نقطہ نظر

بی آر ٹی منصوبے اور ہماری خامیاں

بی آر ٹی منصوبے بڑے تو محسوس ہوتے ہیں لیکن جتنی لاگت ان پر آتی ہے اس کےمقابلے میں ان کی افادیت متاثر کن ثابت نہیں ہوتی
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔

ماضی میں مختلف سیاسی رہنما تیز رفتار عوامی ٹرانسپورٹ یا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے منصوبوں کو اپنا مرکزی سیاسی نعرہ بنا چکے ہیں، اور اکثر اوقات یہ گمراہ کن تاثر پیدا کیا گیا کہ یہ بی آر ٹی کے پروگرامز عوامی ٹرانسپورٹ کے اکثر مسائل کا جامع حل ثابت ہوں گے۔

بی آر ٹی منصوبے سننے اور دکھنے میں تو بہت ہی بڑے محسوس ہوتے ہیں لیکن جتنی لاگت ان منصوبوں پر آتی ہے، جس میں بعض اوقات غیر ملکی امداد کی خاصی مدد شامل ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں ان منصوبوں کی افادیت زیادہ متاثر کن ثابت نہیں ہوتی۔

چلیے لاہور میٹرو بس کی مثال لیتے ہیں۔ یہ بسیں شہر میں روزانہ سفر کرنے والے کُل ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد مسافروں میں سے صرف 2 لاکھ 50 ہزار سے بھی کم مسافروں کو اپنی منزلوں تک پہنچاتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف لاہور کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جب بھی کراچی میں 5 بس لائنز پر مشتمل بی آر ٹی منصوبہ پوری طرح سے فعال ہوگا، تو اس کی مدد سے شہر میں روزانہ سفر کرنے والوں میں سے محض 9 فیصد مسافر ہی مستفید ہوسکیں گے۔

170 ارب روپے کی لاگت سے بننے والے کراچی بی آر ٹی منصوبے کی پانچوں لائنز تقریباً 113 کلومیٹر کا راستہ طے کیا کریں گی، جبکہ اگر پشاور بی آر ٹی منصوبے کی بات کی جائے تو محض 27 کلومیٹر طویل اس منصوبے کی لاگت 55 ارب روپے سے بھی زائد ہے۔

پاکستان میں یہ بی آر ٹیز جس شکل میں چل رہی ہے یہ اس وقت تک اپنی تمام تر صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کرسکتی جب تک یہ اپنی ان خامیوں کو دُور نہ کرلیں۔ یہ 2 اہم خامیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ ان بڑے بڑے منصوبوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع کو بھی بہتر کیا جائے، اور دوسری خامی یہ کہ سائیکل جیسے نان موٹرائزڈ سروس کی بحالی پر خاص توجہ دی جائے۔

دنیا کے بڑے اور تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں ٹرانسپورٹ پلاننگ کے لیے ایک سے دوسری جگہ تک تمام شہریوں کے لیے آسان رسائی اور شہر کے انفرااسٹریکچر کے مختلف منصوبوں کے ذریعے آبادیوں کا آپس میں بہتر رابطہ اولین ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔

یہ باتیں سماجی انصاف کے تناظر میں بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ امیر اور طاقتور طبقے ہی عوامی ٹرانسپورٹ کے ان وسائل کو کنٹرول کررہے ہوتے ہیں اور پھر وہ ایسے منصوبوں کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں جن سے بس محدود فائدے ہی حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کو تقریباً 23 ارب روپے کی لاگت کے ساتھ گاڑیوں کی تیز نقل و حرکت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک بڑی رقم ہے اور اس کو خرچ کرنے کے باوجود بھی معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی دن 40 ہزار سے زائد گاڑیاں لیاری ایکسپریس وے استعمال نہیں کرتی ہیں، جبکہ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ عام شہری اپنے روزانہ کے کام کو نمٹانے کے لیے تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ مرتبہ سفر کرتے ہیں۔ لہٰذا اصل ضرورت ان عام شہریوں کو عوامی ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں 5 ہزار سے کم بسیں 100 روٹس پر چل رہی ہیں۔ شہر میں 9 اور 12 سیٹوں والے رکشوں کی بڑھتی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اچھا یہی ہوتا کہ ان 23 ارب روپوں کو عوامی ٹرانسپورٹ کی بہتری اور زیادہ بسیں خریدنے کے لیے استعمال کیا جاتا۔

