پاکستان

پاک-بھارت تعلقات: 2019 سفارتی اور عسکری محاذ آرائیوں کا سال

رواں سال کے آغاز میں ہی بھارت نے پے در پے مختلف حربوں کو اپناتے ہوئے جنوبی ایشیا کے امن کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔

تقسیم ہند کے بعد سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی تو سفارتی اور کبھی عسکری محاذ کسی نہ کسی حوالے سے کھلا ہی رہا ہے تاہم رواں سال دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آیا بلکہ دونوں ہی ممالک ایک دوسرے کے خلاف عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں سے شکایات کرتے نظر آئے۔

رواں سال ایک جانب جہاں خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا کی عالمی طاقتوں نے بھی دونوں جوہری طاقتوں کو جنگ اور تنازعات سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کیں، وہیں دونوں ممالک سفارتی محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے مستعد نظر آئے۔

ماضی کی طرح رواں سال فروری 2019 سے بھی پے در پے مختلف حربے اپناتے ہوئے بھارت نے خطے کے امن کو متاثر کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں جس کی وجہ سے اس کے تعلقات خاص طور پر اپنے روایتی حریف پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ کشیدہ رہے اور یہ صورت حال اب بھی جوں کی توں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کی صورتحال برقرار ہے— فوٹو: شٹراسٹاک

فروری 2019 میں بھارتی فضائیہ کی جانب سے آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ میں حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ کے خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا تاہم پاکستان نے ہر موقع پر بھارت کے امن مخالف مقاصد کو ناکام بنانے کی ہرممکن کوشش کی اور نہ صرف بروقت ردعمل دیا بلکہ جنگ سے متعلق خدشات کو مسترد کرتے ہوئے اس حوالے سے پہل نہ کرنے کا بھی واضح اعلان کیا۔

پاکستان کی جانب سے نا صرف بھارت، خطے کے دیگر ممالک اور عالمی طاقتوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا کے پاکستان کسی صورت حملے میں پہل نہیں کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

اسی دوران بھارت نے ایک اور محاذ کو کھول دیا اور وہ تھا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، جس پر پاکستان کی حکومت اور عوام سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے پھر رد عمل دیا اور اسے مسترد کردیا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل وادی میں اس حوالے سے سامنے آنے والے کسی بھی قسم کے ممکنہ رد عمل کو روکنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا اور مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کردیا تھا اور اس رپورٹ کی تیاری تک یہ صورت حال تاحال جوں کی توں تھی۔

سال 2019 میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کس حد تک کشیدہ ہوئے اور اس میں کیا کیا موڑ آئے ان کی تفصیلات کچھ یوں ہے:

یکم جنوری کو پاک فوج کے جوانوں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے ملحقہ علاقے باغ سیکٹر میں جاسوسی کے شبے میں ‘بھارتی کواڈکوپٹر’ کو مار گرایا تھا۔

اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘پاکستان آرمی نے بھارتی جاسوس کواڈ کوپٹر کو لائن آف کنٹرول کے ساتھ باغ سیکٹر میں مار گرایا’۔

اس کے ساتھ ہی 2 جنوری کو پاک فوج نے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب دوسرے روز بھی بھارتی ‘جاسوس ڈرون’ مار گرایا تھا۔

اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘آج لائن آف کنٹرول میں ستوال سیکٹر پر پاک فوج کے جوانوں نے ایک اور بھارتی جاسوس کواڈ کوپٹر کو مار گرایا‘۔

16 مارچ کو بھی پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جاسوس ڈرون کو مار گرایا تھا، اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا کہ ایل او سی کے رکھچکری سیکٹر میں جاسوس ڈرون مار گرایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ڈرون جاسوسی کے لیے 150 میٹر اندر تک پاکستانی حدود میں داخل ہوا تھا۔

رواں سال پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی ابتدا پلوامہ حملے سے ہوئی تھی، 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا تاہم اسلام آباد نے اسے مسترد کیا۔

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ پلوامہ حملہ کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑتے ہوئے 1995 میں دیا گیا ’پسندیدہ تجارتی ملک‘ کا درجہ واپس لے لیا تھا۔

اس کے علاوہ 17 فروری کو بھارت نے جلتی پر تیل کا کام کرنے کے لیے ملک میں پاکستان سپر لیگ (ی ایس ایل) 4 کی نشریات پر پابندی عائد کردی تھی اور یہی نہیں بلکہ بھارتی درآمدکنندگان نے پاکستانی سیمنٹ کی درآمد روک دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پلوامہ میں دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے —فوٹو: اے پی

بعدازاں اپریل میں بھی پاکستان نے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی نشریات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔

بھارتی حکام کی الزام تراشیوں کے جواب میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو ’قابلِ عمل معلومات‘ فراہم کرنے کی صورت میں تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی تھی اور ساتھ ہی خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کی تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔

تاہم بھارت نے تحقیقات کی پیشکش کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو حقیقت کے برعکس قرار دیا تھا۔

بعدازاں 28 مارچ کو پاکستان نے کہا تھا کہ پلوامہ حملے کی ابتدائی تحقیقات میں پاکستان کا واقعے سے کسی بھی قسم کا تعلق ثابت نہیں ہوا اور حملے کے حوالے سے بھارتی ڈوزیئر میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کا کوئی ذکر بھی نہیں۔

20 فروری کو بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کی سینٹرل جیل میں قیدیوں کے ایک گروپ نے پاکستانی قیدی کو بدترین تشدد کرکے قتل کردیا تھا۔

جے پورسینٹرل جیل میں 3 قیدیوں کے گروپ نے پاکستانی قیدی کو بدترین تشدد کرکے قتل کیا تھا۔

بعدازاں 8 مارچ کو بھارت میں سزا مکمل ہونے کے باوجود رہا نہ ہونے والا پاکستانی شہری قید میں ہی جاں بحق ہوگئے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق بھارتی جیل میں قید پاکستانی 62 سالہ محمد اعظم امرتسر کے گرونانک دیو ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی قیدی کی موت طبی تھی، تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

پاکستان کی جانب سے بارہا پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیے جانے کے بعد 26 فروری کو بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر کے علاقے میں دراندازی کی کوشش کی گئی تاہم پاک فضائیہ نے بروقت ردعمل دیتے ہوئے اس کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔

اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر کے علاقے مظفر آباد میں داخل ہونے کی کوشش کر کے بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔

26 فروری کو بھارت نے پاکستان میں دراندازی کی کوشش تھی—فوٹو:آئی ایس پی آر ٹوئٹر

انہوں نے بتایا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاک فضائیہ کے بروقت ردعمل کے باعث بھارتی طیارے نے عجلت میں فرار ہوتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب راکٹ فائر کیے تاہم اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

اسی روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اب وہ پاکستان کے جواب کا انتظار کرے جو انہیں حیران کردے گا، ہمارا ردِعمل بہت مختلف ہوگا، اس کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ہم خود کریں گے۔

آزاد کشمیر میں حملے کی ناکامی اور پاکستان کی عسکری قیادت کے خبردار کیے جانے کے باوجود اس کے اگلے ہی روز 27 فروری کو بھارتی فضائیہ نے ایل او سی کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کی لیکن اس مرتبہ پاکستان نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا، ان میں سے ایک طیارہ آزاد کشمیر جبکہ دوسرا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔

واقعے کے فوری بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا کہ پاک فضائیہ نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فضائیہ کی در اندازی کو ناکام بنا دیا اور 2 بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔

پاک فضائیہ نے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا تھا —فوٹو:آئی ایس پی آر

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا جبکہ دوسرا طیارہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں گرا، انہوں نے کہا تھا کہ پاک فوج نے ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ دیگر 2 پائلٹس کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔

بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود میں دراندازی کی کوشش کے بعد پاکستان کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔

پاک فوج کے ترجمان نےکہا تھا کہ پاک فضائیہ کے اہداف کے حصول کے بعد بھارتی ایئرفورس کے 2 طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس کے بعد دونوں بھارتی طیاروں کو گرادیا گیا، ایک کا ملبہ ہماری جانب گرا جبکہ دوسرے کا ملبہ بھارت کی جانب گرا، اس کے علاوہ بھی ایک اور بھارتی طیارے کے گرنے کی اطلاع ہے لیکن وہ اندر ہے اور ہماری اس سے ’انگیجمنٹ‘ نہیں ہوئی۔

بعدازاں یکم مئی کو ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے کہا تھا کہ 27 فروری کو بھارتی دراندازی پر پاکستان ایئرفورس (پی اے ایف) کا جواب تاریخ میں ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘ کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔

اس واقعے سے اگلے ہی روز 28 فروری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والے پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ بھارت کے گرفتار پائلٹ کو جذبہ غیر سگالی کے تحت رہا کررہے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد گرفتار کیے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو تمام کاغذی کارروائی کے بعد یکم مارچ کو واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کیا—فوٹو: ڈان نیوز

ابھی نندن کی حوالگی کے موقع پر بھارت کی جانب سے اپنی سرحد پر پرچم اتارنے کی تقریب کو منسوخ کیا گیا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے واہگہ بارڈر پر حسب معمول پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔

بھارتی پائلٹ کی ان کے حکام کو حوالگی سے قبل ابھی نندن کی ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں ابھی نندن نے کہا تھا کہ 'پاکستانی فوج بہت ہی پروفیشنل ہے، میں نے پاکستانی فوج کے ساتھ وقت گزارا اور میں بہت متاثر ہوا ہوں'۔

بھارتی پائلٹ کو جذبہ خیرسگالی کے تحت رہا کیا گیا—فوٹو:ڈان نیوز

بعدازاں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا تھا کہ پاکستان پر گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کے لیے نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی مجبوری تھی۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ ابھی نندن کو رہا کیے جانے کے حوالے سے یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ مغربی طاقتوں کے شدید دباؤ کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کو رہا کیا گیا ہے تاہم پاکستانی حکام نے اس کی تردید کی۔

نومبر میں پاکستان نے مذکورہ بھارتی پائلٹ کا مجسمہ نمائش کے لیے نصب کیا تھا۔

20 فروری کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیوتیرس نے ’پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی‘ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کو زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ’ثالثی‘ کی پیش کش کی تھی۔

26 فروری کو بھارت کی جانب سے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بعد عالمی برادری نے پاکستان اور بھارت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا تھا۔

بعدازاں 27 فروری کو بھی بین الاقوامی برادری نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی بڑھانے سے گریز کریں۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے 8 اگست کو مسئلہ کشمیر کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اگست ہی میں پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اطراف میں کشیدگی کے باعث اقوامِ متحدہ (یو این) نے دونوں ممالک سے ’زیادہ سے زیادہ‘ تحمل سے کام لینے کی اپیل کی تھی۔


امریکی صدر کی پاک-بھارت ثالثی کی پیشکش


رواں برس 22 جولائی کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ نریندر مودی نے انہیں کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے لیے کہا تھا اور وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ٹرمپ کے بیان کو خوش آئند قرار دیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی جانب سے ٹرمپ کے بیان کو غلط فہمی قرار دیتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کردیا گیا تھا لیکن نریندر مودی نے اس کی تردید یا تائید کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

ٹرمپ نے پاک-بھارت ثالثی کی پیشکش کی—فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘ہم نے پریس میں صدر ٹرمپ کا بیان دیکھا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان درخواست کرتے ہیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں، اس طرح کی کوئی درخواست نریندر مودی نے امریکی صدر سے نہیں کی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بھارت کا مستقل مؤقف ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت صرف دو طرفہ ہوگی’۔

وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بطور ثالثی کی پیشکش پر بھارتی میڈیا کے منفی ردعمل پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

بعدازاں 19 اگست کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ٹیلیفونک گفتگو میں ان پر زور دیا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کیا جائے۔

23 ستمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران میڈیا سے گفتگو میں ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے حل طلب ہے اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ثالثی کے لیے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'مجھے امید ہے کہ بھارت اور پاکستان مل کر اچھا کریں گے وہ حل بھی جانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کوئی حل نکلے آئے گا'۔

رواں سال کے آغاز سے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران ہی 27 فروری کو پاکستان نے اپنی فضائی حدود کو ہر قسم کی کمرشل فلائٹس کے لیے بند کردیا تھا۔

بعدازاں اسی روز پاکستان کی فضائی حدود کو جزوی طور پر بحال کر دیا گیا لیکن کمرشل فلائٹس بند رہیں اور تقریبا 28 روز کے بعد 27 مارچ کو پاکستانی فضائی حدود کو تمام ملکی اور غیر ملکی پروازوں کے لیے مکمل طور پر بحال کردیا گیا تھا۔

27 فروری کو پاکستان کی فضائی حدود کو ہر قسم کی کمرشل فلائٹس کے لیے بند کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے باعث تقریبا 28 روز تک ایشیا اور یورپ کے درمیان ایئر ٹریفک بری طرح متاثر ہوا تھا جبکہ کچھ ایئرلائنز نے روٹس کو تبدیلی کرکے اپنی فلائٹس کو ایڈجسٹ کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی فضائی حدود کی کمرشل فلائٹس کے لیے بحالی کے باوجود پاکستانی فضائی حدود بھارت کے لیے 15 جولائی تک بند رہی تھیں جس کی وجہ سے بھارت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اسے خسارے کا سامنا بھی ہوا تھا۔

پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بھارت کی سرکاری ایئرلائن ایئر انڈیا کو مارچ تک 60 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔


سمجھوتہ ایکسپریس سروس معطل


27 فروری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی ٹرین 'سمجھوتہ ایکسپریس' کی لاہور سے دہلی کے لیے روانگی منسوخ کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس ہفتے میں 2 روز، پیر اور جمعرات، کی صبح لاہور سے واہگہ کے راستے بھارت میں اٹاری کے لیے روانہ ہوتی تھی۔

8 اگست کو سمجھوتہ ایکسپریس کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا—فوٹو:اے ایف پی

بعدازاں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کے بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے 8 اگست کو سمجھوتہ ایکسپریس کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

شیخ رشید احمد نے 9 اگست کو بھی ایک پریس کانفرنس میں کھوکھرا پار اور موناباؤ کے درمیان چلنے والی 'تھر ایکسپریس' کو بھی بند کرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں کشیدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان نے پاک-بھارت بس سروس بھی معطل کردی تھی۔

پاک فضائیہ کی جانب سے بھارتی فضائیہ کے دو لڑاکا طیارے گرائے جانے کے بعد پاک بحریہ نے 5 مارچ کو پاکستان کی سمندری حدود میں بھارتی آبدوز کے داخلے کی کوشش کو ناکام بنانے کا اعلان کیا تھا۔

اس حوالے سے ترجمان پاک بحریہ نے کہا تھا کہ سمندری زون میں موجود بھارتی آبدوز کا سراغ لگایا گیا اور پاکستان کی سمندری حدود میں اس کے داخلے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔


پاکستانی اور بھارتی حکام کے درمیان لفظی جنگ


پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر پلوامہ حملے کے الزامات سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کو ’پاکستان پر الزام تراشی کا وتیرہ‘ قرار دیا تھا۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’حملے سے متعلق پاکستان پر الزامات محض جذباتی اور ازخود اخذ کردہ ہیں جس کی مثالیں ماضی بھی میں ملتی ہیں‘۔

