نقطہ نظر

کمال بن اور دیودار کے جدِ امجد کی فریاد

دنیا کے شوروغل سے دور اس خوبصورت سیاحتی مقام پر قدرت کی رعنائیوں سےمحظوظ ہوکر میں خود کو بہت خوش نصیب محسوس کرنے لگا تھا

کمال بن اور دیودار کے جدِ امجد کی فریاد

عظمت اکبر

‘اشرف المخلوقات کا اعزاز رکھنے والے تو اپنے درد اور تکلیفوں کو زبان دے سکتے ہیں، ایک دوسرے کا درد سمجھ سکتے ہیں، احساس کرسکتے ہیں، لیکن ہم بے زبان جانداروں کو بھی درد ہوتا ہے، ہمارے بھی دکھ اور تکلیفیں ہیں، انسان کو ہمارے لیے آخر کب ہمدردی پیدا ہوگی؟ ہمارے مشکل حالات کا احساس انہیں کب ہوگا؟’

گزشتہ 20 برسوں سے پاکستان بھر میں گھومتا پھر رہا ہوں، اور میں اس طرح کی فریاد ہر حسین وادی میں کبھی مارخور، کبھی نایاب پرندوں تو کبھی درختوں سے سنتا رہتا ہوں۔

کمراٹ سے لے کر اسکردو تک ہمارے قومی جانور مارخور کے شکار کی خبریں، مہوڈند جھیل کالام کے ارد گرد درختوں کی کٹائی اور رامہ جھیل استور کے قرب و جوار میں موجود خوبصورت جنگلات کو گزرتے وقت کے ساتھ مٹتا دیکھ کر آنکھ بھیگ جاتی ہیں۔

مہوڈند جھیل، کالام کے آس پاس کاٹے جانے والے درخت—تصویر لکھاری

انسانی بے حسی کا ایک شکوہ گزشتہ سال وادئ کاغان کے دوسرے بڑے جنگل ’کمال بن‘ میں دیودار درخت کے جد امجد کہلانے والے ایک بڑے اور تاریخی درخت سے سُن کر آیا ہوں۔

وادئ کاغان کا دوسرا بڑا جنگل کمال بن—تصویر لکھاری

مجھے اس جنگل اور وہاں موجود ہزاروں سال پرانے اس بڑے درخت کے بارے میں اپنے دوست مشتاق احمد خان سے پتا چلا جو کاغان کے علاقے ’باڑی‘ میں اسکول پرنسپل ہیں۔ یہاں محکمہ جنگلات کے زیرِ انتظام ہزاروں سال پرانا ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔

پھر انہی کی میزبانی میں گزشتہ سال اگست کے مہینے میں اس خوبصورت اور گھنے جنگل کو قریب سے دیکھنے اور اس درخت سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔

کمال بن کے جنگل میں واقع محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس—محمد فیاض خان سواتی

’کمال بن‘ نامی یہ خوبصورت گاؤں اور جنگل وادئ کاغان کے علاقے مہانڈری سے صرف 10 کلومیٹر دُور ہے۔ آپ کاغان روڈ پر چلتے ہوئے لوہار بانڈہ کے مقام پہنچ کر ایک پل کے ذریعے کمال بن گاؤں میں داخل ہوسکتے ہے۔

چونکہ ہمیں جنگل کی سیر اور درخت سے ملاقات کرنا تھی اس لیے ہم نے کھنیاں کے مقام سے جیپ کے ذریعے وہاں جانے کا فیصلہ کیا، لہٰذا ہم صبح سویرے ایک جیپ والے سے 2 ہزار روپے کرایہ طے کرنے کے بعد جیپ میں سوار ہوئے اور کھنیاں سے کمال بن کی طرف روانہ ہوگئے۔

کمال بن—تصویر لکھاری

کمال بن کا گھنا جنگل—تصویر لکھاری

دریائے کنہار کے کنارے ہماری جیپ ایک کچی سڑک پر بلندی پر واقع جنگل کی طرف رواں دواں تھی۔ تقریباً سوا گھنٹے میں ہم کمال بن کے خوبصورت قصبے سے گزرتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں داخل ہوگئے۔ مشتاق صاحب کے مطابق یہ کمال بن کے جنگل کا آغاز تھا۔ کمال بن کا مطلب ہے ’کمال کا جنگل’ اور واقعی یہ ایک کمال کا جنگل ہی تھا۔

