سے بنایا جانے والا جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ

بیان میں بتایا گیا تھا کہ مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام سے چلنے والے تمام اکاؤنٹس جعلی ہیں، مزید اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ معزز جج فیس بک اور ٹوئٹر کا کوئی اکاؤنٹ یا پیج استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی سوشل میڈیا کی کسی اور ویب سائٹ پر ان کی کوئی آئی ڈی موجود ہے۔

سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے سے متعلق دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے فیسوں کو جنوری 2017 کی سطح پر منجمد کرتے ہوئے کسی بھی اضافے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے بھاری فیس وصول کرنے والے اسکولوں کی فیسوں میں 20 فیصد کمی اور پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کی گئی تھی جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسکولوں کے مالکان نے عدالت عظمٰی سے رجوع کیا تھا۔

— فائل فوٹو

13 ستمبر کو عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں درخواستوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس فیصل عرب بھی شامل تھے، یہ درخواستیں نجی اسکولوں اور طلبا کے والدین کی جانب سے فیسوں میں اضافے کی حمایت اور مخالفت میں جمع کروائی گئی تھی۔

عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے 69 صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ نجی اسکولوں نے 2017 کے بعد فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا تاہم اب نجی اسکولوں کی فیس وہی ہوگی جو جنوری 2017 میں تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریگولیٹری اتھارٹی نجی اسکولوں کی جانب سے وصول کی جانے والی فیسوں پر نظر رکھیں گے تاکہ قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جا سکے۔

29 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دیئے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے شواہد کو درست نہيں پڑھا جس کی وجہ سے ریکارڈ کی جانچ پڑتال میں واضح غلطی سامنے آئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ساتھی طالب علم کی جانب سے 23 مرتبہ خنجر کے وار سے زخمی ہونے والی خدیجہ صدیقی سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ ہائی کورٹ اس حوالے سے مستقبل میں بہتر کام کرے گا‘۔

خیال رہے کہ 23 جنوری 2019 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے خدیجہ صدیقی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرکے عدالت سے جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

خدیجہ پر ملزم شاہ حیسن نے حملہ کیا تھا — فائل فوٹو

واضح رہے کہ شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو لاہور کے علاقے شملہ ہل کے نزدیک قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر خنجر سے حملہ کیا۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شواہد میں کئی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے اور اس کی غلط تشریح کیے جانے کی نشاندہی کی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس کیس میں شواہد کی جانچ پڑتال کا کام نامکمل تھا اور اس کی غلط تشریح بھی کی گئی جبکہ ریکارڈ کو پڑھا بھی نہیں گیا، جس کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سنگین غلطی سامنے آئی اور انصاف نہیں ہوسکا اور معاملے پر سپریم کورٹ کو شامل کرنا پڑا‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’بری کرنے کا فیصلہ سنگین نوعیت پر غلط تشریح، شواہد کو نہ پڑھنے کی وجہ سے سامنے آیا اور کیس کا حتمی نتیجہ خطرناک تھا تاہم فیصلے میں مداخلت سے استثنیٰ حاصل نہیں تھا‘۔

واضح رہے کہ چيف جسٹس آصف سعيد کھوسہ نے خدیجہ صدیقی کیس کا 16 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ خود تحریر کیا تھا۔

7 مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف نظر ثانی درخواست پر وفاقی حکومت سے استفسار کیا تھا کہ حکومت بتائے اب تک مشرف کی واپسی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی تھی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ یہ تو کیس بھی درج ہو گیا ٹرائل ہو رہا ہے، جس پر درخواست گزار توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف ملک سے باہر ہیں اور ٹرائل رکا ہوا ہے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف — فائل فوٹو: رائٹرز

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خصوصی عدالت کو فوری کارروائی کا حکم دیا گیا تھا، جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، مشرف باہر بیٹھ کر ٹی وی انٹرویو دیتے ہیں، اس کے علاوہ وہ 3 ماہ تک اے ایف آئی سی میں بیٹھے رہے لیکن عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہے، جس کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت بنائی گئی اور عبدالمجید ڈوگر کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا جلد از جلد ٹرائل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ پرویز مشرف کے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل رکا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے ان کو بلانے کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ کہا گیا کہ عدالت نے انہیں باہر جانے دیا جبکہ 'عدالت نے نہیں حکومت نے انہیں جانے دیا تھا'۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تو حکومت پر بات ڈالی تھی، کیا کسی ملزم کے ہاتھوں حکومت یر غمال بن جائے اور کیا کوئی ملزم نہ آئے تو عدالت بے بس ہو جاتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ہو سکتا ہے، اگر پھر بھی بیان نہیں دیتے تو سمجھا جائے گا کہ انکاری ہو گئے ہیں اور خصوصی عدالت ملزم کے ہر بیان کے آگے انکار لکھ سکتی ہے۔

دہشتگردی کی تعریف کے تعین کیلئے لارجر بینچ کی تشکیل

20 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ لارجر بینچ تشکیل دیا، جس کی سربراہی خود چیف جسٹس نے کی۔

لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ 7 رکنی یہ بینچ دہشت گردی کی حتمی تعریف پر فیصلہ دے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ 1997 سے اب تک یہ طے نہیں ہوا کہ کون سا کیس دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، اسی دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے 7 رکنی بینچ بنا دیا ہے۔