8 اپریل کو پاکستان نے بھارت کی جانب سے پاکستانی ایف 16 طیارے کو مار گرانے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جھوٹ چاہے کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ بولا جائے لیکن اس سے جھوٹا دعویٰ سچ نہیں بن جاتا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی دعوؤں کے جواب میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ بار بار بولنے سے جھوٹ سچ نہیں بن جاتا، بھارت نے جھوٹے دعوے کیے اور اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کے لیے دنیا کے سامنے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیا۔

وہ بھارتی فضائیہ کے سربراہ کی جانب سے نئی دہلی میں کی گئی نیوز کانفرنس کا جواب دے رہے تھے جس میں بھارتی ایئر وائس مارشل آر جی کے کپور نے فروری میں پاکستان کا جنگی طیارہ گرانے کے خود ساختہ ’ناقابل تردید‘ ثبوت پیش کیے تھے۔

بعدازاں رواں برس مئی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے رواں برس 26 فروری کو خراب موسم کے باوجود پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں دراندازی کے احکامات دیے تھے جس پر بھارت میں انہیں اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سوشل میڈیا میں ان کا مذاق بنایا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز نیشن کو دیے گئے انٹرویو میں متنازع ریمارکس دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’دفاعی ماہرین کے منصوبے پر انہیں شک تھا، مجھے حیرت ہے کہ ملک کے پنڈت جو مجھے برا بھلا کہتے ہیں کبھی یہ نہیں جان سکے‘۔

جس پر ردعمل دیتے ہوئے 14 مئی کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ جب ریڈار نہیں چل رہے تھے تو انڈین فورسز کے 2 طیارے مار گرائے، اگر ریڈار چل رہے ہوتے تو نریندر مودی سوچیں، کیا ہوتا؟

17 جون کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میچ میں کامیابی پر بھارتی کرکٹ ٹیم کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'بھارتی ٹیم کی جانب سے پاکستان پر ایک اور اسٹرائیک کی گئی اور نتیجہ وہی نکلا'۔

جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اپنی ٹیم کو مبارکباد کے پیغام میں کہا تھا کہ میچ اور اسٹرائیک کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے امیت شاہ کی ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'محترم امیت شاہ، جی آپ کی ٹیم اچھا کھیلی اور کامیابی حاصل کی'۔

رواں برس اگست کے آغاز میں بھارتی میڈیا کی جانب سے ہرزہ سرائی کی گئی تھی کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے کیرن سیکٹر میں پاک فوج کی جانب سے کیے گئے ’بارڈر ایکشن ٹیم‘ (بی اے ٹی) آپریشن کو ’ناکام‘ بنایا جس پر 4 اگست کو پاک فوج نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کرکے کارروائی کرنے اور لاشیں تحویل میں لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے محض پروپیگینڈا قرار دیا تھا۔

رواں برس اکتوبر میں بھارتی آرمی چیف بیپن روات نے الزام عائد کیا تھا کہ بھارتی ایئر فورس کی جانب سے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں سرحد پار حملے میں تباہ کیے گئے ’دہشت گردوں کے کیمپ‘ دوبادہ سرگرم ہوگئے ہیں، انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کیمپوں سے کم از کم 5 سو افراد مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں داخل ہونے کے منتظر ہیں۔

جس کے جواب میں 5 اکتوبر کو پاکستان کی سول و ملٹری قیادت کی جانب سے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو مسترد کیا گیا، اس حوالے سے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’یہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری سنگین انسانی بحران سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش ہے'۔

ایک علیحدہ بیان میں پاک فوج نے خبردار کیا تھا کہ 'بھارت بے بنیاد الزام لگا کر جعلی آپریشن کی کوشش کرسکتا ہے جس کے خطے کے امن پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے‘۔

بعدازاں اکتوبر ہی میں بھارت نے آزاد کشمیر میں واقع وادی نیلم میں مبینہ دہشت گردوں کے کیمپس تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کیا۔

اس حوالے سے 20 اکتوبر کو ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ ’بھارتی آرمی چیف ایک ذمہ دار عہدہ رکھتے ہیں، ان کی جانب سے آزاد کشمیر میں 3 مبینہ کیمپوں کو تباہ کرنے سے متعلق دعویٰ مایوس کن ہے وہاں نشانہ بنانے کے لیے کوئی کیمپ ہی نہیں‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا تھا کہ ’پاکستان میں موجود بھارتی سفارت خانے کو دعوت دیتے ہیں کہ کسی بھی غیر ملکی سفارت کار اور میڈیا کے نمائندے کے ساتھ دورہ کرکے اس دعوے کو ثابت کرکے دکھائیں‘۔

دفتر خارجہ نے بھی بھارتی میڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنانے کی رپورٹس مسترد کی تھیں اور کہا تھا کہ ‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے 5 مستقل ممالک (پی-5) سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کو مبینہ ٹھکانوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا کہیں‘۔

18 نومبر کو پاکستان نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو تشدد پسند پارٹی کے ایجنڈے پر گامزن قرار دیتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ سبرامینیم جے شنکر کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن کے حوالے سے دیے گئے بیان کو مسترد کیا تھا۔

اس حوالے سے ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘ہم بھارتی وزیر خارجہ کے بے بنیاد بیان کو مسترد کرتے ہیں جو انہوں نے فرانسیسی اخبار اور دیگر مخصوص میڈیا اداروں کو انٹرویو کے دوران دیا’۔

13 دسمبر کو بھارتی فلمساز بھوشن کمار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’2019 بالا کوٹ ایئر اسٹرائیک‘ کے واقعے پر فلم بنانے کا اعلان کیا تھا۔

اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ فلم ان کے ملک کے بہادر لوگوں کو خراج تحسین ہے۔

جس پر 16 دسمبر کو بھارتی فلمساز کو کرارا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا اور کہا کہ ’بطور سپاہی ونگ کمانڈر ابھی نندن کا احترام رکھتے ہوئے، ہاں یہ خواب صرف بالی وڈ کے ذریعے ہی پورا کیا جا سکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’26 فروری کی شرمناک اسٹرائیک سے انکار اور 27 فروری کو پاک فضائیہ کے طیاروں کی جانب سے بھارتی ایئر فورس کے طیاروں کی تباہی آپ کو بھولے گی نہیں‘۔

بھارتی آرمی چیف کے بیان پر پاکستان کا رد عمل

18 دسمبر کو بھارتی آرمی چیف بیپن راوت نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر حالات کسی بھی وقت کشیدہ ہوسکتے ہیں اور ’ہم (بھارتی فوج) کسی بھی قسم کی کشیدگی نے نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘۔

اسی روز بھارتی آرمی چیف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ بھارتی آرمی چیف بیپن روات کا بیان ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی دنیا کی توجہ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) پر بھارت میں ہونے والے مظاہروں سے ہٹانے کی کوشش ہے۔

پاک فوج نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ پاکستانی افواج کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

بعدازاں 19 دسمبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’اگر ہمیں خطرات کے بارے میں معلوم ہے تو ہمارے پاس اس کا ردعمل بھی موجود ہے، اگر ہم بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، اندرونی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو جو ملک دشمن قوتوں کا موجودہ ڈیزائن چل رہا ہے، اسے سمجھ کر اس کا بھی مقابلہ کریں گے‘۔

19 دسمبر ہی کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ شہریت قانون پر احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کی جانب سے ایک نیا ناٹک رچانے کا خدشہ ہے، بھارتی آرمی چیف کا بیان بہت غیر ذمہ دارانہ ہے اور ہماری انٹیلی جنس کو کچھ اشارے ملے ہیں اور ہمیں لائن آف کنٹرول پر غیرمعمولی نقل و حرکت دکھائی دے رہی ہے۔