قصبہ کمال بن کی آبادی لگ بھگ 4 ہزار 500 نفوس پر مشتمل ہے۔ قصبے کے آس پاس کھڑے ہزاروں درخت اس جنگل کو باکمال بناتے ہیں۔

قصبے کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک کے اردگرد اخروٹ، خوبانی، سیب، آلو بخارے کے درخت اس گاؤں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہے تھے۔ یونہی اس سڑک پر سفر کرتے کرتے 10 منٹ ہوچکے تھے، پھر اچانک ہمارے ڈرائیور نے ایک بڑے درخت کے سامنے بریک لگا دی۔

دیودار کے درختوں کا جد امجد—تصویر لکھاری

مشتاق صاحب نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ رہا ہمارا میزبان، یعنی وہ درخت جس سے آپ ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ جیپ سے تو اس درخت کی قدامت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا، اور پھر باہر نکلے تو اندازہ ہوا کہ یہ درخت واقعی پاکستان میں موجود دیودار کے درختوں کا ’کے ٹو‘ تھا۔

بلاشبہ یہ درخت دیودار درختوں کا ’کے ٹو‘ ہے—تصویر لکھاری

درخت پر لگے بورڈ کے مطابق ہزاروں سال پرانا یہ درخت 58 میٹر بلند اور 8 میٹر چوڑا ہے۔ درخت پر محکمہ جنگلات کی طرف سے لگایا جانے والا یہ بورڈ پاکستانی قوم سے کچھ اس طرح مخاطب تھا کہ،

’میری بات سنیے۔ میں دیودار ’پائن‘ کا تاریخی درخت ہوں، میری پیدائش اسی جنگل میں ہوئی تھی جس کا نام ’کمال بن‘ ہے۔ میرے اردگرد جتنے بھی میرے نسل کے درخت دیکھ رہے ہیں، میں ان سب کا جد امجد ہوں۔ میں نے زمانے کے کئی نشیب و فراز دیکھے، اکثر لوگوں نے مجھے کاٹنے کے منصوبے بنائے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے آج بھی میں تندرست حالت میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوں اور دیکھنے والوں کو ایک لمحے کے لیے کئی سو سال پیچھے لے جاتا ہوں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ اتنا عرصہ کھڑا رہنے سے میری کمر کا پھیلاؤ 8 میٹر اور میرا قد 58 میٹر تک پہنچ چکا ہے۔ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں اپنے اندر ہزاروں داستانیں سمیٹے ہوئے ہوں۔ مجھے دیکھنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں لیکن مرکزی شاہراہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھ تک پہنچ نہیں پاتے۔ لیکن شکر گزار ہوں ان سب کا جو مجھ سے پیار کرتے ہیں اور میری حفاظت کرتے ہیں اور مجھے دیکھنے کے لیے پیدل آتے ہیں۔ آپ مجھے جس محبت سے دیکھ رہے ہیں اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ اس لمحے میں بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہوں کہ اللہ آپ کو یہ توفیق دے کہ آپ اسی طرح درختوں سے محبت کریں اور میری باقی نسل کی حفاظت کریں۔‘

درخت پر لگا بورڈ—تصویر لکھاری

قصبے کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک کے اردگرد درخت اس گاؤں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہے تھے—محمد فیاض

دیودار کے اس جد امجد کی تصاویر لینے کے بعد میں اس کی بڑی اور چوڑی کمر کے ساتھ کچھ دیر تک لپٹا رہا۔ ایک عجیب سا احساس تھا، جیسے یہ درخت میرے ساتھ سرگوشیاں کر رہا ہے اور کہہ رہا ہو کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ میری نسل کو اتنی بے دردی سے نہ کاٹے۔ وہ شاید ہماری اہمیت اور منزلت کا ادراک نہیں رکھتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ درختوں کے بغیر انسانی وجود خطرے میں پڑسکتا ہے‘۔

اس شاکی درخت نے یہ بھی کہا کہ انسان اپنی نادانی اور کوتاہ فہمی کی بنا پر جنگلات کے جنگلات مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ آئندہ برسوں میں ان عوامل کے اس دنیا پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سن لو! اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو آئندہ چند سالوں میں بقیہ ماندہ درختوں کے جھنڈ اور جنگلات کا صفایا ہوجائے گا اور انہیں بھی انسانوں کی آرائش اور فرنیچر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ خدارا اپنے گھر کی تزین آرائش کی خاطر دنیا کی فطری تزین آرائش نہ بگاڑی جائے۔

