دنیا

بابری مسجد کیس فیصلہ:بھارتی سپریم کورٹ نے تمام نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں

کیس کے فیصلے نے دہائیوں سے اٹھائے جانے والے ہندو جماعتوں کے غیر قانونی اقدامات کو دوام بخشا ہے، درخواست گزار

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئیں تمام 18 درخواستیں مسترد کر دیں۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی چیف جسٹس ایس اے بودے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چیمبر میں درخواستوں پر سماعت کی۔

بینچ کے دیگر ججز میں سَنجیو کھنا، ڈی وائی چندراچود، اَشوک بھوشَن اور مسلمان جج ایس عبدالنذیر شامل تھے۔

نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کے چار ججز وہی تھے جو کیس کا فیصلہ سنانے بینچ کا بھی حصہ تھے، تاہم سابق بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی جگہ سنجیو کھنا کو بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

عدالت نے دائر درخواستوں میں سے کئی یہ کہہ کر مسترد کیں کہ نظرثانی اپیلیں دائر کرنے والے کیس میں براہ راست فریق نہیں، لہٰذا یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بابری مسجد کیس فیصلے کےخلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ

عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کرنے والوں میں جمعیت علمائے ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے حمایت یافتہ درخواست گزار بھی شامل تھے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ کیس کے فیصلے نے دہائیوں سے اٹھائے جانے والے ہندو جماعتوں کے غیر قانونی اقدامات کو دوام بخشا ہے، جن میں 1992 میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا اقدام بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے۔

ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: بابری مسجد فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر نامناسب تبصرے،درجنوں افراد گرفتار

فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کے مالک رام جنم بھومی نیاس ہیں، ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ مندر کی تعمیر کے لیے 3 ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دی جائے۔

فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کردیا۔

اہم ترین اور 27 سال سے جای کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔

فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