وزیر خارجہ نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

بعدازاں 21 دسمبر کو بھارتی آرمی چیف کے بیان کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے کوئی 'جعلی آپریشن' کرنے کی کوشش کی گئی تو 'پاکستان کے پاس منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا'۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 23 دسمبر کو ایل او سی اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) مظفر آباد کا دورہ کیا تھا اور نوجوانوں سے خطاب میں کہا تھا کہ ’امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور کشمیر پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘۔

آرمی چیف نے کہا تھا کہ 'مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر جارحیت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں'۔

27 فروری کو بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرائے جانے کے بعد پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی، وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی دراندازی کا جواب دینے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور ہم ایک مرتبہ پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہیں۔

بعد ازاں 14 جون کو وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ بھارت کو ایک مرتبہ پھر تمام اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی ہے جو مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔

قبل ازیں پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے خطے میں قیامِ امن اور تمام تصفیہ طلب امور پر مذاکرات کی پیش کش پر بالآخر بھارت نے آمادگی ظاہر کردی۔

دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق اس مثبت رد عمل کا اظہار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سبراہمنیام جے شنکر کی جانب سے پاکستانی قیادت کو لکھے گئے ایک خط میں کیا گیا۔

جس پر بھارت نے پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں مذاکرات کے حوالے سے آمادگی ظاہر کرنے کی رپورٹس کی تردید کی تھی۔

بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس حوالے سے کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’مروجہ سفارتی روایت کے تحت وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے پاکستانی قیادت کی جانب سے موصول ہونے والے پیغامات کا جواب دیا‘۔

31 اگست کو پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط رکھتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھنے، کشمیری قیادت کی رہائی اور ان تک رسائی ملنے کے بعد ہی پاک-بھارت مذاکرات ہوسکتے ہیں۔

سال 2019 ہی میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے 17 جولائی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی تھی۔

عالمی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور حوالگی کی بھارتی استدعا بھی مسترد کردی تھی جبکہ حسین مبارک پٹیل کے نام سے کلبھوشن کے دوسرے پاسپورٹ کو بھی اصلی قرار دیا تھا تاہم پاکستان کو کلبھوشن کو قونصلر رسائی دینے کا کہا گیا تھا۔

عالمی عدالت نے پاکستان سے کلبھوشن کی سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

مذکورہ کیس میں پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ 'ویانا کنونشن کا اطلاق جاسوسوں پر نہیں ہوتا، لہٰذا بھارت کی قونصلر رسائی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی جانی چاہیے'۔

عالمی عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان اب اس کیس پر قانون کے مطابق آگے بڑھے گا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد کمانڈر کلبھوشن پر کیس کیسے چلانا ہے اس کا اختیار پاکستان کو مل گیا ہے اور پاکستان کا عدالتی نظام کلبھوشن یادیو کیس کا جائزہ لے گا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے اس حوالے سے اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'آج کا دن بھارت کے لیے ایک اور 27 فروری ثابت ہوا، عالمی عدالت میں بھارت کے جھوٹے بیانیے کی شکست ہوئی اور اسے کلبھوشن فیصلے کی شکل میں آج بھی بڑا سرپرائز ملا'۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت نے نظرثانی کا معاملہ پاکستان پر چھوڑ دیا ہے، قانون کے مطابق کلبھوشن سے متعلق حکومت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کریں گے جبکہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔

بعدازاں 19 جولائی کو پاکستان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کا اعلان کیا تھا۔

اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بطور ذمہ دار ریاست، پاکستان کلبھوشن کو ملکی قوانین کے تحت قونصلر تک رسائی دے گا جس کے لیے طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے۔

جس کے بعد 2 ستمبر کو پاکستان نے بھارتی جاسوس کو ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں قونصلر رسائی دے دی تھی اور یہ ملاقات 2 گھنٹے تک جاری رہی تھی۔

17 جولائی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ سنایا گیا—فوٹو:رائٹرز

واضح رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

بعدازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائی گئی تھی، جس کی توثیق 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی جسے سماعت کے لیے مقرر کرلیا گیا تھا اور پاکستان نے 13 دسمبر 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں جوابی یادداشت جمع کرائی تھی۔

بعدازاں 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے جو پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی تھی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔

رواں برس 18 فروری کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس کی 4 روزہ سماعت کا آغاز ہوا تھا جو 22 فروری کو مکمل ہوئی تھی۔

پیس پیلیس میں 18 فروری کو شروع ہونے والی کیس کی سماعت کے دوران پاکستانی وفد کی قیادت سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بطور ایجنٹ کی تھی جبکہ بھارتی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری دیپک میتَل کر رہے تھے۔

عالمی عدالت میں پاکستان کی جانب سے بیرسٹر خاور قریشی جبکہ بھارت کی جانب سے ہرش سیلو کلبھوشن کیس کی پیروی کررہے تھے۔

آئی سی جے میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف کیس کی سماعت کے دوسرے روز پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کلبھوشن کے پاسپورٹ سے متعلق برطانوی رپورٹ پیش کی تھی۔

21 فروری کو آئی سی جے میں زیر سماعت کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کلبھوشن یادیو کی رہائی کے اپنے ہی مطالبے سے دستبردار ہوگیا تھا۔

بعدازاں 4 جولائی کو عالمی عدالت انصاف نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کیس میں حتمی فیصلہ 17 جولائی کو سنایا جائے گا۔

بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور اس اقدام سے ایک روز قبل ہی وادی میں کرفیو نافذ کردیا تھا جبکہ وہاں تمام مواصلاتی رابطے بھی منقطع کردیے گئے تھے۔

اس سے قبل 2 اگست کو بھارتی حکام نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر مقبوضہ کشمیر کی سیاحت پر آئے ہوئے سیاحوں کو وادی سے واپس جانے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ مقامی افراد کو اشیائے خورو نوش اور ایندھن ذخیرہ کرنے کی بھی ہدایات کی گئیں جبکہ اضافی نفری کے ساتھ سیکیورٹی کے دیگر اقدامات نے عوام میں خوف اور تشویش کی لہر پیدا کردی تھی۔

بعد ازاں بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے ’جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن بل 2019‘ کثرت رائے شماری سے منظور کرلیا گیا تھا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کونسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 کا خصوصی آرٹیکل نافذ کیا، جس کے تحت اب بھارتی حکومت مقبوضہ وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کرسکتی ہے۔

آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں دفاعی، مالیاتی اور خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی—فوٹو: اے این آئی ٹوئٹر

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

کشمیر کے مقامی مجسٹریٹ نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں 'اے ایف پی' اور 'اے پی' کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کم از کم 4 ہزار کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔

30 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے 5 اگست کے احکامات پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تھا جس کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل ہوگیا تھا جس میں ایک جموں و کشمیر اور دوسرا بدھ مت اکثریتی علاقہ لداخ بھی شامل ہے۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سخت سیکیورٹی کی موجودگی اور عوامی غم و غصے کے باوجود وادی پر براہِ راست وفاقی حکومت کی حکمرانی کے آغاز کے بعد متنازع علاقہ اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوا۔

دوسری جانب پاکستان نے 5 اگست ہی کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو فوری طور پر مسترد کیا تھا۔

اس تمام تر صورتحال پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 6 اگست کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور اس سے خطے میں امن اور سیکیورٹی کی صورتحال کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا۔