اس شاکی درخت نے یہ بھی کہا کہ انسان اپنی نادانی اور کوتاہ فہمی کی بنا پر جنگلات کے جنگلات مٹانے پر تلے ہوئے ہیں—تصویر لکھاری

بڑے درخت کی فریاد سن کر میں بوجھل دل کے ساتھ جیپ میں سوار ہوا اور ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ جیپ جنگل کے درمیان سے چلی جا رہی تھی، 20 منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ محکمہ جنگلات کے زیرِ انتظام ایک بڑے ہی خوبصورت ریسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔

ریسٹ ہاؤس—تصویر لکھاری

ریسٹ ہاؤس کا خوبصورت منظر—تصویر لکھاری

ریسٹ ہاؤس انتہائی پرسکون جگہ پر موجود ہے—تصویر لکھاری

یہ ریسٹ ہاؤس تقریبا 118 سال پرانا ہے۔ 1901ء میں برٹش دور میں تعمیر ہونے والے اس ریسٹ ہاؤس میں سیاحوں اور مہمانوں کے لیے 4 کمرے موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سیاح ریسٹ ہاؤس کے لان پر کیمپنگ کا شوق کا بھی پورا کرسکتے ہیں۔ ریسٹ ہاؤس میں تاریخی اہمیت کی حامل چیزیں بھی رکھی گئی ہیں۔

ہم جیسے ہی ریسٹ ہاؤس کے صحن میں داخل ہوئے تو وہاں موجود سیکیورٹی گارڈ نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں کھانا کھانے کے لیے کہا۔

مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والے اس چوکیدار نے مشتاق صاحب کے کہنے پر مکئی کی روٹی، ساگ اور لسی کا بندوبست کرلیا تھا۔ اب چونکہ بھوک بہت زیادہ لگی ہوئی تھی اس لیے ریسٹ ہاؤس کے ہرے بھرے لان میں ہی بیٹھ کر ہم نے روایتی کھانوں پر ہاتھ صاف کیا۔

1896ء کے اخباری نمونے—تصویر لکھاری

گیسٹ ہاؤس کے سیکیورٹی گارڈ نے ہمارا استقبال کیا—تصویر لکھاری

لذیذ روایتی کھانوں سے ہماری تواضع کی گئی—تصویر لکھاری

دیودار درختوں کے اس خوبصورت جنگل میں موجود ریسٹ ہاؤس میں ہر طرف سکون کا ڈیرہ تھا۔ دنیا کے شور وغل سے دُور اس خوبصورت سیاحتی مقام پر قدرت کی رعنائیوں سے محظوظ ہوکر میں خود کو بہت خوش نصیب محسوس کرنے لگا تھا۔

سیاحوں کی ایک بڑی تعداد گیسٹ ہاؤس کا رخ کرتی ہے—تصویر لکھاری

اس ریسٹ ہاؤس سے آپ مختلف ٹریکس کا آغاز بھی کرسکتے ہیں، یہاں سے صرف 5 کلومیٹر کے ٹریک پر مسحور کن نظاروں سے بھرپور لالھیاں میڈوز واقع ہے۔

لالیاں میڈوز کا خوبصورت ٹریک—تصویر لکھاری

ٹھیک اسی مقام سے آگے جاکر ڈنہ میڈوز بھی موجود ہے، جو سری پایہ میڈوز کی طرح دلکش نظاروں سے بھرپور ایک سیاحتی مقام ہے۔ ڈنہ میڈوز اور لالھیاں میڈوز کو کھنیاں سے ملانے والی سڑکوں پر سی پیک منصوبے کے تحت کام تیزی سے جاری ہے۔ بس جب بھی یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا تو ان دونوں سیاحتی مقامات تک سیاحوں کا پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ ٹریکنگ کے شوقین افراد ریسٹ ہاؤس یا کھنیاں کے مقام پر ایک رات گزارنے کے بعد اگلے دن ان سبزہ زاروں کی سیر کے لیے ٹریک کا آغاز کرسکتے ہیں۔

ذنہ میڈوز—تصویر لکھاری

لالھیاں میڈوز—محمد فیاض خان سواتی

دیر تک پُرسکون ساعتوں اور دلفریب مناظر کو ذہن میں نقش اور کیمرے کے لینس میں مقید کرنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔

کمال بن کا خوبصورت جنگل سیاحوں میں کافی مقبول ہو رہا ہے—تصویر لکھاری

کمال بن جنگل کی سیرو سیاحت کے خواہش مند سیاحوں کے لیے چند ہدایات:


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