نقطہ نظر

یہ ’طوائف‘ اور ’طوائف الملوکی‘ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

کٹّے کی مؤنث کٹّی ہے جو کام کی ہوتی ہے کہ بڑی ہوکر بھینس بن جاتی اور دودھ دیتی ہےمگر کٹّا صرف کاٹ کر کھانےکے کام آتا ہے

ایک باراں دیدہ سیاستدان نے گزشتہ دنوں مشورہ دیا ہے کہ ’نیا کٹّا‘ نہ کھولا جائے۔ یہ کٹّا کون ہے جو پہلے کبھی ہٹا، کٹا تھا؟ اس کی تفصیل میں جاکر ہم کوئی سیاسی کٹا نہیں کھولنا چاہتے، چنانچہ لفظ ’کٹا‘ کی بات کرتے ہیں۔

اردو میں استعمال ہونے والے جن الفاظ میں ’ٹ‘ آجائے تو سمجھ لیں کہ یہ ہندی سے درآمد کردہ ہیں لیکن اردو میں یہ کثیر المعنیٰ ہیں۔ مذکورہ سیاستدان نے کٹا کھولنے کی جو بات کی ہے تو پنجابی میں اس کا مطلب چھوٹی بوری یا تھیلہ ہے، جیسے آٹے کا کٹا۔ اس کو انگریزی اصطلاح کے مطابق ’پنڈورا باکس کھولنا‘ کہا جاسکتا ہے، جو آئے دن کھلتا رہتا ہے اور اس میں سے بلائیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔ بلا پر ایک شعر بلاوجہ یاد آگیا، تھوڑی سی ترمیم کے بعد

آسماں سے جو کوئی تازہ بلا آتی ہے

پوچھتی سب سے ’اسی‘ گھر کا پتا آتی ہے

یہ گھر کون سا ہے، ہمیں کیا معلوم۔ لیکن اسی گھر سے بلائیں تقسیم کی جاتی ہیں کیونکہ یہ بلندی پر ہے۔ پنجابی میں بھینس کے بچے کو کٹّا کہتے ہیں لیکن یہ اردو میں بھی عام ہے۔ پنجابی ہی کا ایک محاورہ ہے ’کٹّا چونا‘ یعنی کٹے سے دودھ حاصل کرنا، مراد ہے ناممکن کام۔ لوگوں کو خوشحال بنانے کے لیے کٹّوں کی تقسیم کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔

کٹّے کی مؤنث کٹّی ہے لیکن وہ کام کی ہوتی ہے کہ بڑی ہوکر بھینس بن جاتی اور دودھ دیتی ہے۔ مگر کٹّا صرف کاٹ کر کھانے کے کام آتا ہے۔ کچھ ممالک میں بھینسے کو بھی ہل میں جوت دیتے ہیں۔ بھارت میں گاڑی میں جوتا جاتا ہے جو جھوٹا بوگی کہلاتی ہے، ہم نے بھی اس میں سفر کیا ہے۔ اردو میں شاید موٹا جھوٹا کا اشارہ اسی طرف ہو جیسے ’ہٹا کٹا‘۔ موٹا جھوٹا عام طور پر ادنیٰ لباس یا غلے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے موٹا جھوٹا پہننا، یا موٹا جھوٹا کھانا۔

کٹّا ہندی میں بطور صفت نہایت مضبوط، پکّا کو کہتے ہیں جیسے ’کٹّا مسلمان‘۔ تاہم اردو میں اس کے لیے ’کٹّر‘ مستعمل ہے۔ اب کوئی ’کٹّا مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا، تاہم لغت میں موجود ہے۔ اس پر تشدید نہ ہو اور صرف کٹا ہو تو مطلب بدل جائے گا، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک لفظ ہے ’کٹا جانا‘ یعنی شرمندہ ہونا، خفیف ہونا۔ مثلاً ’شرم سے کٹا جاتا ہوں‘۔ اسی سے ایک اور لفظ ہے ’کٹا چھنی‘ یعنی لڑائی بھڑائی، مارپیٹ، دشمنی۔ حکومت اور اس کے مخالفین میں یہ کٹا چھنی عام ہے۔ کٹا چھنی مؤنث ہے لیکن اس کی ایک بہن بھی ہے یعنی ’کٹی چھنی‘۔ مطلب اس کا بھی یہی ہے: نوک جھونک جو عداوت سے ہو۔ سانس لینے کے لیے داغؔ کا شعر سن لیجیے

بے طرح ہے نگاہ سے دل کی کٹی چھنی

بے ڈھب ہے گرم معرکۂ کارزار آج

بھینس پالنے والے جانتے ہیں کہ گنڈاسے سے کٹا ہوا چارا بھی کٹی کہلاتا ہے، اور اگر اس میں کھل وغیرہ ملادی جائے تو سانی، کٹی کہلاتا ہے۔

بچے ایک دوسرے سے خفا ہوکر کُٹی بھی کرلیتے ہیں، بعض ’ک‘ پر پیش اور بعض زبر لگا کر۔ یہ شاید خفگی کی نوعیت پر منحصر ہو۔ لغت کے مطابق جو بچے دوستی ختم کرتے ہیں تو وہ دانتوں کو ناخن سے کھٹک کر کہتے ہیں کہ ’کٹی ہمیں قید، تمہیں چھٹی‘۔ لیکن اب ایسے بچے کہاں رہے جو ’مقفیٰ‘ کٹی کریں۔

