— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
انہوں نے مزید کہا تھا کہ خواتین ججوں کی عدالتوں سے مقدمات ٹرانسفر کرنے کی درخواستیں دی جاتی ہیں لیکن خواتین ججز اپنے رویے، کوڈ آف کنڈکٹ اور فیصلوں سے منفی لوگوں کی سوچ کو بدلیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نام نہاد مردوں کی دنیا میں خواتین ججوں کو غیرمعمولی اقدامات کرنے پڑتے تھے جو بہت مشکل اور سخت ہوتے ہیں تاکہ انہیں سنجیدہ لیا جائے لیکن خواتین کو عدالتوں میں ان کی کارروائی کے مطابق سنجیدہ لیا جائے کہ وہ مقدمے کو کس طرح لے کر چلتی ہیں اور کیا فیصلہ کرتی ہیں جو میرے تصور میں ایک اچھے جج کی نشانی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ججوں کا سخت رویہ وکلا اور فریقین پر برا اثر ڈالتا ہے. عدالتوں کو شائستہ انداز میں میرٹ اور قانون کے مطابق چلائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو معاشرے میں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے، وراثت میں حق کا معاملہ ہو یا روزمرہ گھریلو تشدد کا سلسلہ، خواتین کی اکثریت ایسے مظالم کا شکار ہے، ہمارا آئین اور مختلف قوانین خواتین کو خاص حقوق دیتے ہیں، ضابطہ فوجداری کے تحت خاتون ملزم کو ضمانت کے حصول میں آسانی موجود ہے۔
فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے'
20 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے ، آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے اور آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ طلب کرنے پر فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہوگی اور فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے، 25ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا، وفاق نے 25 ویں ترمیم کے بعد کوئی قانون سازی بھی نہیں کی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔
17 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو فاٹا اور پاٹا میں امن اور حکومت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔
2011 میں صدر مملکت نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا، ان قوانین میں واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کی وجہ سے قانون کی ضرورت بڑھ گئی۔
فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے'
15 نومبر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی اور اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اقرار کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں بنائے ۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ حراستی کیمپ کے قواعد میں زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے پھر آپ نے زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی؟
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت پر سوال کیا؟ اور ریمارکس دیے کہ یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں کیونکہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔
فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس:'یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے'
اس سے قبل 14 نومبر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے، کیا معلوم کتنے ہزار لوگ حراست میں ہیں؟ پہلے آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیں گے، زیر حراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے جبکہ وزارت دفاع کا جواب آنے پر ہی فوج کے مینڈیٹ کا اندازہ ہوگا۔
چیف جسٹس کے 2008 میں فوج کو طلب کرنے کے مقصد سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلایا گیا، حراستی مراکز 2011 میں بنے جبکہ جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کیا گیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی ہزار خاندانوں کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہے۔
'جج وقت پر فیصلہ نہ کرے تو قاصد اور اس میں کوئی فرق نہیں'
29 نومبر 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ملتان میں ایک تقریب سے خطاب میں ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘کبھی کوئی واقعہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی قسم کے حالات پیدا ہوں کہ عدالت کے اندر بدمزگی پیداہوجائے یہ قابل تصور تھا کیونکہ ماحول ایسا تھا اور تربیت دینے والے ایسے تھے تو اب حالات وہ نہیں رہے ’۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘جوڈیشل اکیڈمی میں ججوں کو لیکچر دیتا ہوں جہاں ایک مثال دیتا ہوں اس سے اہم مثال کوئی ہے ہی نہیں، میں ان کو بتاتا ہوں کہ کورٹ روم میں ایک جج صاحب بیٹھا ہے، ان کے آگے اسٹاف بیٹھا ہے، روسٹرم پر وکیل بحث کرتے ہیں ان کے آگے 10 وکیل اور 40 افراد اپنے مقدمات کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اس کورٹ روم کے آخر میں دروازہ جہاں ایک قاصد کھڑا ہے جو آواز دیتا ہے’۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘جب وکیل بحث کرتا ہے تو اس کو جج صاحب بھی سنتے ہیں، ان کے مخالف وکیل، پیچھے 10 وکلا اور دیگر افراد اور وہ قاصد بھی سنتا ہے، اگر جج صاحب فیصلہ نہیں فرماتے ہیں تو پھر اس جج صاحب اور اس قاصد میں کوئی فرق نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کورٹ روم میں سب بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جج فیصلہ سناتے ہیں، جج اور دیگر افراد میں یہی فرق ہے اگر جج صاحب فیصلہ دیے بغیر چلے جائیں گے تو کوئی فرق نہیں، اگر جج فیصلہ نہ کریں گے تو معاشرہ ہمیں عزت کیوں دے گا’۔
'ہائی کورٹ جج کو پولیس افسر کی 'بے عزتی' پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا'
23 نومبر 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پولیس اصلاحات کمیٹی کے اقدامات کو موثر اور کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہائی کورٹ کے سینئر جج کو عدالت میں پولیس افسر کی بے عزتی کے الزام پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
