شہباز شریف کی صدارت میں مسلم لیگ (ن) کا اجلاس ایجویئر روڑ میں مقامی ہوٹل میں ہوا جس میں اسحٰق ڈار نے بھی شرکت کی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا لندن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی صدارت میں اجلاس ہوا جہاں آرمی چیف کی مدت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اراکین تعنیات سمیت دیگر پارلیمانی امور پر مشاوت کی گئی۔
پارٹی صدر شہباز شریف سے مشاورت کے لیے لندن پہنچنے والے رہنماؤں میں خواجہ آصف، احسن اقبال، سینیٹر پرویز رشید، رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق اور مریم اورنگ زیب شامل ہیں جبکہ مشاورت میں اسحٰق ڈار بھی شریک تھے۔
مسلم لیگ (ن) کا مشاورتی اجلاس ایجویئر روڈ میں ماروش گارڈن میں ہوا جس کے بعد تمام رہنما پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کے لیے ایون فیلڈ روانہ ہوگئے۔
مزید پڑھیں:مسلم لیگ (ن) کا وفد اہم سیاسی معاملات پر پارٹی قیادت سے مشاورت کیلئے لندن روانہ
خواجہ آصف نے میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹو:عاتکہ رحمٰن
خواجہ آصف نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘شہباز شریف کو حالیہ ہفتوں کے دوران سامنے آنے والے پارلیمانی معاملات سے آگاہ کیا گیا اور ان معاملات پر ان سے رہنمائی لی گئی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان واپسی پر ان معاملات میں پارٹی کی پالیسی وضع کریں گے، آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے تک کوئی بات نہیں کرسکتا’۔
نئے انتخابات کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا موقف ہے کہ اگر نئے انتخابات ہونے ہیں تو پہلا قدم ان ہاؤس تبدیلی ہو’۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے 190 ملین پاؤنڈز کی وصولی کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔
شہباز شریف کی گفتگو نواز شریف کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ‘نواز شریف جلد روبصحت ہوں گے اور ڈاکٹر اجازت دیں گے تو وطن لوٹیں گے، اس سے پہلے سیاسی ملاقات ہوئی جس میں پاکستان میں جاری معاملات پر گفتگو ہوئی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کے تعیناتی پر تبادلہ خیال کیا، بطور اپوزیشن لیڈر وزیراعظم کو خط لکھا، ان کا بھی خط آیا اور میں نے جواب دے دیا، انہوں نے 3 نام دیے ہیں اور ہم نے بھی تین نام دیے ہیں’۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ‘ہماری بھرپور اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کوشش ہوگی کہ ہم خلوص سے ان کے ساتھ گفتگو کریں اور جو سب سے اچھا امیدوار ہے اس کی تعیناتی کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں، اللہ کرے یہ مرحلہ عبور کریں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ماضی قریب میں عمران خان کے حوالے سے تجربات بہت مایوس کن ہیں لیکن امید رکھنی چاہیے اور ہماری پوری کوشش ہوگی’۔
'نواز شریف کی صحت پر تشویش ہے' احسن اقبال نے کہا کہ ‘یہاں آنے کا مقصد نواز شریف کی عیادت کرنا تھا اور حسین نواز نے صحت کے حوالے سے بریف کیا’۔
نواز شریف کی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اب بھی جو بات تشویش کی ہے وہ یہ ہے ان کے پلیٹلیٹس کم ہیں، ڈاکٹر ادویات کے ذریعے برابر کر رہے ہیں اور اس کی وجہ جاننے کے لیے کوششیں جاری ہیں، انہیں کلیئر قرار نہیں کیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف نے خاص طور پر قوم سے شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے، ملک بھر سے پیغامات ملتے ہیں اور مختلف سیاسی رہنماؤں نے پیغام بھیجیں ہیں جس کے لیے وہ ان کے شکرگزار ہیں’۔
اس سے قبل ہونے والے اجلاس میں زیر بحث آنے والے معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘آرمی چیف کے معاملے پر ہم نے محسوس کیا کہ یہ حکومت غیرسنجیدہ ہے، اس نے دانستہ طور پر ایک ایسا حساس معاملہ جس کو معمول کے مطابق حل ہونا چاہیے تھا لیکن الجھایا جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی’۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ‘یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکومت یا تو نااہل ہے یا پھر بددیانت ہے اور اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ بھی 3 سال پہلے پتہ تھا کہ 6 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہونا ہے لیکن ان کی تقرری کے لیے وزیراعظم نے وقت پر مشاورت کا عمل شروع نہیں کیا’۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اس معاملے کو اتنا لٹکایا کہ چند دن رہ گئے، پھر اپوزیشن لیڈر نے تنگ آکر خود خط لکھا نام بھیجے جس پر وزیراعظم ہاؤس بھی جاگا اور اپنے نام بھیجے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اتفاق کیا کہ دیگر جماعتوں سے مل کر ایسے ناموں پر اتفاق رائے پیدا کریں جس سے الیکشن کمیشن کی ساکھ بحال ہو اور آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے کی یقین دہانی حاصل کی جاسکے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج ہم نے معاشی صورت حال اور بجلی کے بل میں باربار اضافہ اور دیگر مہنگائی پر بھی غور کیا اور مذمت کی اور مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں پریس کلبوں کے باہر اور پارلیمنٹ کےاندر بھی احتجاج کرے گی’۔