سال 2019 میں بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے مختلف سیکٹرز پر بھارت کی بلااشتعال شدید فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا جس میں پلوامہ اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
واضح رہے کہ ایل او سی پر جنگ بندی کے لیے 2003 میں پاکستان اور بھارتی افواج کی جانب سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بلااشتعال جاری ہے۔
یکم جنوری کو دفتر خارجہ نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ پر قائم مقام بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر گوروو اہلووالیا کو طلب کیا تھا اور 31 دسمبر 2018 کو بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ میں 27 سالہ خاتون کے جاں بحق اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد کے زخمی ہونے پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور واقعے کی شدید مذمت کی تھا۔
7 جنوری کو ایل او سی پر باگسر سیکٹر میں بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں شہری عظیم شہید جبکہ ایک خاتون زخمی ہوئی تھیں جس پر پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارتی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے باگسر سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ پر شدید احتجاج کیا تھا۔
10 جنوری کو بھارتی فوج نے ضلعی ہیڈ کوارٹر اٹھ مقام اور اس کے اطراف میں واقع شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور ایک زخمی ہو گئی تھیں۔
بھارتی فورسز کی جانب سے 27 فروری کو پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر خیلانا سیکٹر کے گاؤں گھی کوٹ میں شیلنگ کے نتیجے میں 3 پاکستانی زخمی ہوگئے تھے جبکہ گھی کوٹ میں شیلنگ کی وجہ سے مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔
4 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے لائن آف کنٹرول کی صورتحال کے حوالے سے بتایا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر، پانڈو، خنجر منور، بَٹل اور بگھسار سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی بلااشتعال فائرنگ سے گزشتہ 24 گھنٹے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، پاک فوج کی جانب سے بھارت کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا گیا اور بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔
5 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ ایل او سی پر گزشتہ 24 گھنٹوں میں صورتحال قدرے پر امن رہی تاہم گرم چشمہ سیکٹر میں بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا۔
7 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن کے بگسار سیکٹر میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 55 سالہ عظمت بی بی اور 75 سالہ بابا جان زخمی ہوئے تھے۔
11 مارچ کو بھارتی فوج نے ایل او سی پر چکوٹھی سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں خاتون سمیت 2 شہری جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تھے۔
بھارتی فورسز نے 2 اپریل کو آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے مختلف مقامات پر شیلنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق جبکہ 2 خواتین زخمی ہوگئی تھیں۔
3اپریل کو پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھارت کو احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
بھارتی فوج کی جانب سے 6 اپریل کو لائن آف کنٹرول میں آزاد کشمیر کے چری کوٹ سیکٹر میں ‘بلااشتعال فائرنگ’ کی تھی جس کے نتیجے میں 4 بچوں اور ایک خاتون سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
2 مئی کو بھارتی فوج کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر میں ضلع حویلی کے نیزہ پیر سیکٹر میں ایل او سی کے قریب ترین واقع گاؤں اخوری میں بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں ایک لڑکا جاں بحق اور اس کی بہن شدید زخمی ہوگئی۔
5 مئی کو آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے سہرا میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ایک خاتون اور ایک 12 سالہ لڑکا جاں بحق اور ایک خاتون زخمی ہوگئیں تھیں۔
بعدازاں 8 مئی کو دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا کو دفتر خارجہ طلب کیا تھا اور ان سے 2 مئی اور 5 مئی کو بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا تھا۔
16 مئی کو آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سبحانی دانا بورہ گاؤں میں بھارتی فورسز کی سرحد پار بلا اشتعال فائرنگ سے ایک نوجوان طالب علم جان کی بازی ہار گیا تھا۔
29 مئی کو بھارتی فوج کی ایل او سی کے راولا کوٹ سیکٹر میں شہری آبادی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون زخمی ہو گئی تھیں۔
