سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ علیم ڈار کے نام
پاکستان کے مایہ ناز امپائر علیم ڈار نے نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا اور وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ میچوں میں امپائرنگ کرنے والے امپائر بن گئے ہیں۔
جمعرات کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان پرتھ میں شروع ہونے والے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں علیم ڈار نے امپائر کی حیثیت سے میدان میں اتر کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا اور سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے آفیشل بن گئے۔
اس سے قبل سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کا ریکارڈ سابق ویسٹ انڈین امپائر اسٹیو بکنر کے پاس تھا جنہوں نے 128 ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کی لیکن علیم نے جمعرات کو 129ویں میچ میں امپائرنگ کر کے نیا ریکارڈ بنا دیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے خواہمشمند سابق کرکٹر نے کرکٹ کیریئر میں زیادہ مواقع نہ ملنے پر امپائرنگ کو بطور پیشہ اپنا لیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے ریکارڈز اپنے نام کرتے گئے۔
علیم ڈار نے اپنے انٹرنیشنل امپائرنگ کیریئر کا آغاز 2000 میں گوجرانوالہ میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے ون ڈے میچ سے کیا اور اب ون ڈے امپائرنگ کیریئر میں بھی نیا عالمی ریکارڈ بنانے سے محض تین میچ دور ہیں۔
وہ اب تک 207 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کر چکے ہیں جہاں سب سے زیادہ 209 ون ڈے میچوں میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ جنوبی افریقہ کے روڈی کرٹزن کے پاس ہے۔
لگاتار تین سال تک آئی سی سی کے بہترین امپائرنگ کا ایوارڈ جیتنے والے علیم ڈار 46ٹی20 میچوں میں بھی ذمے داریاں انجام دے چکے ہیں۔
2003 میں انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے درمین ڈھاکا میں کھیلے گئے میچ سے اپنے ٹیسٹ اماپئرنگ کیریئر کا آغاز کرنے والے پاکستانی امپائر نے کہا کہ میں انٹرنیشنل کرکٹر بننا چاہتا تھا اور اسی لیے گوجرانوالہ سے لاہور منتقل ہوا جہاں میں اسلامیہ کالج سول لائن سے بحیثیت بلے باز منتخب ہونے والا پہلا کھلاڑی تھا اور میرے ساتھ اسی کالج سے وسیم اکرم بحیثیت باؤلر منتخب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے بہت محنت کی اور لاہور میں کافی کرکٹ کھیلی، پاکستان کے مشہور کرکٹ کلب پی اے ڈی جیمخانہ کلب کو جوائن کیا لیکن کافی محنت کے بعد بھی جب مجھے لگا کہ میں اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہوں گا تو میں نے اپنا ذہن تبدیل کرتے ہوئے امپائرنگ پر توجہ دینا شروع کی۔
علیم ڈار نے مزید کہا کہ خدا کے فضل سے میں ایک سال بعد ہی انٹرنیشنل امپائر بن گیا اور اس کے لیے خود کو کافی خوش قسمت تصور کرتا ہوں کیونکہ ان دنوں اگر آپ انٹرنیشنل کرکٹر ہیں تو آپ کو انٹرنیشنل امپائر بننے میں 6 سے 7 سال لگتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے 17سالہ امپائرنگ کیریئر میں کئی یادگار میچز رہے جن میں سے ایک 2006 میں جوہانسبرگ میں کھیلا گیا وہ میچ تھا جس میں آسٹریلیا نے 434رنز کے ہدف کا تعاقب کر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا جبکہ برائن لارا نے جب 400 رنز اسکور کیے تو میں بھی اس ٹیسٹ میچ کا حصہ تھا۔
اسٹیو بکنر کو اپنا آئیڈیل تصور کرنے والے علیم ڈار نے 2011 ورلڈ کپ کو بھی اپنے لیے ایک یادگار لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عالمی کپ میں میرے خلاف 15ریویو لیے گئے لیکن میرے تمام فیصلے درست ثابت ہوئے اور میں نے فائنل میں بھی امپائرنگ کے فرائض انجام دیے تھے۔
51سالہ آفیشل نے کہا کہ میں اس وقت ایلیٹ پینل میں شامل سب سے زیادہ عمر کا امپائر ہوں اور میں اب تک دو ورلڈ کپ فائنلز، تین چیمپیئنز ٹرافی فائنلز، تین ٹی20 فائنلز اور اب خدا کے فضل سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کرنے کا اعزاز بھی رکھتا ہوں۔
علیم ڈار نے اپنے امپائرنگ کیریئر پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اماپئرنگ کے لیے آپ کو ذہنی طور پر بہت مضبوط ہونا چاہیے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے، اگر ٹیسٹ میچ کی ابتدا میں ہی غلطی ہو جائے تو پھر بقیہ 4-5 دن امپائرنگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے کامیاب انٹرنیشنل امپائرنگ کیریئر پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل، پاکستان کرکٹ بورڈ اور سب سے بڑھ کر اپنے اہلخانہ کا شکریہ ادا کیا۔