بھارت: متنازع شہریت بل پر احتجاج جاری، بین الاقوامی سطح پر تنقید
گواتھی: بھارتی حکومت کی جانب سے شہریت کا متنازع بل منظور کرنے پر جہاں بھارت میں شدید احتجاج جاری ہے وہیں بین الااقوامی سطح پر بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارت کی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں مذکورہ بل منظور ہونے کے بعد شمال مشرقی ریاست میں مظاہرین نے ٹائروں کو نذر آتش کیا اور درخت گرا کر سڑکیں بند کردیں۔
اس قانون سازی کو آج راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں پیش کیا جائے گا جس کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا عمل تیز ہوجائے گا بشرط یہ کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: شہریت بل سے مسلمانوں کو نکالنے پر ہزاروں افراد کا احتجاج
اسلامی تنظیموں، اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کے مطابق یہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے میں شامل ہے جس کے تحت وہ 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست میں عوام اس پر مختلف اعتراض کررہے ہیں جنہیں خوف ہے کہ بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں ہندو پناہ گزین جن کو وہ اجنبی سمجھتے ہیں آکر ان کی زمین پر قابض ہوجائیں گے۔
اس ضمن میں گزشتہ روز بنگلہ دیش، چین اور میانمار کے اطراف سے گھرے اس خطے میں درجنوں تنظیموں کی جانب سے دی گئی ہڑتال کی کال کے باعث نظام زندگی مفلوج رہا، بسیں سڑکوں سے غائب اور اسکول اور کاروباری مراکز بھی بند رہے۔
نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے رہنما سموجل بھٹہ چاریہ نے بتایا کہ ’شمال مشرقی ریاستوں میں ہڑتال کی کال پر مکمل عمل درآمد دیکھنے میں آیا‘۔
مزید پڑھیں: غیر مسلم تارکین کو شہریت دینے کا بل، بھارت میں مظاہرے زور پکڑ گئے
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ کیب (سٹیزن امینڈمنٹ بل) کو قبول نہیں کیا جائے گا اور ہم احتجاج کو مزید شدید کردیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستیں پہلے ہی بڑی تعداد میں آنے والے غیر ملکیوں کا بوجھ برداشت کررہی ہیں‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بھارت کی ایوانِ زیریں میں شدید بحث و مباحثے کے بعد رات گئے یہ بل منظور کیا گیا تھا جس میں ایک مسلمان رکنِ اسمبلی نے بھارتی حکومت کو نازیوں سے تشبیہہ دی تھی۔
مذکورہ بل اگر قانون کی شکل اختیار کرگیا تو افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین، پارسیوں اور مسیحیوں کے لیے بھارتی شہری بننا آسان ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: متنازع بل آر ایس ایس کے ہندو راشٹرا ڈیزائن کا ایک حصہ ہے، عمران خان
بھارتی ہندو قوم پرست حکومت کے اس اقدام پر امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادی مذہب نے ایک بیان میں اس بل کو ’غلط سمت میں خطرناک قدم‘ قرار دیا، ان کے مطابق مذکورہ بل اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کا مقصد بھارتی شہریت کے لیے مذہب جانچنا ہے اور اس سے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی جائے گی۔
اس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکی گروپ کے ریمارکس نہ ہی درست ہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہی بلکہ ان کے تعصب اور بدظنی پر مبنی ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے سفیر برائے بھارت یوگو اسٹوٹو نے یورپی ممالک کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ’بھارتی آئین میں موجود مساوات کا تصور برقرار رکھا جائے گا‘۔
شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
واضح رہے کہ شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔
اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں۔