بعدازاں 7 اگست کو قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اہم اجلاس میں پاکستان نے بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کرنے اور سفارتی تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

7 اگست کو پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے تناظر میں پاکستان کے لیے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے اس فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے لیے نامزد پاکستانی ہائی کمشنر کو نئی دہلی نہیں بھیجے گا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے تحت پاکستان میں 73 واں یومِ آزادی، یومِ ٰیکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا تھا۔

علاوہ ازیں 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کو ملک بھر یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا تھا، اس دوران تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا تھا جبکہ بھارت مخالف احتجاج اور مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر ملک بھر یوم سیاہ منایا گیا—فوٹو: اے ایف پی

اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خط لکھ کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ اجلاس بلا کر مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بات کی جائے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پاکستانی خط سلامتی کونسل کی صدر تک پہنچایا تھا۔

بعدازاں 16 اگست کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 50 سال میں پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر غور کے لیے تاریخی مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا۔

کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے کشمیر آور منایا گیا—فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

سلامتی کونسل کا یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا تھا، جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی تھی اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

30 اگست کو وزیراعظم عمران خان کی اپیل پر پاکستانی قوم نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے دن 12 سے ساڑھے 12 بجے تک ’کشمیر آور‘ منایا تھا۔

اس دوران ملک بھر میں سائرن بجائے گئے تھے جس پر تمام ٹریفک اور حکومتی مشینری نے کام روک دیا تھا، کشمیر آور کے آغاز پر پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کا قومی ترانہ بھی بجایا گیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی اقدامات کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے عالمی برادری کو بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے 27ستمبر کو اقوام متحدہ میں خطاب کیا—فوٹو:اے ایف پی

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مودی کو سمجھ ہے کہ 8 کروڑ مسلمان بھارت میں اس وقت کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری 55 روز سے محصور ہیں، اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کو اکسایا جائے گا، میں 180 ملین لوگوں کی بات کررہا ہوں، جب وہ شدت اختیار کریں گے تو پھر پاکستان پر الزام آئے گا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’بھارت کے پاس اور کوئی بیانیہ نہیں رہا، جیسے ہی وہ کرفیو ہٹائیں گے جو کچھ ہوگا، وہ اس کا الزام پاکستان پر لگائیں گے اور ایک اور پلوامہ کا خطرہ موجود ہے، بمبار دوبارہ آسکتے ہیں جس سے نیا چکر شروع ہوسکتا ہے‘۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آپ کیا سمجھتے ہیں 80 لاکھ کو بھول جائے جب 8 ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا سوچے گی، یورپی کیا سوچیں گے، اگر کسی برادری کے لوگ اس طرح محصور ہوں تو وہ کیا کریں گے کیا انہیں درد نہیں ہوگا؟'

انہوں نے عالمی ادارے سے سوال کیا تھا کہ اقوام متحدہ ایک ارب 20 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ دیکھے گا یا عالمی انصاف کو مقدم رکھے گا؟ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کے لیے ٹیسٹ کیس قرار دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 'عالمی برادری کشمیر کو ہر صورت حق خود ارادیت دلائے'۔

بعدازاں دسمبر میں پاکستان کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے لیے اپنی ویزا پالیسی میں تبدیلی سے متعلق خبریں گردش میں تھیں تاہم دفتر خارجہ نے ان خبروں کو مسترد کردیا تھا۔

22 دسمبر کو ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ ‘میڈیا کے ایک حلقے میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشیوں کے لیے ویزا سے متعلق تبدیلیوں کی رپورٹس گردش کر رہی تھیں جو مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط ہیں’۔


بھارتی وزیراعظم کی فضائی حدود سے متعلق درخواست مسترد


رواں برس اکتوبر میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست مسترد کردی تھی۔

بھارتی حکومت نے 28 اکتوبر کو پاکستان سے نریندر مودی کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی درخواست کی تھی، جنہوں نے 29 اکتوبر کو سعودی عرب میں عالمی کاروباری کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'یہ فیصلہ یوم سیاہ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے'۔

تاہم بھارت نے پاکستان کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کی فضائی حدود استعمال کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) سے درخواست کی تھی لیکن آئی سی اے نے بھی بھارتی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

اس حوالے سے میڈیا ادارے فرسٹ پوسٹ کے مطابق آئی سی اے او کا کہنا تھا کہ قومی رہنماؤں کو لے جانے والی پرواز ’ریاستی طیارے‘ کے زمرے میں آتی ہے اور وہ عالمی ادارے کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

اس سے قبل پاکستان نے ستمبر میں بھی نریندر مودی کے جرمنی کے سفر کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھارتی درخواست کو مسترد کیا تھا۔

علاوہ ازیں پاکستان نے ستمبر کے اوائل میں بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو بھی آئس لینڈ جاتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

جون میں بھی پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے طیارے کو کرغزستان جانے کے لیے ملک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا جنہوں نے 13 اور 14 جون کو کرغزستان میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بشکیک پہنچنا تھا۔

تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ نریندر مودی کا طیارہ شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کے لیے بشکک جانے کے لیے پاکستان کی جانب سے اجازت ملنے کے باوجود اس کی فضائی حدود سے نہیں گزرے گا۔

تاہم یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستان نے 21 مئی کو کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کی سابق وزیر خارجہ سشما سوراج کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی خصوصی اجازت دی تھی۔

رواں برس 9 نومبر کو وزیراعظم پاکستان نے سکھ برادری کے مذہبی پیشوا باباگرونانک کے 550ویں جنم دن کے موقع پر ان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل مقام گوردوارہ ڈیرہ صاحب تک سکھ یاتریوں کی باآسانی رسائی کے لیے قائم کی گئی کرتارپور راہداری کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا۔

یہ راہداری ایک سال کی قلیل مدت میں تعمیر کی گئی جس کا مقصد بھارت سے پاکستان کے ضلع نارووال میں کرتارپور کے مقام پر گوردوارہ ڈیرہ صاحب آنے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

کرتارپور راہدار ایک ویزا فری کوریڈور ہے اور جس کے ذریعے بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صبح گوردوارہ دربار صاحب آکر اسی شام کو واپس چلے جائیں گے۔

افتتاحی تقریب میں بھارت سے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ، سابق کرکٹر اور سیاستدان نووجوت سنگھ سدھو، بالی وڈ اداکار سنی دیول و دیگر سمیت ہزاروں سکھ یاتریوں نے شرکت کی تھی۔

9 نومبر کو کرتارپور راہداری کا افتتاح کیا گیا—فوٹو: اے ایف پی

کرتارپور راہداری کے افتتاح کی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہم آپ کے لیے یہ راہداری کھول سکے کیونکہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ برصغیر میں کرتارپور کی کیا اہمیت تھی، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرتارپور دنیا کی سکھ برادری کا ’مدینہ‘ ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نریندر مودی سے کہا تھا کہ ہمارے درمیان کشمیر کا مسئلہ موجود ہے، جسے ہم ہمسایوں کی طرح بات چیت کرکے حل کرسکتے ہیں۔

ساتھ ہی کرتارپور راہداری کی تاریخی افتتاحی تقریب میں بھارت سے آئے ہوئے سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے خطاب کرتے ہوئے اپنے شاعرانہ انداز میں وزیراعظم عمران خان کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ کچھ عمران خان جیسے لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ بنایا کرتے ہیں اور یہ تقسیم ہند کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کی رکاوٹیں ختم ہوئیں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے شاعرانہ انداز میں وزیراعظم کی تعریف کی تھی—فوٹو: ڈان نیوز

اسی روز کرتار پور راہداری کے بھارتی حصے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کرتارپور راہداری کھولنے پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا خصوصی شکریہ ادا کیا تھا۔