بعد ازاں 30 اکتوبر 2019 کو سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے منظم انداز میں پر تشدد کارروائی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو تعریف تعین کرنے کے لیے تجاویز دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف کے حوالے سے فیصلہ سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی تھی اور چیف جسٹ نے 59 صفحات پر مشتمل فیصلہ خود تحریر کیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائی، حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف وہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے۔

دہشت گردی کی واضح تعریف کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ منصوبے کے تحت مذہبی طور پر فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں، کارباری برادری، عوام اور سماجی شعبے پر حملے کرنا دہشت گردی ہے۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں تحریر کیا کہ منظم انداز میں منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کا قانون انتہائی وسیع ہے، پاکستان میں 1974 سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مختلف قوانین متعارف کروائے گئے جس میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی اقدامات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

انسداد دہشت گردی کے قانون کے زمرے میں دیگر واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا جلاؤ گھیراؤ، بھتہ خوری اور مذہبی منافرت دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا اور ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث پولیس، افواج پاکستان اور سرکاری ملازمین کے خلاف پر تشدد واقعات میں ملوث ہونا دہشت گردی نہیں۔

24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیراعظم نواز شریف لاہور کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا جبکہ انہیں لاہور کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیے گئے تھے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ مل ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی 7 سال قید کی سزا کے خلاف ضمانت کی درخواست 25 فروری کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی لیکن وہ اس مقررہ میعاد کے دوران بیرون ملک نہیں جاسکیں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی تھی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 6 ہفتوں کی ضمانت کی مقررہ میعاد پوری ہونے پر نواز شریف کو سرنڈر کرنا ہوگا لیکن نواز شریف اس دوران اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرواسکیں گے۔

جس کے بعد انہیں 27 مارچ کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

24 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ نے موبائل فون ٹیکس سے متعلق کیس میں جون 2018 کو جاری کیے گئے حکم امتناع کو واپس لیتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کردیے تھے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے موبائل فون کمپنیوں سے اضافی ٹیکس وصولی سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔

خیال رہے کہ 3 مئی 2018 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران موبائل فون بیلنس پر اضافی کٹوتی کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

8 مئی کو اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیوں کی جانب سے سیلز اور ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ٹیکس کس قانون کے تحت وصول کیا جارہا ہے اور حکم دیا تھا کہ مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ پیش کیا جائے۔

جس کے بعد 11 جون 2018 میں سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکس معطل کردیے تھے۔

تاہم رواں برس فروری میں حکومت کی جانب سے ریونیو شارٹ فال اور بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کوئی نئے ٹیکس کے نفاذ کے بجائے موبائل فون کارڈ پر ٹیکسز کی بحالی کے لیے ایک متبادل فارمولا سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

27 مئی 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کرکے ای-کورٹ کی ابتدا کی اور اس حوالے سے دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کرتے ہوئے ای-کورٹ سماعت کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

کیس کی سماعت عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں ہوئی جبکہ جج صاحبان سپریم کورٹ، اسلام آباد میں موجود تھے جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت کی تھی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کیس کے ملزم نور محمد خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست سے متعلق کیس کی ای-کورٹ سماعت کی تھی۔

ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت ہورہی ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ پبلک ریلیشنز

اسلام آباد سے کیس کی ای-کورٹ سماعت کے دوران فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملزم کی درخواست ضمانت منظور کی جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست ضمانت پر فیصلے میں تاخیر کی انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔

ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا یہ تجربہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور بینچ میں شامل مزید 2 جج صاحبان دنیا کی تاریخ کے پہلے جسٹس جبکہ سینئر ایڈووکیٹ یوسف لغاری دلائل دینے والے پہلے وکیل بھی بن گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ماڈل کورٹ اس لیے بنائیں تاکہ کیس 3 دن میں نمٹ سکے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہی 'ای کورٹ سسٹم' کا پہلی مرتبہ آغاز ہوا ہے اور ای کورٹ ای کورٹ سے کم خرچ سے فوری انصاف ممکن ہوسکے گا اور سائلین پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔

سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کندرانی نے پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو مبارکباد پیش کی۔

9 جون 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برطانیہ کے دورے کے موقع پر یونین آف دی کیمبرج یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس عدالت میں ہے جو اس معاملے میں انصاف کو یقینی بنائے گی۔

چیف جسٹس سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لندن میں موجود جائیدادوں کے حوالے سے منی ٹریل طلب کریں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں موجود ہے لہٰذا اس پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی اس لیے حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہیں ہٹاسکتی‘۔

جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ— فائل فوٹو: ڈان

خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے صدارتی ریفرنس کی سماعت 14 جون کو مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا تھا۔

صدر مملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کریم خان آغا پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزمات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو دو خطوط لکھے تھے اور پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہونے والے متوقع ججوں میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے، تو اس کی نقل فراہم کردی جائے، ’مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہورہا ہے‘۔

رواں سال 25 نومبر کو جیورسٹ فاؤنڈیشن نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر آگلے ہی روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن ایک روز تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیے تھے۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔

ان کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 میں ختم ہورہی تھی تاہم رواں سال 19 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے وکیل ریاض حنیف راہی کے توسط سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات

سماعت کے آغاز پر ہی درخواست گزار جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہے، درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہیں جبکہ اس درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی ہے یا بغیر دباؤ کے، اس لیے ہم درخواست واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ — فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسرے روز یعنی 27 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کو تعینات کیا جارہا ہے، آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایا گیا، کل تک اس معاملے کا حل نکالیں، ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بھی دیکھنے میں آئے کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، ماضی میں 5 سے 6 جنرلز 10، 10 سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں تاہم آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، پہلا معاملہ قانونی ہے، دوسرا طریقہ کار سے متعلق ہے اور تیسرا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات ہیں، پہلے 2 معاملات بہت اہم ہیں پھر ہمیں فیصلہ دینا ہوگا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی مسلسل تیسرے اور آخری روز سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی تھی۔

اس اہم کیس پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر کی رات ختم ہورہی تھی اور حکومت کے پاس یہ آخری موقع تھا کہ وہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے اقدام پر عدالت کو مطمئن کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے 18 نومبر 2019 کو ہزارہ موٹروے کے ایک حصے کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ 'میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آنے والے جسٹس گلزار احمد کی بہت عزت کرتا ہوں اور میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کو انصاف دے کر آزاد کردیں'، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ 'پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ طاقتور کے لیے ایک اور کمزور کے لیے دوسرا قانون موجود ہے'۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'ہماری تاریخ رہی ہے کہ طاقتور ٹیلیفون کرکے فیصلے لکھواتے رہے ہیں، بریف کیس پکڑ کر ایک چیف جسٹس کو فارغ کروادیا گیا، ہمارے ملک کی تاریخ ہے کہ طاقتور کو ہمارا قانون ہاتھ نہیں لگا سکتا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'میں چیف جسٹس سے کہتا ہوں کہ اس تاثر کو ختم کریں، ہم پوری طرح آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن عدلیہ نے ہمارے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے'۔

یاد رہے کہ وزیراعظم کا یہ بیان سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت اور انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا تھا۔

چیف جسٹس کا رد عمل

سپریم کورٹ میں 20 نومبر 2019 کو موبائل ایپ، کال سینٹر اور ریسرچ سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے مذکورہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس کیس پر وزیراعظم نے بات کی انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کیس میں انہوں نے کسی کو خود باہر جانے کی اجازت دی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے 2 روز قبل خوش آئند اعلان کیا کہ وہ انصاف کے شعبے میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، وزیراعظم کی اس بات کا خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ ابھی تک جو ہم نے حاصل کیا وہ بغیر وسائل کے تھا اور وسائل کی کمی محسوس ہورہی تھی اور یہ اعلان بہت بروقت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ بھی وزیراعظم نے طاقت ور اور کمزوروں کے بارے میں بات کی، جس جانب ان کا اشارہ تھا وہ معاملہ زیر التوا تھا اس لیے میں کچھ نہیں کہتا، تاہم میں آپ کے توسط سے پورے ملک کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں عدلیہ میں سول جج سے سپریم کورٹ تک تقریباً 3 ہزار ایک سو مجسٹریٹ اور ججز ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ سال ان 3 ہزار ایک سو مجسٹریٹ اور ججز نے 36 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ان 36 لاکھ میں شاید ایک یا دو ہی طاقتور لوگ ہوں گے جبکہ باقی سب اس کمزور طبقے کے تھے جن کے کیسز نہیں سنے جاسکتے تھے، جن کی کہیں شنوائی نہیں تھی، عدالتوں نے انہیں ریلیف دیا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، ہمیں ان کا بہت احترام ہے کہ وہ ہمارے ملک کے منتخب نمائندے ہیں لیکن وسائل کے بغیر جو اب تک ہم نے کیا ہے شاید معاشرے کو اس کا اتنا علم نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے انہیں وسائل میں سپریم کورٹ میں 25 سال کا کرمنل اپیلز کا بیک لاک ختم کردیا، 1994 سے کرمنل اپیلیں زیر التوا تھیں، ان سب کے فیصلے ہوچکے ہیں، اس وقت صرف لاہور میں 2 اپیلیں زیر التوا ہیں جبکہ اسلام آباد میں صرف 20 سے 25 اپیلیں زیر التوا ہیں کیونکہ وہ دیگر کیسز سے جڑی ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہمیں پہلے کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن 2009 کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں یہ ایک ایسا سال تھا، جس کے بعد عدلیہ آزاد ہے، ہم صرف قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، ہمارے سامنے نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا ہے اور نہ ہی کوئی طاقت ور ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو یاد نہیں کہ ہم نے ایک وزیراعظم کو سزا دی اور ایک کو نااہل کیا، ساتھ ہی انہوں نے مکے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، ہمارے سامنے صرف قانون طاقت ور ہے کوئی انسان نہیں۔

