بھائی، اتنے لوگ تو امارات کے میدان میں بھی آجاتے تھے!
2009ء میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ لاہور میں کیا کچھ ہوا، یہ بات تو اب سب کو معلوم ہے، اس لیے اس افسوسناک سانحے پر بات کرنے کے بجائے آج میں ان خوش کن لمحات کا ذکر کروں گا، جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے مایوس کن بنادیا۔
پہلی بات تو ہم سب کو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ 10 سال بعد پاکستان میں صرف کرکٹ بحال نہیں ہوئی، بلکہ پاکستان پر دنیا کے اعتماد کی بحالی کا بھی آغاز ہوا ہے۔ دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان اب بدل رہا ہے، یہاں امن ہے، سکون ہے، تحفظ ہے۔
یہ صاف اور واضح پیغام پاکستان کو تمام ہی شعبوں میں بے پناہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری بھی آسکتی ہے، غیر ملکی ایک بار پھر یہاں کا رخ کرسکتے ہیں اور پیچھے جاتا پاکستان آگے نکل سکتا ہے۔
اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد میں اس مؤقف کو اختیار کرنا چاہتا ہوں کہ 11 دسمبر 2019ء کا دن ہر ہر اعتبار سے ہمارے لیے بڑا اور اہم دن تھا، بلکہ ہے۔
وہ کہتے ہیں نا کہ اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوتا ہے، تو بس آج کے حوالے سے ہمیں یہی کام کرنا تھا، لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں کہ اس پورے معاملے میں ہم وزیرِاعلی پنجاب عثمان بزدار کی راہ پر چل پڑے، یعنی یہاں آنے والی غیر ملکی ٹیم کا اتنی خاموشی سے استقبال کیا کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