پاکستان

بلوچستان: خواتین کی گرفتاری کے خلاف سماجی و سیاسی کارکنوں، وکلا کا احتجاج

آزادی اظہار پر زور دیا جا رہا ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں میڈیا ہاؤسز کو تحفظ فراہم نہیں کررہیں، شرکا احتجاج

کوئٹہ: انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور سیاسی رہنماؤں نے چند روز قبل آواران سے 4 خواتین کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینار میں مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بھی اجاگر کیا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کی یقین دہانی:10 سال بعد'لاپتہ افراد' کےعزیزوں کا احتجاج ملتوی

واضح رہے کہ 30 نومبر کو لیویز اور پولیس حکام نے خواتین کی گرفتاری کا اعلان کیا اور ان پر آواران میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے لیے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد لے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

بلوچستان بار کونسل کے رہنما راحب خان بلیدی، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن، انسانی حقوق کے کارکن ایڈووکیٹ احد، جمعیت لائرز فورم کے چیئرمین خلیل الرحمن، بلوچستان عوامی پارٹی کے سمیر، عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب غلام رضا اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے خواتین کی گرفتاری کی مذمت کی۔

اس ضمن میں بی این پی (ایم) کے موسیٰ بلوچ نے کہا کہ 'معصوم خواتین کی گرفتاری بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے'۔

بلوچستان بار کونسل کے رہنما راحب خان بلیدی نے بلوچستان میں اقلیتوں کی مجموعی حالت زار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں تمام اقلیتی گروہوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چھ ماہ میں 200 لاپتہ افراد بازیاب ہوئے، وزیر داخلہ بلوچستان کا دعویٰ

انہوں نے ملک میں جبری طور پر جاری میڈیا سنسرشپ کی بھی مذمت کی۔

کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کرنے میں میڈیا کے کردار کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مشکل وقت کا سامنا کر رہا ہے۔

رضا الرحمٰن نے مزید کہا کہ آزادی اظہار پر زور دیا جا رہا ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں میڈیا ہاؤسز پر حملہ کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرنے میں سنجیدہ نہیں۔

جمعیت لائرز فورم کے خلیل الرحمٰن نے میڈیا، وکلا، سول سوسائٹی اورحکومت پر ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اجتماعی کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: کمسن بچی کا ممکنہ طور پر ’ریپ‘ کے بعد قتل ہوا،آئی جی خیبر پختونخوا

دریں اثنا کوئٹہ، قلات اور ہرنائی میں خواتین کی رہائی کے لیے بی این پی کے قائدین اختر جان مینگل، عبد الولی کاکڑ اور بلوچستان اسمبلی کے ممبران اختر حسین لونگ، احمد نواز، زینت شاہوانی اور ملک نصیر شاہوانی کے ساتھ مظاہرین کی رہنمائی اور نعرے بازی کی گئی۔

مظاہرین نے 'زیرحراست' خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