کرتارپور راہداری کا افتتاح بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر کیا گیا— فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے کرتار پور راہداری کے افتتاح کا خیرمقدم کیا تھا اور امید کا اظہار کیا تھا کہ راہداری کا افتتاح پاکستان اور بھارت کے باہمی مفاد کی جانب ایک مثبت پیش رفت ہے۔

اس حوالے سے ایک ویڈیو پیغام میں محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹاگس نے کہا تھا کہ اس نئی پیش رفت کا آغاز 'مذہبی آزادی کو فروغ' دینے کی جانب مثبت اقدام ہے۔

واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔

سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گوردوارے کی زیارت بھی کرتے تھے۔

تاہم گزشتہ برس اگست میں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے، اس تقریب میں وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی تھی تاہم آرمی چیف سے گلے ملنے پر انہیں بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس حوالے سے سدھو نے بتایا تھا کہ جب ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان گرو نانک صاحب کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق سوچ رہا ہے۔

بعد ازاں 28 نومبر 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے ضلع نارووال کے علاقے کرتارپور میں قائم گوردوارہ دربار صاحب کو بھارت کے شہر گورداس پور میں قائم ڈیرہ بابا نانک سے منسلک کرنے والی راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔

سنگ بنیاد کی تقریب میں سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے، پاکستان نے اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم انہوں نے شرکت سے معذرت کرلی تھی۔

بعدازاں کرتار پور راہداری کھولنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کے تمام تر امکانات کو رد کرتے ہوئے سشما سوراج نے کہا تھا کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا ’جب تک پاکستان بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں نہ روک دے‘۔

سشما سوراج نے بھارتی عزائم ظاہر کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس اقدام سے دونوں ممالک میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا‘۔

اس سے 2 روز قبل 26 نومبر کو بھارتی پنجاب کے شہر گرداس پور میں کرتارپور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب تنازع کا شکار ہوگئی تھی۔

تقریب کے دوران پنجاب کے وزیر سُکھ جندر سنگھ رندھاوا نے تختی پر اپنے ہی وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ اور دیگر وزرا کے ناموں پر سیاہ ٹیپ لگایا تھا اور کہا تھا کہ ’پرکاش سنگھ، بادل اور سکھبیر سنگھ بادل کے نام سنگ بنیاد پر لکھنے پر احتجاجاً انہوں نے یہ کام کیا‘۔

کرتارپور راہداری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے مختلف دور ہوئے تھے جس کے بعد رواں برس 24 اکتوبر کو معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے مطابق اس راستے سے روزانہ بھارت سے 5 ہزار سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت ہے۔

راہداری کے افتتاح سے قبل یکم نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور آنے والے افراد کے لیے 10 روز قبل اندراج کرانے اور پاسپورٹ کی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن (سالگرہ) کے موقع پر حکومت پاکستان نے کرتار پور آنے والے سکھ یاتریوں کو خصوصی مراعات دیتے ہوئے ایک سال کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے اور زائرین کی فہرست 10 روز قبل فراہم کرنے کی شرط بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سکھ یاتری 20 امریکی ڈالر کی سروس فیس ادا کرکے گوردوارے آسکیں گے تاہم 9 تا 12 نومبر تک کے لیے یاتریوں کو فیس سے بھی استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔

تاہم بھارت نے سکھ یاتریوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ مراعات کو مسترد کر دیا تھا جس پر پاکستان کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا۔

6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادات کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا، بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

9 نومبر کی صبح کرتارپور راہداری کے افتتاح سے قبل بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان کے دفترخارجہ نے بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے حق میں دیے گئے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاریخی مسجد کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہوا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘بھارتی سپریم کورٹ کے تاریخی بابری مسجد کے حوالے سے فیصلے پر ہمیں گہری تشویش ہے، فیصلہ ایک مرتبہ پھر انصاف کے تقاضے برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکا ہے’۔


ڈیوس کپ ٹائی پاکستان سے منتقل کرنے کا اعلان


رواں برس انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے پاکستان اور بھارت کے درمیان نومبر میں شیڈول ڈیوس کپ مقابلوں کی نیوٹرل مقام پر منتقلی کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کو نئے مقام کے تعین کی ہدایت کی تھی۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات اور سیکیورٹی صورتحال کے باعث دونوں ممالک کے درمیان ڈیوس کپ ٹینس ٹائی کو اگست میں ملتوی کردیا گیا تھا۔

ایشین اوشیانا گروپ ون کے ٹائی مقابلے اسلام آباد کے پاکستان اسپورٹس کمپلیکس میں 14 اور 15 ستمبر کو منعقد ہونا تھے، جس میں شرکت کے لیے جولائی میں بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کی تصدیق بھی کی تھی۔

اس صورتحال کے پیش نظر بھارت نے انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن سے ڈیوس کپ کا مقام کسی اور ملک منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے اپنے سیکیورٹی مشیروں کو صورتحال کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی جنہوں نے ایونٹ کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

بعدازاں ستمبر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیوس کپ ٹائی کے لیے نئی تاریخوں کا اعلان کیا گیا اور شیڈول میں تبدیلی کے بعد بھی پاکستان ہی نے مقابلوں کی میزبانی کرنی تھی جو اسلام آباد کے پاکستان اسپورٹس کمپلیکس میں 14 اور 15 ستمبر کو منعقد ہونے تھے۔

تاہم بھارت نے انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن سے درخواست کی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے سبب ان مقابلوں کو کسی نیوٹرل مقام پر منتقل کردیا جائے۔

ڈیوس کپ کے مقام کے حتمی تعین کے لیے فیصلہ 3 نومبر کو آیا اور انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے بھارت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کو ینیوٹرل مقام پر میچر منعقد کرانے کی ہدایت کردی۔

تاہم پاکستان کے نامور ٹینس اسٹار اعصام الحق نے بھارت کے خلاف ڈیوس کپ میچز کی منتقلی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے متعصب اور جانبدارانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔

اس حوالے سے اعصام الحق نے ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میں اس فیصلے سے بہت زیادہ مایوس ہوں، ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جو ہم نے کیا ہی نہیں ہے۔

اعصام الحق نے مقام کی منتقلی کے بعد میچ میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ میں بھارت کے خلاف ڈیوس کپ میچز کے پاکستان میں انعقاد کے حوالے سے بہت پرجوش تھا کیونکہ اس کے ذریعے ہم دنیا کو بہت مثبت پیغام بھیجتے اور اپنے ملک کی اچھی تصویر پیش کر سکتے تھے لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے یہ فیصلہ کیوں اور کس بنیاد پر کیا؟

بعدازاں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن (آئی ٹی ایف) نے غیر جانبدار اقدام کے تحت پاک-بھارت ڈیوس کپ ٹائی کی میزبانی پاکستان سے قازقستان منتقل کردی تھی جو 29-30 نومبر کو کھیلی گئی۔

ڈیوس کپ کی منتقلی پر پاکستان کے کھلاڑی اعصام الحق، عقیل خان اور نان پلیئنگ سابق کپتان مشفق ضیا نے آئی ٹی ایف کے غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف مقابلے میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

سال 2019 میں بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے مختلف سیکٹرز پر بھارت کی بلااشتعال شدید فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا جس میں پلوامہ اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

واضح رہے کہ ایل او سی پر جنگ بندی کے لیے 2003 میں پاکستان اور بھارتی افواج کی جانب سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بلااشتعال جاری ہے۔