لاہور میں پولیس اصلاحات کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ‘چیف جسٹس کی حیثیت سے میں نے پولیس اصلاحات کے علاوہ کئی اقدامات شروع کیے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی لائی اور فوری اور تیز انصاف کے لیے ماڈل کورٹس متعارف کرائے’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘میری پہلی ترجیح یہ تھی کہ جو عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں کی عزت کا بحال کرنا تھا، پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر میں نے ذاتی طور پر چند واقعات دیکھا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے افسران کو عزت نہیں دی جاتی اور بعض اوقات ناقابل برداشت ہوجاتی ہے’۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘اس مختصر وقت میں ہائی کورٹ میں مقدمات دائر ہونے کی شرح 15 فیصد اور ضلعی عدالتوں میں شکایات کے اندراج یا مقدمات میں 30 فیصد کمی آئی ہےجو ایک بڑی کامیابی ہے’، ماڈل کورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے عدالتوں کا بوجھ کم کردیا ہے کہ عدالتوں کو حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے لیے وقت ملا۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‘ہمارا کام انصاف کرنا نہیں ہے، ہمارا کام ہے انصاف کرنا قانون کے مطابق یہ حلف ہے، آئین میں لکھا ہے کہ میں قانون کے مطابق انصاف کروں گا، چاہے مجھے نظربھی آرہا ہے کہ اس نے قتل کیا مگر قانون میں ثابت نہیں ہوتا یہ میری ڈیوٹی ہے کہ اس کو بری کروں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اللہ تعالیٰ کا نظام بھی یہی ہے، اللہ تعالیٰ کہتے ہیں چار گواہ لیتے ہیں اور اگلا فقرہ ہے کہ اگر 4 گواہ نہیں لاسکتے ہو تو تم جھوٹے ہو، یہ اللہ کا نظام ہے اور گواہی کا ایک معیار مقرر کردیا گیا ہے اورگواہی اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو سزا نہیں ہوسکتی’۔
'تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے'
11 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں تیزاب گردی کے ملزم کی رہائی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ متاثرہ فریق کی معافی کے باوجود ملزم سزا سے نہیں بچ سکتا ۔
— فائل فوٹو: اسد فاروقی
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملزم جاوید اقبال کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تیزاب گردی کا مجرم کسی رعایت کا مستحق نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ تیزاب گردی کے کیس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ متاثرہ خاتون بے شک معاف کردے، لیکن قانون تیزاب گردی کے ملزم کو معاف نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی واضح کیا تھا کہ تیزاب گردی سے متعلق قانون انتہائی سخت ہے جبکہ کسی کو تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔
'ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر ڈپریشن ہوتا ہے'
19 جون کو اسلام آباد میں منعقد تقریب میں ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس (ایم سی ٹی سی) کے جوڈیشل افسران سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ماڈل کورٹس فوری انصاف فراہم کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ مجھے ماڈل کورٹس کے چیتے جج چاہیئں، آج ہمیں مزید 57 جج ملے ہیں، ماڈل کورٹس کا 5 ہزار 8 سو مقدمات کو 48 روز میں نمٹانا بڑی کاوش ہے، ماڈل کورٹس اور فیملی کورٹس کو ایک ساتھ لانچ کررہے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر انہیں ڈپریشن ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کیا معاشرے نے کبھی ایسی خواتین اور بچوں کا سوچا ہے؟ چند ماہ خاندان والے ساتھ دیتے ہیں اس کے بعد کوئی نہیں پوچھتا، خواتین کو لوگوں کے گھروں میں کام پر لگایا جاتا ہے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، گھروں میں کام کے دوران ایسی خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے، ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچے جرائم پیشہ بنتے ہیں۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے نظام بہتر کررہے ہیں، صنفی تشدد کے حوالے سے 116 عدالتیں قائم کررہے ہیں، بچوں پر تشدد کے حوالے سے 2 عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ’انٹیلیجنٹ کورٹس قائم کررہے ہیں'
19 ستمبر 2019 کو اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ کی نئی ویب سائٹ اور ریسرچ سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ’انٹیلیجنٹ کورٹس‘ بھی قائم کر رہے ہیں جس کے تحت ججز کو عدالتی مثالیں ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی اور ججز کو ماضی کے فیصلوں سے رہنمائی ملے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں جبکہ ماضی میں تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کو احساس ہوا کہ جدید تعلیم حاصل نہ کی تو دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔
چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے ماڈل کورٹس بنانے کا فیصلہ کیا اور اب وہی ججز اور وہی وکلا ہیں لیکن ٹیکنالوجی کی وجہ سے حیران کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کئی خواتین گواہان کے بیان ماڈل کورٹس نے واٹس ایپ ویڈیو کال پر ریکارڈ کیے اور عدالتیں اسکائپ کے ذریعے ڈاکٹرز کے بیانات بھی ریکارڈ کر رہی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے شعبہ انصاف میں خاموش انقلاب آ رہا ہے، لاہور کے ایک وکیل کو ایمرجنسی میں پشاور جانا پڑا جس کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے پشاور سے ہی دلائل سنے گئے۔
'زیر التوا مقدمات کی شرح جلد صفر ہوجائے گی'
21 جنوری 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فوجداری مقدمات سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، جس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ اس وقت وہ اپریل 2018 کی اپیلوں کی سماعت کررہے ہیں اور آئندہ 2 سے 3 ماہ میں 2019 کی اپیلوں پر سماعت کا آغاز کردیں گے، جس سے فاصلہ کم ہوتا جا رہا ہے اور جلد زیر التوا مقدمات کی شرح صفر ہوجائے گی ۔
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے لیکن سچ ہمیشہ غالب ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے یہ ریمارکس خصوصی عدالت کے سنگین غداری کیس کے اس تفصیلی فیصلے کے ایک روز بعد دیکھنے میں آئے جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 17 دسمبر کو اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مختصر فیصلے میں انہیں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دے دیا تھا۔
بعد ازاں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
اپنی سبکدوشی سے قبل آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس، مری میں آمنہ بی بی پر فائرنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی اور کیس کو نمٹا دیا اور ریمارکس دیئے کہ یہ میرا عدالتی کیریئر کا آخری مقدمہ ہے، سب کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ انہوں نے بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور جانبداری سے فیصلے کیے، میں نے ہمیشہ وہی کیا جسے میں درست سمجھتا تھا اور اسے کرنے کے قابل تھا، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