پاکستان

دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں حافظ سعید پر فرد جرم عائد

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں حافظ سعید کے 4ساتھیوں پر بھی فرد جرم عائد کی۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے 4 ساتھیوں پر فرد جرم عائد کردی ہے۔

حافظ سعید اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سخت سیکیورٹی حصار میں آج عدالت پہنچایا گیا اور سماعت کے دوران ان کے وکیل نے اپنے دلائل پیش کیے۔

مزید پڑھیں: حافظ سعید کی گرفتاری پر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل سامنے آگیا

الزامات عائد کیے جانے کے بعد عدالت نے مدعا علیہان کے گواہوں کو طلب کیا جس کے بعد مقدمے کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج ملک ارشد بھُٹہ نے کل تک سماعت ملتوی کردی۔

دہشت گردوں کی مالی امداد کا یہ مقدمہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے درج کیا تھا اور ہفتے کو ایک مشتبہ ملزم کی عدم دستیابی کے سبب عدالت نے فرد جرم عائد نہیں کی تھی۔

جماعت الدعوۃ نے اپنے اوپر لگائے گئے ان تمام الزامات کو بے بنیاد اور پاکستان پر عالمی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ساتھ ساتھ دعویٰ کیا کہ انہیں کالعدم لشکر طیبہ کا رہنما بتا کر اس مقدمے میں شامل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حافظ سعید سمیت 12 رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی کیلئے مالی معاونت کے مقدمات درج

ملزمان نے استدعا کی کہ وہ کالعدم لشکر طیبہ پر 2002 میں لگائی گئی پابندی سے قبل ہی اسے چھوڑ چکے تھے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کا ذکر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے میں بھی موجود ہے۔

دہشت گردوں کی مالی معاونت

1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزام میں 3جولائی کو جماعت الدعوۃ کے صف اول کے 13رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی نے پنجاب کے پانچ شہروں میں مقدمات درج کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ الانفال ٹرسٹ، دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ وغیرہ جیسی فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ سے اکٹھا ہونے والی رقم اور فنڈز کو جماعت الدعوۃ نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کالعدم قرار

محکمہ انسداد دہشت گردی نے ان تنظیموں پر اپریل میں پابندی عائد کردی تھی جہاں تفصیلی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ ان تنظیموں کے جماعت الدعوۃ اور ان کی قیادت سے روابط ہیں۔

اس کے بعد 17جولائی کو حافظ سعید کو سی ٹی ڈی پنجاب نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں گوجرانوالہ سے گرفتار کیا تھا اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

پاکستان پر دہشتگردوں کی مالی معاونت کا الزام

رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔

عالمی سطح پر لگنے والی پابندی کے خطرے کے پیش نظر حکومتی مشینری فوری طور پر حرکت میں آ گئی تھی تاکہ 2 ماہ کے اندر اندر اچھے نتائج دکھائے جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: جماعت الدعوۃ کے زیرانتظام اداروں کا کنٹرول حکومت نے سنبھال لیا

پاکستان نے بھارت کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں سال فروری میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا جہاں پڑوسی ملک نے الزامات عائد کیے تھے کہ پاکستان ان اور جیش محمد سمیت ان جیسی چھ تنظیموں کو سپورٹ کرتا ہے یا انہیں کم خطرے کی حامل تنظیمیں تصور کرتا ہے۔

اس کے چند ہفتوں بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، جیش محمد دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیا تیز کرتے ہوئے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا، اس کے علاوہ ان کالعدم تنظیموں سے منسلک 200 سے زائد مدرسے، سینکڑوں دیگر املاک اور اثاثے حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔

ایف اے ٹی ایف ہر تین ماہ میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور حالیہ رپورٹ میں ٹاس فورس نے پاکستان کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت کو اضافی اقدامات کرنے ہوں گے۔

اس سلسلے میں پاکستان کو مزید اقدامات کے لیے فروری 2020 تک کی چھوٹ دی گئی ہے اور اور اس وقت تک پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔

مزید پڑھیں: حماد اظہر، مفتی عبدالرؤف سمیت کالعدم تنظیموں کے 44 کارکنان زیرحراست

2012 میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا اور 2015 تک نام اس فہرست کا حصہ تھا جس کے بعد 3سال تک پاکستان اس فہرست سے باہر رہا۔

البتہ 29جون 2018 کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نام ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا اور پاکستان کو 15نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے 15ماہ کا وقت دیتے ہوئے انتباہ دیا گیا تھا کہ عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا۔

اس وقت بلیک لسٹ میں شامل ممالک میں صرف ایران اور شمالی کوریا کے نام شامل ہیں۔