سنڈے میگزین (یکم تا 7 دسمبر) میں ایک مضمون کی سرخی ہے ’نفرتوں کے عذاب سہہ کر‘۔ 2 ’ہ‘ لگانے سے تو تلفظ ’سہے‘ ہوجائے گا۔ مناسب تھا کہ صرف ’سہ‘ سے کام چلالیا جاتا۔ ایسے کئی الفاظ ہیں جن میں غیر ضروری طور پر ایک ’ہ‘ بڑھادی جاتی ہے مثلاً تہہ خانہ، تہہ خاک وغیرہ۔ زانوئے تلمذ تہ کیا جاتا ہے، تہہ نہیں۔

اسی شمارے میں بجائے خود ایک ادبی شخصیت جو ادبی پروگراموں کی رپورٹنگ کرتے ہیں، انہوں نے نعتیہ مشاعرے کی روداد میں لکھا ہے ’گفتگو کا لب و لباب‘۔ یقین ہے کہ انہیں لب اور لباب کا مطلب آتا ہوگا اور بیچ میں ’و‘ کمپوزر نے لگادیا ہوگا۔ ایسی غلطیوں پر مرزا غالب تو فرشتوں کا شکوہ کرتے تھے کہ ’پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق‘۔ تاہم اب مضمون نگار اپنی غلطیاں کاتب یا کمپوزر پر ڈال کر دامن بچالیتا ہے۔

معروف ادیب اور کالم نگار جناب حسین پراچہ نے ہماری ایک تحریر کے حوالے سے لاہور سے یاد کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ 30 برس سے لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’میں نے ایک بار لکھا ’القبہ الصخرہ‘، مگر کمپوزر نے اسے ’القحبہ الصخرہ‘ کردیا۔ قحبہ کا عربی میں جو مطلب ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں‘‘۔ عربی میں تو اس کا مطلب کھانسنے والی ہے اور مادہ اس کا قحب ہے۔

ہم نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ طوائفیں کھانس کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں، اس لیے قحبہ کا لفظ وجود میں آیا۔ خود طوائف کا مطلب گھومنے والی ہے جس کا پنجابی ترجمہ ’گشتی‘ بہت فصیح ہے۔ طوائف ہی سے طوائف الملوکی بنا ہے۔ حسین پراچہ صاحب برسوں سعودی عرب میں رہے ہیں، انہیں مطلب معلوم ہے۔ حسین پراچہ نے ہمارے کسی کالم کا حوالہ دیا ہے جس میں کالم نگار علی عمران جونیئر نے کسی کے حوالے سے ’ہر ممالک‘ لکھا ہے، اور پراچہ صاحب کا گمان ہے کہ علی عمران کا اشارہ غالباً اس طالب علم (پراچہ صاحب) کی طرف ہے، جبکہ ایسی فاش غلطی کا سرزد ہونا میرے قلم سے ممکن نہیں۔

ہوسکتا ہے حسین پراچہ صاحب نے عاریتاً کسی اور کا قلم لے لیا ہو۔ اب ہمیں یاد نہیں کہ اس کالم میں کیا لکھا تھا، لیکن اس کا ایک فائدہ تو ہوا کہ فقیر حسین پراچہ صاحب نے ایک پرتقصیر کو یاد کیا کہ دل کو کئی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں۔ ان کے قلم سے غلطیوں کا صدور نہیں ہوتا ہوگا، لیکن ہم خود غلطیاں کرجاتے ہیں اور عالم فاضل لوگ ان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

جہاں تک لُب اور لُباب کا معاملہ ہے تو اپنے قارئین کے لیے ایک بار پھر وضاحت کریں کہ یہ ’لب لباب‘ ہے، اور اس میں ’و‘ نہیں آتا جو ’اور‘ کے معنی دیتا ہے۔ لُب عربی کا لفظ ہے (بتشدید حرفِ آخر) مطلب ہے: ست، خلاصہ، مغز، اور لباب کا مطلب ہے: مغز یا ست، خالص، ہرچیز کا لب لباب یعنی ست کا ست۔آسان الفاظ میں ’عطر کا عطر‘۔

جناب شفق ہاشمی کئی زبانوں کے ماہر اور بہت شفیق انسان ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ ہمزا کے آخر میں الف نہیں بلکہ ’ہ‘ آتی ہے یعنی ’ہمزہ‘۔ ان کی بات درست ہے گوکہ ہمیں لغت دیکھ کر سہو ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک مشورہ یہ بھی دیا ہے کہ ’کڑاہی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر‘۔ یہ موسلی ہے، موسل نہیں۔

یہ تو چھوٹے بڑے کا فرق ہے تاہم ہمیں یاد آتا ہے کہ اصل محاورہ ’اوکھلی میں سر…‘ ہے، کڑاہی میں نہیں۔ کڑاہی کا محاورہ تو یہ ہے کہ ’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں‘۔

اوکھلی یا اوکھل ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: لکڑی یا پتھر کی گہری کونڈی جو زمین میں گڑی ہوتی ہے اور اس میں غلہ وغیرہ ڈال کر موسل سے کوٹتے ہیں۔ اوکھلی میں سر دینا کا مطلب ہے: خود ہی خطرے میں پڑنا۔ کچھ حکمران بھی اس کے عادی ہیں۔ یہ جو موسلادھار بارش ہوتی ہے اس میں بھی ’موسلا‘ کا مطلب موسل ہے یعنی بہت موٹی بوندیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


اطہر ہاشمی

اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