یکم جنوری کو دفتر خارجہ نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ پر قائم مقام بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر گوروو اہلووالیا کو طلب کیا تھا اور 31 دسمبر 2018 کو بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ میں 27 سالہ خاتون کے جاں بحق اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد کے زخمی ہونے پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور واقعے کی شدید مذمت کی تھا۔

7 جنوری کو ایل او سی پر باگسر سیکٹر میں بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں شہری عظیم شہید جبکہ ایک خاتون زخمی ہوئی تھیں جس پر پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارتی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے باگسر سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ پر شدید احتجاج کیا تھا۔

10 جنوری کو بھارتی فوج نے ضلعی ہیڈ کوارٹر اٹھ مقام اور اس کے اطراف میں واقع شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور ایک زخمی ہو گئی تھیں۔

بھارتی فورسز کی جانب سے 27 فروری کو پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر خیلانا سیکٹر کے گاؤں گھی کوٹ میں شیلنگ کے نتیجے میں 3 پاکستانی زخمی ہوگئے تھے جبکہ گھی کوٹ میں شیلنگ کی وجہ سے مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

4 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے لائن آف کنٹرول کی صورتحال کے حوالے سے بتایا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر، پانڈو، خنجر منور، بَٹل اور بگھسار سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی بلااشتعال فائرنگ سے گزشتہ 24 گھنٹے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، پاک فوج کی جانب سے بھارت کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا گیا اور بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔

5 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ ایل او سی پر گزشتہ 24 گھنٹوں میں صورتحال قدرے پر امن رہی تاہم گرم چشمہ سیکٹر میں بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا۔

7 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن کے بگسار سیکٹر میں شہری آبادی کو نشانہبنایا جس کے نتیجے میں 55 سالہ عظمت بی بی اور 75 سالہ بابا جان زخمی ہوئے تھے۔

11 مارچ کو بھارتی فوج نے ایل او سی پر چکوٹھی سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں خاتون سمیت 2 شہری جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تھے۔

بھارتی فورسز نے 2 اپریل کو آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے مختلف مقامات پر شیلنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق جبکہ 2 خواتین زخمی ہوگئی تھیں۔

3اپریل کو پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھارت کو احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

بھارتی فوج کی جانب سے 6 اپریل کو لائن آف کنٹرول میں آزاد کشمیر کے چری کوٹ سیکٹر میں ‘بلااشتعال فائرنگ’ کی تھی جس کے نتیجے میں 4 بچوں اور ایک خاتون سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

2 مئی کو بھارتی فوج کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر میں ضلع حویلی کے نیزہ پیر سیکٹر میں ایل او سی کے قریب ترین واقع گاؤں اخوری میں بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں ایک لڑکا جاں بحق اور اس کی بہن شدید زخمی ہوگئی۔

5 مئی کو آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے سہرا میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ایک خاتون اور ایک 12 سالہ لڑکا جاں بحق اور ایک خاتون زخمی ہوگئیں تھیں۔

بعدازاں 8 مئی کو دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا کو دفتر خارجہ طلب کیا تھا اور ان سے 2 مئی اور 5 مئی کو بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا تھا۔

16 مئی کو آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سبحانی دانا بورہ گاؤں میں بھارتی فورسز کی سرحد پار بلا اشتعال فائرنگ سے ایک نوجوان طالب علم جان کی بازی ہار گیا تھا۔

29 مئی کو بھارتی فوج کی ایل او سی کے راولا کوٹ سیکٹر میں شہری آبادی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون زخمی ہو گئی تھیں۔

3 جولائی کو ایل او سی سے چند میٹر کے فاصلے پر چھمب سیکٹر میں دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج کے 5 جوان شہید اور ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا۔

بھارتی فوج نے 21 جولائی کو لائن آف کنٹرول کے بٹل، سَتوال، خنجر، نکیال اور جندروٹ سیکٹرز میں آرمی کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ، مارٹر گولے اور راکٹ فائر کیے تھے جس کے نتیجے میں ایک فوجی اہلکار شہید اور خواتین سمیت 4 شہری زخمی ہوئے تھے۔

24 جولائی کو ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیا کو دفتر خارجہ طلب کیا اور بھارت کی جانب سے 22 اور 23 جولائی کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

بھارت نے باگسر اور ہاٹ اسپرنگ سیکٹرز میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی، 22 جولائی کو ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ سے 22 سالہ محمد ریاض شہید جبکہ 18 سالہ ذبیح اللہ زخمی ہوگیا تھا جبکہ 23 جولائی کو کی گئی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک خاتون جان بی بی شہید جبکہ 3 شہری زخمی ہوگئے تھے۔

29 جولائی کو آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ضلع حویلی میں خورشید آباد اور نیزا پیر سیکٹر میں رات گئے بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک خاتون جاں بحق اور 5 خواتین سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔

30 جولائی کو بھارتی فورسز نے آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ہلم ویلی سے کم از کم 100 کلومیٹر پر واقع لیپہ ویلی میں دو گاؤں کو اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا تھا، بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ سے 2 شہری جاں بحق ہوئے تھے۔

31 جولائی کو بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی پر دفتر خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی ڈپٹی کمشنر گورو اہلووالیا کو طلب کیا تھا، بعدازاں 31 جولائی کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور مزید 6 شہری زخمی ہوئے تھے۔

یکم اگست کو دفتر خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارٹی ڈپٹی کمشنر گورو اہلووالیا کو مسلسل دوسرے روز پھر طلب کیا اور بھارتی جارحیت پر احتجاج کیا تھا۔

13 اگست کو بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 38 سالہ شہری سرفراز احمد شہید ہوگیا تھا جس کے بعد 14 اگست کو پاکستان نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزریوں اور اس کے نتیجے میں ایک شہری کی شہادت پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔

16 اگست کو بھارت نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 4 جوان شہید ہوگئے تھے۔

18 اگست کو بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر تتہ پانی سیکٹر پر مارٹرز اور ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل کا استعمال کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 2 بزرگ شہری شہید ہوئے تھے جس پر 19 اگست کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

20 اگست کو پاک فوج نے ایل او سی پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر موثر جواب دیتے ہوئے ایک افسر سمیت 6 بھارتی فوجیوں کو ہلاک، کئی کو زخمی اور 2 بنکرز کو تباہ کردیا تھا۔

27 اگست کو آزاد کشمیر کے نسبتاً محفوظ تصور کیے جانے والے ضلع نیلم کے مضافاتی علاقے گریز میں بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں دو افراد شہید اور 43 زخمی ہوئے تھے جس پر 28 اگست کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔

6 ستمبر کو ایل او سی کے کھوئی رٹہ سیکٹر میں مقبوضہ جموں کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی پرامن ریلی پر بھارتی فورسز نے فائرنگ کردی تھی جس پر 8 ستمبر کو ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

لائن آف کنٹرول پر 12 ستمبر کو بھارتی فوج نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاجی پیر سیکٹر میں آرمی کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا اور بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاک فوج کا سپاہی شہید ہوگیا تھا۔

14 ستمبر کو ایل او سی پر بھارتی فورسز نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاجی پیر سیکٹر میں پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا تھا اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا جوان اور ایک خاتون شہید ہوگئیں تھیں جس پر پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔

29 ستمبر کو بھارتی فوج کی جانب سے ایل او سی کے نکیال اور رکھ چکری سیکٹرز پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک بچہ جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ 3 شہری بھی زخمی ہوئے تھے جس کے بعد 30 ستمبر کو پاکستان نے بھارتی فوج کی فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

یکم اکتوبر کو بھارتی فورسز کی جانب سے نیزا پیر اور باگسر سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ سے 50 سالہ خاتون نورجہاں شہید جبکہ ایک خاتون اور 2 مرد زخمی ہوئے تھے جس پر 2 اکتوبر کو بھی بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہووالیا کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارت کی مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا۔