3 جولائی کو ایل او سی سے چند میٹر کے فاصلے پر چھمب سیکٹر میں دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج کے 5 جوان شہید اور ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا۔
بھارتی فوج نے 21 جولائی کو لائن آف کنٹرول کے بٹل، سَتوال، خنجر، نکیال اور جندروٹ سیکٹرز میں آرمی کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ، مارٹر گولے اور راکٹ فائر کیے تھے جس کے نتیجے میں ایک فوجی اہلکار شہید اور خواتین سمیت 4 شہری زخمی ہوئے تھے۔
24 جولائی کو ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا کو دفتر خارجہ طلب کیا اور بھارت کی جانب سے 22 اور 23 جولائی کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
بھارت نے باگسر اور ہاٹ اسپرنگ سیکٹرز میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی، 22 جولائی کو ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ سے 22 سالہ محمد ریاض شہید جبکہ 18 سالہ ذبیح اللہ زخمی ہوگیا تھا جبکہ 23 جولائی کو کی گئی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک خاتون جان بی بی شہید جبکہ 3 شہری زخمی ہوگئے تھے۔
29 جولائی کو آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ضلع حویلی میں خورشید آباد اور نیزا پیر سیکٹر میں رات گئے بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک خاتون جاں بحق اور 5 خواتین سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔
30 جولائی کو بھارتی فورسز نے آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ہلم ویلی سے کم از کم 100 کلومیٹر پر واقع لیپہ ویلی میں دو گاؤں کو اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا تھا، بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ سے 2 شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
31 جولائی کو بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی پر دفتر خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی ڈپٹی کمشنر گورو اہلووالیا کو طلب کیا تھا، بعدازاں 31 جولائی کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور مزید 6 شہری زخمی ہوئے تھے۔
یکم اگست کو دفتر خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارٹی ڈپٹی کمشنر گورو اہلووالیا کو مسلسل دوسرے روز پھر طلب کیا اور بھارتی جارحیت پر احتجاج کیا تھا۔
13 اگست کو بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 38 سالہ شہری سرفراز احمد شہید ہوگیا تھا جس کے بعد 14 اگست کو پاکستان نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزریوں اور اس کے نتیجے میں ایک شہری کی شہادت پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔
16 اگست کو بھارت نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 4 جوان شہید ہوگئے تھے۔
18 اگست کو بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر تتہ پانی سیکٹر پر مارٹرز اور ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل کا استعمال کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 2 بزرگ شہری شہید ہوئے تھے جس پر 19 اگست کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
20 اگست کو پاک فوج نے ایل او سی پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر موثر جواب دیتے ہوئے ایک افسر سمیت 6 بھارتی فوجیوں کو ہلاک ، کئی کو زخمی اور 2 بنکرز کو تباہ کردیا تھا۔
27 اگست کو آزاد کشمیر کے نسبتاً محفوظ تصور کیے جانے والے ضلع نیلم کے مضافاتی علاقے گریز میں بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں دو افراد شہید اور 43 زخمی ہوئے تھے جس پر 28 اگست کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔
6 ستمبر کو ایل او سی کے کھوئی رٹہ سیکٹر میں مقبوضہ جموں کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی پرامن ریلی پر بھارتی فورسز نے فائرنگ کردی تھی جس پر 8 ستمبر کو ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
لائن آف کنٹرول پر 12 ستمبر کو بھارتی فوج نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاجی پیر سیکٹر میں آرمی کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا اور بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاک فوج کا سپاہی شہید ہوگیا تھا۔
14 ستمبر کو ایل او سی پر بھارتی فورسز نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاجی پیر سیکٹر میں پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا تھا اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا جوان اور ایک خاتون شہید ہوگئیں تھیں جس پر پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔
29 ستمبر کو بھارتی فوج کی جانب سے ایل او سی کے نکیال اور رکھ چکری سیکٹرز پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک بچہ جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ 3 شہری بھی زخمی ہوئے تھے جس کے بعد 30 ستمبر کو پاکستان نے بھارتی فوج کی فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
یکم اکتوبر کو بھارتی فورسز کی جانب سے نیزا پیر اور باگسر سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ سے 50 سالہ خاتون نورجہاں شہید جبکہ ایک خاتون اور 2 مرد زخمی ہوئے تھے جس پر 2 اکتوبر کو بھی بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہووالیا کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارت کی مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا۔
3 اکتوبر کو بھارتی فوجیوں کی جانب سے ضلع بھمبیر کے سماہنی سیکٹر اور ضلع حویلی کے نیزا پیر سیکٹر پر شیلنگ کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور 3 شہری زخمی ہوئے تھے جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسی روز بھارتی قائم مقام ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کردیا تھا۔
7 اکتوبر کو بھارت کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں آزاد جموں کشمیر کے علاقے عباس پور میں گھر کے باہر کھڑی خاتون گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئیں تھیں۔
8 اکتوبر کو بھی ترجمان دفتر خارجہ نے قابض فوج کی جانب سے 6 اکتوبر اور 7 اکتوبر کو ایل او سی پر کی گئی بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کے لیے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔
یاد رہے کہ 15 اکتوبر کو بھی ایل او سی کے سیکٹر نیزا پیر کے مختلف دیہاتوں پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال شیلنگ سے ایک ہی گھر کے 3 افراد شہید اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد 16 اکتوبر کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
20 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال شیلنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان اور 6 شہری شہید ہوگئے تھے۔
اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی شیلنگ کے نتیجے میں 9 کشمیری زخمی بھی ہوئے اور مزید بتایا تھا کہ یہ رواں برس بھارتی شیلنگ کے نتیجے میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں۔
بعد ازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سماجی رابطے پر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان شہید جبکہ دیگر 2 زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر نے مزید بتایا تھا کہ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کے جواب میں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے بھارتی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 9 بھارتی فوجی ہلاک جبکہ دیگر 9 زخمی ہوگئے اور 2 بھارتی بنکرز بھی تباہ ہوگئے۔
بھارتی فوج نے 24 اکتوبر کو ضلع کوٹلی کے مقام پر بلا اشتعال شیلنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک کشمیری اور ان کا بیٹا شہید ہوگئے تھے اور ان کی ایک بچی زخمی ہوگئی تھی جس پر 25 اکتوبر کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی فوج کی جانب سے ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
بھارت کی جانب سے 28 اکتوبر کو لائن آف کنٹرول کے بھمبر سیکٹر کی تحصیل سماہنی میں شہری آبادی پر بھاری شیلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں خاتون اور بچے سمیت 3 افراد زخمی ہوئے تھے۔
15 نومبر کو بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی تحصیل برنالہ کے گاؤں نالی میں کھیتوں میں کام کرنے والے نوجوان ٹریکٹر ڈرائیور کو نشانہ بنایا تھا جو گردن پر گولی لگنے سے موقع پر ہی جا ں بحق ہوگیا تھا۔
یکم دسمبر کو لائن آف کنٹرول پر راولا کوٹ کے رکھ چکری سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور گولی باری کے نتیجے میں پاک فوج کے 2 افسران اور خاتون زخمی ہوگئے تھے۔
17 دسمبر کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے ایک شخص جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے تھے۔
19 دسمبر کی شب آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب جورا سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق جبکہ خاتون سمیت 2 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
جس کے بعد 21 دسمبر کی شب پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا تھا، اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ دیوا سیکٹر پر بھارتی پوسٹوں کے تباہ ہونے اور بھارتی فوجیوں کے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔
لائن آف کنٹرول پر 22 دسمبر کو سماہنی اور برنالا سیکٹرز پر پاک فوج اور بھارتی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