9 دسمبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے تھے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ العزیزیہ اسٹیل ملز بدعنوانی ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے میں پوری طرح آزاد ہوگی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری تین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا کہ 'ہم ان پہلوؤں پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ ہائیکورٹ اپنے دائرہ اختیار اور صوابدید میں خود مختار ہے اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے متنازع ویڈیو کیس واضح کیا تھا کہ 'مذکورہ کیس میں ان کی آبزرویشن ہائیکورٹ کی سماعت پر اثرانداز نہیں ہوگی'۔

سابق وزیراعظم نواز شریف — فائل فوٹو

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آبزرویشن میں کہا تھا کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اصلی ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو فائدہ پہنچے گا، عدالت نے مذکورہ ریمارکس سابق وزیراعظم کی 23 اگست کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے آبزرویشن کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران دیے تھے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس سید منصور شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نواز شریف کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی اور اسے دلائل مکمل ہونے پر نمٹا دیا تھا۔

23 اگست کو عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کے اس وقت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو لیک اسکینڈل پر درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ارشد ملک کی ویڈیو کلپ صرف اس صورت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو فائدہ پہنچائے گی جب اسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے مناسب طریقے سے پیش کیا جائے گا۔

جج ویڈیو اسکینڈل

6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا تھا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

جج ارشد ملک — فائل فوٹو: ڈان نیوز

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

علاوہ ازین اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

جس کے بعد 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنایا تھا۔

29 جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کے مجرم کی سزا میں کمی کی درخواست کی سماعت کے دوران عمر قید کی سزا کی مدت کے تعین سے متعلق نوٹس لیتے ہوئے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

مجرم کے وکیل ذوالفقار ملوکا نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہارون الرشید کو قتل کے 12 مختلف مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی اور مجرم 1997 سے جیل میں ہے اور 22 سال سزا کاٹ چکا ہے، عدالت عمر قید کی 12 سزاؤں کو ایک ساتھ شمار کرنے کا حکم دے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ 'بڑے عرصے سے ایسے کسی کیس کا انتظار تھا جس میں عمر قید کی سزا کی مدت کا فیصلہ کریں، جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں اور اس طریقے سے مجرم 5 سال بعد باہر آجاتا ہے'۔

— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'بہت سی غلط فہمیوں کو درست کرنے کا وقت آ گیا ہے، کیا یہ غلط فہمی نہیں عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہے؟'

اس سے قبل بھی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمر قید کے قانون کی موجودہ تشریح کو غلط کہتے ہوئے ’مناسب وقت‘ پر اس کا جائزہ لینے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔

اسی حوالے سے 3 اکتوبر کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا تھا کہ ’قید کا قانون‘ کس طرح اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ عمر قید کی سزا 25 برس ہوگی؟

سپریم کورٹ کے 7 ججز پر مشتمل لارجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’کس بنیاد پر پاکستان پرزنز رول میں یہ لکھا گیا کہ عمر قید کی سزا 25 برس ہوگی جبکہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں عمر قید کی کوئی مدت متعین نہیں کی گئی‘۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اس الجھن کو دور کرنا مقننہ کی ذمہ داری ہے۔

19 ستمبر 2019 کو سپریم کورٹ نے 2010 میں ہونے والے سیالکوٹ کے دو حافظ قرآن بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 مجرموں کی سزائے موت 10 سال قید میں تبدیل کر دیا تھا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ معاشرے کو تشدد کی اجازت بالکل نہیں دی جا سکتی، اگر ہم ملزمان کو چهوڑ دیں گے تو لوگوں کو تشدد کرنے لائسنس مل جائے گا۔

عدالت نے 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی جبکہ عمر قید کی سزا پانے والے 5 ملزمان کی سزا بھی 10 سال قید میں تبدیل کی تھی۔

یاد رہے کہ اگست 2010 میں درجنوں افراد نے 18 سالہ حافظ محمد مغیث سجاد اور 15 سالہ محمد منیب سجاد کو 8 پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں تشدد کر کے قتل کر دیا تھا، بعد میں مشتعل ہجوم نے دونوں لاشیں ایک چوک میں الٹی لٹکا دی تھیں اور واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آتے ہی پورے ملک میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی تھی۔

کیس کی تحقیقات کرنے والے جسٹس (ر) کاظم ملک نے 2010 میں اپنے رپورٹ میں کہا تھا کہ دونوں لڑکے چور یا عادی مجرم نہیں تھے اور ان کے خلاف ڈکیتی یا موبائل فون چھینے کا ایک بھی کیس درج نہیں تھا۔

2011 میں دہشت گردی کی ایک مقامی عدالت نے 7 مجرموں کو سزائے موت، 6 کو عمر قید اور سابق ضلعی پولیس افسر سمیت 9 پولیس اہلکاروں کو 3، 3 سال قید سنائی تھیں جبکہ عدم ثبوتوں پر 5 ملزمان کو رہا بھی کیا تھا جبکہ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

علاوہ ازیں 13 میں سے 12 ملزمان نے اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی تھی۔

17 جون 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ذہنی بیمار قیدی غلام عباس کی پھانسی روک دی تھی، انہیں 18 جون کو تختہ دار پر لٹکایا جانا تھا۔

ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی قیدیوں کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم (این جی او) جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے غلام عباس کی پھانسی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست پر حکم سناتے ہوئے ذہنی بیمار قیدی غلام عباس کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔

واضح رہے کہ پڑوسی کو چُھڑی کے وار سے قتل کرنے کے جرم میں غلام عباس 2004 سے جیل میں سزا کاٹ رہا ہے اور انہیں 31 مئی 2006 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔

وہ جیل میں 13 سال سے زائد قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اور حال ہی میں صدر مملکت کو ان کے لیے رحم کی اپیل دائر کی گئی تھی۔


چیف جسٹس کی حیثیت سے آصف سعید کھوسہ کے اہم کیسز میں ریمارکس اور خطبات میں کی جانے والی نشاندہی:


وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 11 ستمبر 2019 کو نئے عدالتی سال کا فل کورٹ ریفرنس ہوا، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم کے علاوہ تمام ججز شریک ہوئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے اور بداعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 18 لاکھ 10 ہزار تھی، تاہم اب لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہوکر 17 لاکھ 80 ہزار ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ میں 19 ہزار 7 سو 51 مقدمات کا اندراج ہوا جبکہ عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 6 سو 84 مقدمات نمٹائے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی سپریم کورٹس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ای-کورٹ کا نظام متعارف کروایا، اس نظام کے ذریعے عدالت عظمیٰ، پرنسپل سیٹ اور تمام رجسٹریاں ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک ہوئیں۔

'اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے'

29 جولائی 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسلام آباد میں فوری اور سستے انصاف کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے جب 1998میں ہائی کورٹ میں جج کا منصب سنبھالا تو میرے ساتھ دیگر 8 جج ہائی کورٹ میں آئے تھے اور بہت جلد ہمیں جنون گروپ ججز کہا جانے لگا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ججوں کو کسی کے دباؤ اور خوف کے بغیر فیصلے کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا ہے تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے۔

تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے اپنی عدالت میں لگے تمام مقدمات کا فیصلہ کر کے اٹھتا ہوں، میری عدالت میں مقدمات کارروائی کے لیے نہیں بلکہ فیصلے کے لیے لگتے ہیں اس لیے ہمیں عدالت میں فیصلہ کرنا چاہیے صرف دن نہیں گزارنے چاہیے۔

'وکلا بڑی تیزی سے اپنی عزت گنوا رہے ہیں'

22 جولائی 2019 کو اسلام آباد میں فیڈرل جودیشل اکیڈمی میں وکلا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکلا کی تربیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد تحریک بحالی عزت وکلا کی ضرورت ہے کیونکہ وکلا بڑی تیزی سے اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔

نوجوان وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری آپ کو نصیحت ہے کہ ایک وکیل کو کسی معاوضے کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ لوگوں کے لیے لڑیں اور انسانیت کی خدمت کریں، پیسہ اللہ آپ کو پہنچا دے گا، انسانیت کی مدد کریں اور دولت کے پیچھے مت بھاگیں، ہمیشہ محنت کریں کیونکہ محنت ہی کامیابی کی بنیاد ہے۔

وکلا کی تربیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام میں تربیت کا بہت فقدان ہے، وکلا کی تربیت لازمی ہے، برطانیہ میں لا گریجویٹس کی تربیت کرکے انہیں وکیل بنایا جاتا ہے۔

وکلا کو اپنی ساکھ کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک بحالی عدلیہ چلی تھی جس کے بعد عدلیہ آزاد ہوئی تھی اور بہت عزت ملی تھی اور اب تحریک بحالی عزت وکلا کی ضرورت ہے کیونکہ وکلا بڑی تیزی اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔

'بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہوگا'

4 مارچ 2019 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جھوٹی گواہی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی، کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، تمام گواہوں کو خبر ہو جائے، بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔

دوران سماعت سپریم کورٹ میں جھوٹے گواہ اے ایس آئی خضر حیات پیش ہوئے، انہیں عدالت نے ایک کیس میں جھوٹی گواہی دینے پر طلب کیا تھا، کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پولیس اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ وحدت کالونی لاہور میں کام کر رہے تھے اور نارووال میں قتل کے مقدمے کی گواہی دے دی، حلف پر بیان دیا جبکہ حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے، اگر انسانوں کا خوف نہیں تھا تو اللہ کا خوف کرنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ آج سے جھوٹی گواہی کا خاتمہ کر رہے ہیں اور آغاز اس جھوٹے گواہ سے کر رہے ہیں، اسلام کے مطابق بھی گواہی کا کچھ حصہ جھوٹ ہو تو سارا بیان مسترد کیا جاتا ہے، جس کے بعد عدالت نے مقدمہ سیشن جج نارووال کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ سیشن جج خضر حیات کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت کارروائی کریں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیتے ہوئے 13 فروری کو جھوٹے گواہ خضر حیات کو طلب کیا تھا جبکہ ملزم محمد الیاس کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ محمد الیاس پر 2007 میں ضلع ناروال کے علاقے میں آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے محمد الیاس کو سزائے موت سنائی تھی۔

اس سے قبل 20 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے جھوٹے گواہ محمد ارشد کے معاملے میں فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو شکایت درج کرانے کی ہدایت کی تھی۔

'صنفی امتیاز سے متعلق الگ عدالتیں قائم ہوں گی'

