پاکستان

غیر پیشہ ورانہ رویہ، توہین کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سیکریٹری کو نوٹس

میڈیا معاملے کا ایک رخ ہی دکھاتا رہا تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا پر پابندی لاگو کردیں گے، عمیر بلوچ کی دھمکی
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری محمد عمیر بلوچ کو عدالت میں پیشہ ورانہ رویہ اختیار نہ کرنے اور توہین کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمیر بلوچ کا ہائی کورٹ کی حد تک وکالت کا لائسنس بھی 19 کو ہونے والی اگلی سماعت تک معطل کردیا۔

جنرل سیکریٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے دوران سماعت تمام وکلا کو چیف جسٹس کی عدالت سے زبردستی باہر نکال دیا تھا، کیونکہ بار نے گزشتہ روز لاہور میں وکلا پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کے خلاف ہڑتال کر رکھی تھی۔

عمیر بلوچ وکلا کو باہر نکالنے کے لیے جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ان کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے مکالمہ ہوا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے کہا کہ آپ میری عدالت میں ہڑتال نہ کریں، جس پر عمیر بلوچ کا کہنا تھا کہ آپ نے جب وکلا تحریک میں عدالتوں میں ہڑتال کی تو ہم آپ کے ساتھ تھے، آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹروں کی جانب سے وکلا کے خلاف وائرل ہونے والی ویڈیو کی مذمت کرتے ہیں اور لاٹھی چارج اور شیلنگ کے خلاف وکلا آج عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیشہ ورانہ رویہ اختیار نہ کرنے اور توہین کرنے پر سیکریٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن عمیر بلوچ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ عمیر بلوچ روسٹرم پر آئے ان کا رویہ پیشہ ورانہ نہیں تھا اور انہوں نے کہا کہ ججز کو ہڑتال روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

عدالت نے عمیر بلوچ، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 19 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

بعد ازاں عمیر بلوچ نے ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلا پرامن مظاہرہ کر رہے تھے لیکن ڈاکٹرز نے ان پر حملہ کیا جس کے بعد وکلا نے اپنے دفاع میں جواب دیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ میڈیا معاملے کو یکطرفہ طور پر دکھا رہا ہے اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر میڈیا معاملے کا ایک رخ ہی دکھاتا رہا تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا پر پابندی لاگو کردیں گے اور میڈیا نمائندگان ہائی کورٹ کے احاطے میں نہیں آسکیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

معاملہ اس وقت شروع ہوا جب وکلا نے الزام عائد کیا کہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ینگ ڈاکٹرز وکلا کا مذاق اڑا رہے تھے جس پر انہوں نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔

ڈاکٹر کے مطابق وکلا کا ایک گروپ انسپکٹر جنرل کے پاس گیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ 'دو ڈاکٹرز' کے خلاف اے ٹی اے کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، تاہم ان کے بقول آئی جی نے اس معاملے پر انکار کردیا۔

بعد ازاں آج وکلا کی بڑی تعداد 'ویڈیو' کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے پی آئی سی کے باہر جمع ہوئی، تاہم یہ احتجاج پرتشدد ہوگیا اور وکلا نے پہلے ہسپتال کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی: 46 وکلا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے ہسپتال کے گیٹ توڑتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوگئے، وکلا نے نہ صرف ہسپتال پر پتھر برسائے بلکہ ہسپتال کی ایمرجنسی کے شیشے توڑے اس کے ساتھ ڈنڈوں اور لاتوں سے باہر کھڑی گاڑیوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔

ہنگامہ آرائی کے باعث کچھ مریض ہسپتال نہیں پہنچ سکے جبکہ ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو دکھانے کے لیے آنے والے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وکلا کی جانب سے ہسپتال کے آئی سی یو، سی سی یو اور آپریشن تھیٹر کی جانب بھی پیش قدمی کی گئی جبکہ ہسپتال کے کچھ عملے کی جانب سے بھی وکلا پر تشدد کیا گیا۔

ہسپتال پر دھاوے، توڑ پھوڑ کے باعث اپنی جان بچانے لیے عملہ فوری طور پر باہر نکل گیا۔

یہی نہیں بلکہ مشتعل وکلا نے میڈیا کے نمائندوں پر بھی پتھراؤ کیا جس سے ڈان نیوز ٹی وی کی خاتون رپورٹر کنزہ ملک زخمی ہوگئیں جبکہ ان کا موبائل بھی چھین لیا گیا۔

بگڑتی صورتحال کے پیش نظر پولیس کی اضافی نفری موقع پر پہنچی اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کی، تاہم اس دوران مشتعل افراد نے ایک پولیس موبائل کو بھی آگ لگادی۔