26 دسمبر 2019 کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوئے تھے جبکہ پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی میں 3 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا کہ ’گزشتہ 36 گھنٹے سے ایل او سی پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے‘۔
پاکستان نے بھارتی آرمی چیف کی جانب سے دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کے دعوے کو بے نقاب کرنے اور حقائق سے آگہی کے لیے 22 اکتوبر کو غیر ملکی سفرا، ہائی کمشنرز اور میڈیا نمائندگان کو آزاد کشمیر میں ایل او سی کے جورا سیکٹر کا دورہ کروایا تھا اور اس موقع پر بریفنگ بھی دی گئی تھی۔
اس دورے کے دوران سفرا و ہائی کمشنرز نے ان مقامات کا جائزہ لیا تھا، جنہیں بھارتی اشتعال انگیزی سے نقصان پہنچا تھا او انہیں ہتھیاروں کا بھی معائنہ کرایا گیا تھا جو بھارتی افواج نے بلا اشتعال فائرنگ کے دوران شہری آبادی پر داغے تھے۔
غیر ملکی نمائندوں نے آزاد طریقے سے جورا سیکٹر کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایل او سی کے دورے کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے غیر ملکی سفرا اور میڈیا نمائندگان کو بریفنگ دی تھی اور بعد ازاں بتایا تھا کہ 2018 میں بھارت کی جانب سے 3038 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، جس میں 58 شہری شہید اور 319 زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ بھارت نے اب تک 2 ہزار 608 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں 44 شہری شہید اور 230 زخمی ہوچکے ہیں۔
بھارت میں شہریت ترمیمی بل پر پاکستان کا ردعمل
خیال رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے مذکورہ بل 9 دسمبر 2019 جبکہ ایوان بالا یعنی راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔
اس قانون کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
12 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں متنازع شہریت کے ترمیمی بل کو مودی کے بالادستی کے ایجنڈے کی تازہ کوشش قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ 'بھارت، وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں منظم طریقے سے ہندو بالادستی کے ایجنڈے کی جانب بڑھ رہا ہے ، مقبوضہ کشمیر کے غیرقانونی قبضے اور جاری محاصرے سے شروع کرنا، پھر آسام میں 20 لاکھ بھارتی مسلمانوں سے شہریت چھیننا، حراستی کیمپس قائم کرنا اور اب شہریت ترمیمی قانون کو پاس کرنا'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'مودی کا جوہری بڑھاؤ کے تحت پاکستان کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ ہندو بالادستی کا ایجنڈا دنیا میں بڑے پیمانے پر خون ریزی اور دور رس نتائج کا باعث بنے گا'۔
اسی روز اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی بل پیش کیے جانے سے نئی دہلی کا 'چہرہ سامنے ' آگیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 13 دسمبر کو ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلاموفوبیا کے ذریعے مسلمانوں پر ضرب لگائی گئی اور اب بھارت نے شہریت ترمیمی بل پاس کر کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے اور یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کی حق تلفی ہے اور پاکستان شہریت ترمیمی قانون کا بل مسترد کرتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 17 دسمبر کو جینیوا میں پناہ گزینوں کے پہلے عالمی فورم سے خطاب کیا تھا، انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارت میں متنازع شہریت بل کی منظوری کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا جان لے کہ بھارت میں پناہ گزینوں کا ایک بڑا بحران جنم لے رہا ہے، 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ عوام محصور ہیں، جان بوجھ کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھاکہ ہمیں خدشہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر توجہ نہ دی گئی تو دو ایٹمی ممالک میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے، بھارت کو غیر قانونی اقدامات سے باز رکھ کر پناہ گزینوں کے ایک بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت نے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کے لیے متنازع شہریت بل منظور کیا ہے، 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں، اس قانون کے خلاف بھارت میں فسادات ہو رہے ہیں اور لوگ سڑکوں پر ہیں۔
جس پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر تنقید کی تھی اور اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'گزشتہ 72 سالوں سے پاکستان اپنی تمام اقلیتوں پر ظلم ڈھا کر بھارت فرار ہونے پر مجبور کررہا ہے، پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور اسے فروغ دینا چاہیے'۔