27 جولائی 2019 کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں صنفی تشدد سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ صنفی بنیادوں پر تشدد کی روک تھام سے متعلق عدالت پروگرام کا حصہ ہے اور جلد صنفی امتیاز سے متعلق الگ عدالتیں قائم ہوں گی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ 'آئین کے مطابق تمام لوگ برابر ہیں، صحیح ثبوت کے بغیر انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا اور جھوٹی گواہی انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، قتل کے کیسز میں اکثر عینی شاہدین جھوٹی گواہی دیتے ہیں، جھوٹی گواہی دینے والوں کو سزا دے کر مثال قائم کرنی چاہیے'۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'فوری انصاف کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے، انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیز اور بہتر بنانے کے لیے نوجوان وکلا کو قانون کی معیاری تربیت فراہم کر رہے ہیں، وکلا کے ساتھ تفتیشی افسران کو بھی تربیت فراہم کر رہے ہیں، سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس اہم کردار ادا کر رہی ہیں ان کورٹس سے ہائیکورٹس پر مقدمات کے بوجھ میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ ای کورٹس کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 37 خواتین کو تحفظ دیتا ہے، ہمیں عدالتی کارروائی میں صنفی مساوات کا خیال رکھنا چاہیے، صنفی بنیادوں پر تشدد کی روک تھام سے متعلق عدالت پروگرام کا حصہ ہے اور جلد صنفی امتیاز سے متعلق الگ عدالتیں قائم ہوں گی۔

'خواتین ججز عدالتوں میں مردوں کی طرح سخت رویہ اختیار نہ کریں'

یکم دسمبر کو لاہور میں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر انتظام تیسری خواتین ججز کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا تھا کہ خواتین ججز بہت سارے مقدمات میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لیے کوشش کریں کہ عدالتوں میں مرد ججوں کی طرح سخت رویہ اختیار نہ کریں بلکہ مقدمات کی کارروائی اور فیصلوں پر توجہ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بہت سارے وکلا خواتین ججز کے سامنے پیش ہونے کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں، خواتین ججوں کو نااہل سمجھا جاتا ہے لیکن بطور خواتین ججوں فریقین آپ کے رویے سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

انہوں نے مزید کہا تھا کہ خواتین ججوں کی عدالتوں سے مقدمات ٹرانسفر کرنے کی درخواستیں دی جاتی ہیں لیکن خواتین ججز اپنے رویے، کوڈ آف کنڈکٹ اور فیصلوں سے منفی لوگوں کی سوچ کو بدلیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نام نہاد مردوں کی دنیا میں خواتین ججوں کو غیرمعمولی اقدامات کرنے پڑتے تھے جو بہت مشکل اور سخت ہوتے ہیں تاکہ انہیں سنجیدہ لیا جائے لیکن خواتین کو عدالتوں میں ان کی کارروائی کے مطابق سنجیدہ لیا جائے کہ وہ مقدمے کو کس طرح لے کر چلتی ہیں اور کیا فیصلہ کرتی ہیں جو میرے تصور میں ایک اچھے جج کی نشانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ججوں کا سخت رویہ وکلا اور فریقین پر برا اثر ڈالتا ہے. عدالتوں کو شائستہ انداز میں میرٹ اور قانون کے مطابق چلائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو معاشرے میں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے، وراثت میں حق کا معاملہ ہو یا روزمرہ گھریلو تشدد کا سلسلہ، خواتین کی اکثریت ایسے مظالم کا شکار ہے، ہمارا آئین اور مختلف قوانین خواتین کو خاص حقوق دیتے ہیں، ضابطہ فوجداری کے تحت خاتون ملزم کو ضمانت کے حصول میں آسانی موجود ہے۔

فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے'

20 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے ‏متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے، آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے اور آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ طلب کرنے پر فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہوگی اور فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے، 25ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا، وفاق نے 25 ویں ترمیم کے بعد کوئی قانون سازی بھی نہیں کی۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔

17 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو فاٹا اور پاٹا میں امن اور حکومت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔

2011 میں صدر مملکت نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا، ان قوانین میں واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کی وجہ سے قانون کی ضرورت بڑھ گئی۔

فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے'

15 نومبر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ سے ‏متعلق کیس کی سماعت کی تھی اور اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اقرار کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں بنائے۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ حراستی کیمپ کے قواعد میں زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے پھر آپ نے زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی؟

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت پر سوال کیا؟ اور ریمارکس دیے کہ یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں کیونکہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔

فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس:'یہ ‏موجودہ دور کا سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے'

اس سے قبل 14 نومبر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس سے ‏متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ‏موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے، کیا معلوم کتنے ہزار لوگ حراست میں ‏ہیں؟ پہلے آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیں گے، زیر حراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے جبکہ ‏وزارت دفاع کا جواب آنے پر ہی فوج کے مینڈیٹ کا اندازہ ہوگا۔

چیف جسٹس کے 2008 میں فوج کو طلب کرنے کے مقصد سے متعلق ‏استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلایا گیا، حراستی ‏مراکز 2011 میں بنے جبکہ جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کیا گیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی ‏ہزار خاندانوں کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہے۔

'جج وقت پر فیصلہ نہ کرے تو قاصد اور اس میں کوئی فرق نہیں'