3 اکتوبر کو بھارتی فوجیوں کی جانب سے ضلع بھمبیر کے سماہنی سیکٹر اور ضلع حویلی کے نیزا پیر سیکٹر پر شیلنگ کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور 3 شہری زخمی ہوئے تھے جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسی روز بھارتی قائم مقام ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کردیا تھا۔

7 اکتوبر کو بھارت کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں آزاد جموں کشمیر کے علاقے عباس پور میں گھر کے باہر کھڑی خاتون گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئیں تھیں۔

8 اکتوبر کو بھی ترجمان دفتر خارجہ نے قابض فوج کی جانب سے 6 اکتوبر اور 7 اکتوبر کو ایل او سی پر کی گئی بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کے لیے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔

یاد رہے کہ 15 اکتوبر کو بھی ایل او سی کے سیکٹر نیزا پیر کے مختلف دیہاتوں پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال شیلنگ سے ایک ہی گھر کے 3 افراد شہید اور 8 زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے بعد 16 اکتوبر کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

20 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال شیلنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان اور 6 شہری شہیدہوگئے تھے۔

اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی شیلنگ کے نتیجے میں 9 کشمیری زخمی بھی ہوئے اور مزید بتایا تھا کہ یہ رواں برس بھارتی شیلنگ کے نتیجے میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں۔

بعد ازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سماجی رابطے پر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان شہید جبکہ دیگر 2 زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر نے مزید بتایا تھا کہ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کے جواب میں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے بھارتی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 9 بھارتی فوجی ہلاک جبکہ دیگر 9 زخمی ہوگئے اور 2 بھارتی بنکرز بھی تباہ ہوگئے۔

بھارتی فوج نے 24 اکتوبر کو ضلع کوٹلی کے مقام پر بلا اشتعال شیلنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک کشمیری اور ان کا بیٹا شہید ہوگئے تھے اور ان کی ایک بچی زخمی ہوگئی تھی جس پر 25 اکتوبر کو پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی فوج کی جانب سے ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

بھارت کی جانب سے 28 اکتوبر کو لائن آف کنٹرول کے بھمبر سیکٹر کی تحصیل سماہنی میں شہری آبادی پر بھاری شیلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں خاتون اور بچے سمیت 3 افراد زخمی ہوئے تھے۔

15 نومبر کو بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی تحصیل برنالہ کے گاؤں نالی میں کھیتوں میں کام کرنے والے نوجوان ٹریکٹر ڈرائیور کو نشانہ بنایا تھا جو گردن پر گولی لگنے سے موقع پر ہی جا ں بحق ہوگیا تھا۔

یکم دسمبر کو لائن آف کنٹرول پر راولا کوٹ کے رکھ چکری سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور گولی باری کے نتیجے میں پاک فوج کے 2 افسران اور خاتون زخمی ہوگئے تھے۔

17 دسمبر کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے ایک شخص جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے تھے۔

19 دسمبر کی شب آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب جورا سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق جبکہ خاتون سمیت 2 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

جس کے بعد 21 دسمبر کی شب پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا تھا، اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ دیوا سیکٹر پر بھارتی پوسٹوں کے تباہ ہونے اور بھارتی فوجیوں کے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔

لائن آف کنٹرول پر 22 دسمبر کو سماہنی اور برنالا سیکٹرز پر پاک فوج اور بھارتی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

26 دسمبر 2019 کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوئے تھے جبکہ پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی میں 3 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا کہ ’گزشتہ 36 گھنٹے سے ایل او سی پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے‘۔

پاکستان نے بھارتی آرمی چیف کی جانب سے دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کے دعوے کو بے نقاب کرنے اور حقائق سے آگہی کے لیے 22 اکتوبر کو غیر ملکی سفرا، ہائی کمشنرز اور میڈیا نمائندگان کو آزاد کشمیر میں ایل او سی کے جورا سیکٹر کا دورہ کروایا تھا اور اس موقع پر بریفنگ بھی دی گئی تھی۔

اس دورے کے دوران سفرا و ہائی کمشنرز نے ان مقامات کا جائزہ لیا تھا، جنہیں بھارتی اشتعال انگیزی سے نقصان پہنچا تھا او انہیں ہتھیاروں کا بھی معائنہ کرایا گیا تھا جو بھارتی افواج نے بلا اشتعال فائرنگ کے دوران شہری آبادی پر داغے تھے۔

غیر ملکی نمائندوں نے آزاد طریقے سے جورا سیکٹر کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

ایل او سی کے دورے کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے غیر ملکی سفرا اور میڈیا نمائندگان کو بریفنگ دی تھی اور بعد ازاں بتایا تھا کہ 2018 میں بھارت کی جانب سے 3038 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، جس میں 58 شہری شہید اور 319 زخمی ہوئے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ بھارت نے اب تک 2 ہزار 608 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں 44 شہری شہید اور 230 زخمی ہوچکے ہیں۔


بھارت میں شہریت ترمیمی بل پر پاکستان کا ردعمل


خیال رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے مذکورہ بل 9 دسمبر 2019 جبکہ ایوان بالا یعنی راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔

اس قانون کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

12 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں متنازع شہریت کے ترمیمی بل کو مودی کے بالادستی کے ایجنڈے کی تازہ کوشش قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ 'بھارت، وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں منظم طریقے سے ہندو بالادستی کے ایجنڈے کی جانب بڑھ رہا ہے، مقبوضہ کشمیر کے غیرقانونی قبضے اور جاری محاصرے سے شروع کرنا، پھر آسام میں 20 لاکھ بھارتی مسلمانوں سے شہریت چھیننا، حراستی کیمپس قائم کرنا اور اب شہریت ترمیمی قانون کو پاس کرنا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'مودی کا جوہری بڑھاؤ کے تحت پاکستان کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ ہندو بالادستی کا ایجنڈا دنیا میں بڑے پیمانے پر خون ریزی اور دور رس نتائج کا باعث بنے گا'۔

اسی روز اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی بل پیش کیے جانے سے نئی دہلی کا 'چہرہ سامنے' آگیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 13 دسمبر کو ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلاموفوبیا کے ذریعے مسلمانوں پر ضرب لگائی گئی اور اب بھارت نے شہریت ترمیمی بل پاس کر کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے اور یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کی حق تلفی ہے اور پاکستان شہریت ترمیمی قانون کا بل مسترد کرتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے 17 دسمبر کو جینیوا میں پناہ گزینوں کے پہلے عالمی فورم سے خطاب کیا تھا، انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارت میں متنازع شہریت بل کی منظوری کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا جان لے کہ بھارت میں پناہ گزینوں کا ایک بڑا بحران جنم لے رہا ہے، 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ عوام محصور ہیں، جان بوجھ کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھاکہ ہمیں خدشہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر توجہ نہ دی گئی تو دو ایٹمی ممالک میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے، بھارت کو غیر قانونی اقدامات سے باز رکھ کر پناہ گزینوں کے ایک بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت نے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کے لیے متنازع شہریت بل منظور کیا ہے، 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں، اس قانون کے خلاف بھارت میں فسادات ہو رہے ہیں اور لوگ سڑکوں پر ہیں۔

جس پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر تنقید کی تھی اور اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'گزشتہ 72 سالوں سے پاکستان اپنی تمام اقلیتوں پر ظلم ڈھا کر بھارت فرار ہونے پر مجبور کررہا ہے، پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور اسے فروغ دینا چاہیے'۔