پاکستانی شہروں میں اکثر آبادی کی غیر مساوی تقسیم نظر آتی ہے۔ یعنی زیادہ آمدن والے گروہ تو شہر کے مرکز اور اہم مقامات کے قریب رہتے ہیں مگر دوسری طرف کم آمدن والے گروہ اپنی محدود کمائی اور آپشنز کی وجہ سے اپنی کام کی جگہوں سے کافی فاصلے پر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کی قلیل کمائی کا ایک اچھا خاصا حصہ روزانہ کی آمد و رفت میں خرچ ہوجاتا ہے۔

کراچی کے علاقے اورنگی میں رہنے والے فیکٹری ملازم کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے اپنی آدھی تنخواہ خرچ کرنا پڑجاتی ہے، لیکن اس کے برعکس ڈیفینس میں رہنے والے ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر ایگزیکیٹو کے عہدے پر فائز شخص کا دفتر تھوڑے ہی فاصلے پر کلفٹن میں واقع ہوتا ہے۔

عوامی آمد و رفت سے جڑے منصوبوں کی پلاننگ کے وقت ایسی خرابیوں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ خصوصی ایندھن کی فراہمی کے مراکز، کرایوں میں ایڈجسٹمنٹس اور عوامی ٹرانسپورٹ میں شامل موٹر گاڑیوں پر عائد ٹیکس معاف کرنے جیسے فنانشل مینجمنٹ سے جڑے بہتر اور محتاط آپشنز کو زیرِ غور لایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نجی استعمال میں آنے والی گاڑیوں پر عائد ٹیکس میں اضافہ کرنے پر غور کرسکتی ہے تاکہ امیر طبقہ اپنی لگژری کی قیمت ادا کرسکیں جس طرح غریب ادا کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، ملک میں غیر معیاری سڑکیں بھی ماس ٹرانزٹ سے متعلق منصوبوں کی پائیداری کو متاثر کرتی ہیں۔ اس معاملے میں کراچی کی مثال بہتر رہے گی۔ وقتاً فوقتاً مرمتی کام نہ ہوپانے، خراب ڈیزائن اور تعمیرات کے معیار اور بار بار گندا یا پینے کا پانی جمع ہوجانے کی وجہ سے سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مذکورہ وجوہات روڈ حادثوں کی وجہ بھی بنتی جارہی ہیں۔

دوسری طرف عوامی ٹرانسپورٹ میں شامل گاڑیوں کے اکثر ڈرائیور ان پڑھ اور ناپختہ ہیں، جو گاڑی چلانے سے متعلق اصولوں اور ضوابط کی سطحی سمجھ رکھتے ہیں اور روڈ سینس سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔

اگر ان گاڑی چلانے والوں کو ڈرائیونگ سے جڑی مناسب تعلیم فراہم کی جائے تو ٹریفک جام، گنجان سڑکوں، شور کی آلودگی اور حادثات سے جڑے کئی مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

کراچی میں 10 ہزار کلومیٹر سے زائد طویل پکی سڑکیں بچھی ہوئی ہیں، لیکن اس فاصلے کے تقریباً دو تہائی حصے کو مرمتی کام اور مینٹیننس کی ضرورت ہے۔ اس کام کو مختلف مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے انجام دیا جاسکتا ہے۔

پہلے مرحلے میں شہر کی تمام مرکزی شاہراہوں کا مرمتی کام کیا جائے۔ منصوبے کے اگلے مرحلے میں کاروباری مقامات اور صنعتی علاقوں کی اہم سڑکوں سے جڑے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بلدیاتی اختیارات میں توسیع کرنا ہوگی۔

ڈرائیوروں بالخصوص عوامی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے ہاتھوں ہونے والی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی بنانے کے لیے ٹریکنگ ڈیواسز اور اسٹریٹ کیمروں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سائیکل جیسی نان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چھوٹے اور درمیانے فاصلوں کو طے کرنے کے لیے سائیکل سستا اور مؤثر ذریعہ ٹرانسپورٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمیں اپنے سفری ذرائع کی افادیت کو بڑھانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے اس آپشن سے جڑی مناسب سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔


یہ مضمون 11 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