29 نومبر 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ملتان میں ایک تقریب سے خطاب میں ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘کبھی کوئی واقعہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی قسم کے حالات پیدا ہوں کہ عدالت کے اندر بدمزگی پیداہوجائے یہ قابل تصور تھا کیونکہ ماحول ایسا تھا اور تربیت دینے والے ایسے تھے تو اب حالات وہ نہیں رہے’۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘جوڈیشل اکیڈمی میں ججوں کو لیکچر دیتا ہوں جہاں ایک مثال دیتا ہوں اس سے اہم مثال کوئی ہے ہی نہیں، میں ان کو بتاتا ہوں کہ کورٹ روم میں ایک جج صاحب بیٹھا ہے، ان کے آگے اسٹاف بیٹھا ہے، روسٹرم پر وکیل بحث کرتے ہیں ان کے آگے 10 وکیل اور 40 افراد اپنے مقدمات کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اس کورٹ روم کے آخر میں دروازہ جہاں ایک قاصد کھڑا ہے جو آواز دیتا ہے’۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘جب وکیل بحث کرتا ہے تو اس کو جج صاحب بھی سنتے ہیں، ان کے مخالف وکیل، پیچھے 10 وکلا اور دیگر افراد اور وہ قاصد بھی سنتا ہے، اگر جج صاحب فیصلہ نہیں فرماتے ہیں تو پھر اس جج صاحب اور اس قاصد میں کوئی فرق نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس کورٹ روم میں سب بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جج فیصلہ سناتے ہیں، جج اور دیگر افراد میں یہی فرق ہے اگر جج صاحب فیصلہ دیے بغیر چلے جائیں گے تو کوئی فرق نہیں، اگر جج فیصلہ نہ کریں گے تو معاشرہ ہمیں عزت کیوں دے گا’۔

'ہائی کورٹ جج کو پولیس افسر کی 'بے عزتی' پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا'

23 نومبر 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پولیس اصلاحات کمیٹی کے اقدامات کو موثر اور کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہائی کورٹ کے سینئر جج کو عدالت میں پولیس افسر کی بے عزتی کے الزام پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

لاہور میں پولیس اصلاحات کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ‘چیف جسٹس کی حیثیت سے میں نے پولیس اصلاحات کے علاوہ کئی اقدامات شروع کیے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی لائی اور فوری اور تیز انصاف کے لیے ماڈل کورٹس متعارف کرائے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘میری پہلی ترجیح یہ تھی کہ جو عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں کی عزت کا بحال کرنا تھا، پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر میں نے ذاتی طور پر چند واقعات دیکھا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے افسران کو عزت نہیں دی جاتی اور بعض اوقات ناقابل برداشت ہوجاتی ہے’۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘اس مختصر وقت میں ہائی کورٹ میں مقدمات دائر ہونے کی شرح 15 فیصد اور ضلعی عدالتوں میں شکایات کے اندراج یا مقدمات میں 30 فیصد کمی آئی ہےجو ایک بڑی کامیابی ہے’، ماڈل کورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے عدالتوں کا بوجھ کم کردیا ہے کہ عدالتوں کو حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے لیے وقت ملا۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘ہمارا کام انصاف کرنا نہیں ہے، ہمارا کام ہے انصاف کرنا قانون کے مطابق یہ حلف ہے، آئین میں لکھا ہے کہ میں قانون کے مطابق انصاف کروں گا، چاہے مجھے نظربھی آرہا ہے کہ اس نے قتل کیا مگر قانون میں ثابت نہیں ہوتا یہ میری ڈیوٹی ہے کہ اس کو بری کروں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اللہ تعالیٰ کا نظام بھی یہی ہے، اللہ تعالیٰ کہتے ہیں چار گواہ لیتے ہیں اور اگلا فقرہ ہے کہ اگر 4 گواہ نہیں لاسکتے ہو تو تم جھوٹے ہو، یہ اللہ کا نظام ہے اور گواہی کا ایک معیار مقرر کردیا گیا ہے اورگواہی اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو سزا نہیں ہوسکتی’۔

'تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے'

11 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں تیزاب گردی کے ملزم کی رہائی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ متاثرہ فریق کی معافی کے باوجود ملزم سزا سے نہیں بچ سکتا۔

— فائل فوٹو: اسد فاروقی

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملزم جاوید اقبال کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تیزاب گردی کا مجرم کسی رعایت کا مستحق نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ تیزاب گردی کے کیس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا تھا کہ متاثرہ خاتون بے شک معاف کردے، لیکن قانون تیزاب گردی کے ملزم کو معاف نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی واضح کیا تھا کہ تیزاب گردی سے متعلق قانون انتہائی سخت ہے جبکہ کسی کو تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔

'ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر ڈپریشن ہوتا ہے'

19 جون کو اسلام آباد میں منعقد تقریب میں ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس (ایم سی ٹی سی) کے جوڈیشل افسران سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ماڈل کورٹس فوری انصاف فراہم کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجھے ماڈل کورٹس کے چیتے جج چاہیئں، آج ہمیں مزید 57 جج ملے ہیں، ماڈل کورٹس کا 5 ہزار 8 سو مقدمات کو 48 روز میں نمٹانا بڑی کاوش ہے، ماڈل کورٹس اور فیملی کورٹس کو ایک ساتھ لانچ کررہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر انہیں ڈپریشن ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کیا معاشرے نے کبھی ایسی خواتین اور بچوں کا سوچا ہے؟ چند ماہ خاندان والے ساتھ دیتے ہیں اس کے بعد کوئی نہیں پوچھتا، خواتین کو لوگوں کے گھروں میں کام پر لگایا جاتا ہے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، گھروں میں کام کے دوران ایسی خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے، ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچے جرائم پیشہ بنتے ہیں۔

آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے نظام بہتر کررہے ہیں، صنفی تشدد کے حوالے سے 116 عدالتیں قائم کررہے ہیں، بچوں پر تشدد کے حوالے سے 2 عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ’انٹیلیجنٹ کورٹس قائم کررہے ہیں'

19 ستمبر 2019 کو اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ کی نئی ویب سائٹ اور ریسرچ سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ’انٹیلیجنٹ کورٹس‘ بھی قائم کر رہے ہیں جس کے تحت ججز کو عدالتی مثالیں ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی اور ججز کو ماضی کے فیصلوں سے رہنمائی ملے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں جبکہ ماضی میں تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کو احساس ہوا کہ جدید تعلیم حاصل نہ کی تو دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔

چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے ماڈل کورٹس بنانے کا فیصلہ کیا اور اب وہی ججز اور وہی وکلا ہیں لیکن ٹیکنالوجی کی وجہ سے حیران کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کئی خواتین گواہان کے بیان ماڈل کورٹس نے واٹس ایپ ویڈیو کال پر ریکارڈ کیے اور عدالتیں اسکائپ کے ذریعے ڈاکٹرز کے بیانات بھی ریکارڈ کر رہی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے شعبہ انصاف میں خاموش انقلاب آ رہا ہے، لاہور کے ایک وکیل کو ایمرجنسی میں پشاور جانا پڑا جس کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے پشاور سے ہی دلائل سنے گئے۔

'زیر التوا مقدمات کی شرح جلد صفر ہوجائے گی'

21 جنوری 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فوجداری مقدمات سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، جس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ اس وقت وہ اپریل 2018 کی اپیلوں کی سماعت کررہے ہیں اور آئندہ 2 سے 3 ماہ میں 2019 کی اپیلوں پر سماعت کا آغاز کردیں گے، جس سے فاصلہ کم ہوتا جا رہا ہے اور جلد زیر التوا مقدمات کی شرح صفر ہوجائے گی۔

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے لیکن سچ ہمیشہ غالب ہوتا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے یہ ریمارکس خصوصی عدالت کے سنگین غداری کیس کے اس تفصیلی فیصلے کے ایک روز بعد دیکھنے میں آئے جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

خیال رہے کہ 17 دسمبر کو اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مختصر فیصلے میں انہیں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دے دیا تھا۔

بعد ازاں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

اپنی سبکدوشی سے قبل آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس، مری میں آمنہ بی بی پر فائرنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی اور کیس کو نمٹا دیا اور ریمارکس دیئے کہ یہ میرا عدالتی کیریئر کا آخری مقدمہ ہے، سب کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ انہوں نے بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور جانبداری سے فیصلے کیے، میں نے ہمیشہ وہی کیا جسے میں درست سمجھتا تھا اور اسے کرنے کے قابل تھا، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا 100 فیصد دیا، ڈیوٹی کی پاداش سے باہر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے بات کی اور کبھی بھی فیصلے کو غیرموزوں طور پر موخر نہیں کیا اور اپنی زندگی کے بہترین برسوں کو عوامی خدمت میں وقف کرنے کے بعد آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جبکہ بطور چیف جسٹس 11 ماہ (مجموعی طور پر 337 دن) ذمہ داری نبھائی تاہم اگر اس میں ہفتہ وار تعطیل اور دیگر چھٹیوں کو نکال دیں تو 235 دن کام کے لیے ملے۔

انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں عدالتی شعبے میں اصلاحات کے لیے اہم اس عرصے کے دروان عدالتی شعبے میں اصلاحات کیلئے اہم اقدامات کئے، ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔

اپنے خطاب میں سبکدوش ہونے والے جسٹس نے فہمیدہ ریاض کی لکھی گئی نظم 'فیض کہتے' ہیں کا تذکرہ بھی کیا اور یہ شعر پڑتھے ہوئے کہ کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے' کہا کہ میرے نزدیک ایک جج کو بے خوف و خطر ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے، چیف جسٹس

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں اپنی قانونی رائے کی درستی کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا لیکن صرف امید کرتا ہوں کہ تاریخ مجھے اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی اور میری کی گئی مخلصانہ کوششوں کو سراہے گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ میں اصلاحات لانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی فہرست بتائی جس میں ای کورٹس کا قیام، آن لائن سپریم کورٹ ڈیٹابیس، سپریم کورٹ ویب سائٹ کی تشکیل نو سمیت موبائل ایپلیکیشن کا آغاز شامل ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زیر التوا فوجداری مقدمات کا بیک لاگ ختم کیا گیا اور التوا مانگنے کی کوشش کی 'موثر طریقے سے حوصلہ شکنی' کی گئی۔