پاکستان

تحریک انصاف کی حکومت نے سال 2019 میں کتنے قرضے لیے؟

عمران خان نے انتخابی مہمات میں کہا تھاکہ وہ عالمی اداروں سےقرض نہیں لیں گےلیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایسا نہ کرسکے۔

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی روایت پرانی نہیں اور تقریباً ملک پر حکمرانی کرنے والے سب ہی حکمرانوں نے معیشت کے استحکام کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کیا لیکن جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل انتخابی مہمات میں بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ 'ہم عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض نہیں لیں گے' تو اقتصادی ماہرین کے لیے وزیراعظم عمران خان کا بیان حیران کن تھا۔

گزشتہ سال 28 جولائی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خود کو نوجوانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت تصور کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ برس بیت گئے اور اس نے بھی معیشت کو مثبت سمت چلانے اور استحکام دینے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کیا اور اب تک آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کی پہلی قسط مل چکی ہے جبکہ دوسری قسط رواں برس کے اواخر میں متوقع ہے۔

تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا اور پارٹی کے سینئر رہنما اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا گیا بعد ازاں 8 اکتوبر 2018 کو اسد عمر نے تصدیق کی کہ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے، جس کے بعد اسٹاک مارکیٹ شدید بحران میں آئی اور ایک روز میں 1300 سے زائد پوائنٹس کی کمی سے 270 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ نومنتخب حکومت کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں شدید بحران کا یہ پہلا تجربہ تھا۔

دراصل اس سے قبل پاکستان آئی ایم ایف سے درجن سے زائد مالی تعاون کے پیکیجز لے چکا ہے اور اس کا 6 ارب 40 کروڑ روپے کا آخری پیکیج اگست 2016 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں مکمل ہوا تھا، جو آئی ایم ایف پر پاکستان کے کوٹے کا 216 فیصد تھا۔

آئی ایم ایف سے لیے گئے گزشتہ پروگرواموں کا مقصد ’افراط زر کو نیچے لانا اور ملک کے مالیاتی خسارے کو کم کرکے مستحکم سطح تک لانا تھا، اس کے علاوہ زیادہ اور بہتر ترقی کے حصول میں مدد کے لیے اقدامات کرنا تھا۔

اس وقت ملک کا مجموعی حکومتی قرضہ 31.8 ٹریلین روپے ہے جس میں سے 34.5 فیصد بیرونی قرضہ جبکہ 65.5 فیصد اندرونی قرضہ شامل ہے۔

آئی ایم ایف سے پاکستان کا تعلق

پاکستان 1950 سے آئی ایم ایف کا رکن ہے اور 2019 تک مختلف ادوار میں 22 مرتبہ قرضہ لے چکا ہے۔

آئی ایم ایف کے پاس قرض سے متعلق دو مرکزی پروگرامز ہیں پہلا جنرل ریسورس اکاؤنٹ (جی آر اے) اور دوسرا غربت میں کمی گروتھ ٹرسٹ (پی آر جی ٹی) جی آر اے غریب ممالک کے لیے جبکہ جی آر اے پروگرام متوسط طبقے کے ممالک کے لیے مختص ہے۔

جی آر اے پر مشتمل قرضہ اسٹینڈ بائے انتظام (ایس آر اے) کی بنیاد پر دیا جاتا ہے اور معاشی ماہرین اسے بیل آؤٹ پیکیج کہتے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اب تک 13 مرتبہ بیل آٓوٹ پیکج حاصل کرچکا ہے اور سب سے بڑا بیل آوٹ پیکج وزیراعظم عمران خان کے دور میں حاصل کیا گیا۔

اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی زبوحالی اور انتظامی امور کی بحالی کے لیے آئی ایف ایف سے مجموعی طور پر 22 مرتبہ قرضہ حاصل کرچکا ہے۔

پاکستان نے 30 جون 2019 تک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 5 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ ڈالر قرض لیا جس نے ملک کے بیرونی قرضوں کو 83 ارب 93 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچا دیا۔

تاہم مالی سال 19-2018 کے اختتام تک پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 106 ارب 31 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔

ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جون 2018 سے لے کر جون 2019 تک ملکی قرضہ 11 ارب 7 کروڑ 5 لاکھ ڈالر سے لے کر ایک سو 6 ارب 31 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کے حصول کے اعلان کے بعد اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو ان کے انتخابی مہات کے دوران کیے گئے وعدے یاد کرائے گئے اور حکومت کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا گیا لیکن آئی ایم ایف سے قرض کے حصول سے متعلق تحریک انصاف کی حکومت کے لیے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا آسان مرحلہ نہیں تھا۔

بہرحال اس دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے قرض کے حصول کا حتمی فیصلہ کیا اور مالیاتی ادارے سے قرض کے حصول کے لیے مذاکرات بھی شروع ہوگئے، سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کوشش کی کہ آئی ایم ایف کی شرائط زیادہ سے زیادہ نرم ہوسکیں اور پاکستان کی عوام پر مہنگائی کا پہاڑ نہ ٹوٹے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔

اسد عمر اور پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کی سربراہ ارنیستو رمیریز ریگو کے مابین متعدد اجلاس ہوئے لیکن قرض کی شرائط پر ہم آہنگی نہیں ہوسکی کیونکہ ستمبر 2018 میں آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط کی تجاویز دی گئی تھیں جس سے ملک میں مہنگائی 19 فیصد تک بڑھ سکتی تھی، اس کے علاوہ دوسرا بڑا مطالبہ 600 بنیادی پوائنٹس میں اضافے کے ساتھ شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھانے کا تھا۔

ایک جانب جہاں اسد عمر وزیر خزانہ کی حیثیت میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے تھے تو اسی دوران وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی کابینہ میں غیر معمولی تبدیلیاں کردی گئیں جس سے ملک میں حیرت کی لہر دوڑ گئی،

اس تبدیلی کے تحت ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ کا قلمدان تھما کر اسد عمر کی ساری ذمہ داریاں انہیں سونپ دی گئیں اور ڈاکٹر رضا باقر کو اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کردیا گیا۔

اپوزیشن نے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضا باقر کی بطور گورنر اسٹیٹ بینک تعیناتی پر شدید تنقید کی کیونکہ وہ مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں اور اس سے قبل رومانیہ میں آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ تھے لیکن حکومت نے اپوزیشن کی تنقید اور تحفظات کو یکسر نظرانداز کیا اور اپنے فیصلے پر قائم رہی۔

بعد ازاں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی قیادت میں پاکستانی وفد نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات کیے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری سے متعلق تفصیلات فراہم کیں، پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی مذاکرات کا مرحلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا اور بغیر کسی تاخیر کے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرلیا گیا۔

صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے اقرار کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی تمام شرائط پوری کرلی ہیں مگر کیا شرائط ہیں، یہ بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ 3 جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہے، جس میں پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دی جائے گی۔

رواں برس جولائی میں فنڈ پروگرام پر دستخط سے قبل پاکستان کی جانب سے کیے گئے تمام وعدوں پر عملدرآمد کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج میں سے 99 کروڑ 14 لاکھ ڈالر کی پہلی قسط فراہم کردی گئی تھی۔

اس ضمن میں معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ 'عمران خان اور ان کی ٹیم کی پاکستانی معیشت کے حوالے سے جو توقعات تھیں درحقیقت وہ اتنی درست نہیں تھیں، 'انہیں حکومت سنبھالنے کے بعد معلوم ہوا کہ حالات ان کی توقعات سے کہیں زیادہ خراب ہیں'۔

اس ضمن میں عالمی ماہر معاشیات جیفری فرینکس نے اپنے مضمون میں واضح کیا کہ آئی ایم ایف نے پروگرام کی تفیصلات اپنی مرضی سے مسلط کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم (ن) کے منشور کے معاشی حصے کو دیکھیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جن پالیسیوں پر اتفاق ہوا ان میں سے بیشتر وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم نے انتخابات سے قبل تجویز کی تھیں جیسے مالیاتی استحکام، ٹیکس اصلاحات، نوانائی کے بحران سے نمٹنے کے اقدامات، سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی تشکیل نو اور نجکاری، تجارتی پالیسی کی اصلاحات اور سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر بنانے کے اقدامات۔

جیفری فرینکس کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت اور آئی ایم ایف نے تین اہم ترین مسائل کی نشاندہی کی جو درج ذیل ہیں۔

  • مالیاتی خسارہ
  • بین الاقوامی ذخائر کی انتہائی پست سطح
  • نظام میں اصلاحات کی ضرورت

جیفری فرینکس نے پیشگوئی کی کہ پروگرام میں ان تینوں امور سے بہت فعال طور پر نمٹا گیا ہے، خسارہ تین سال میں جی ڈی پی کے 8 فیصد سے گھٹ کر ساڑھے تین فیصد تک آجائے گا، بین الاقوامی ذخائر پائیدار سطح تک لائے جائیں گے اور اس حوالے سے ساختی رکاوٹیں خاصی کم ہوجائیں گی۔

مذکورہ پروگرام سے متعلق قیاس آرائیاں جاری تھی مثلاً بعض حلقوں کے مطابق یہ غلطی تھی کہ پہلے معاشی استحکام پر توجہ دی جائے اور بعد میں نمو پر، بعض چاہتے تھے کہ ٹیکس کی شرح بڑھانے سے پہلے ٹیکس اکٹھا کرنے کا عمل بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تھی اسی طرح بعض حلقوں کا خیال تھا کہ پہلے توانائی کی فراہمی بڑھائی جاتی اور نرخوں میں اضافہ بعد میں کیا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں جیفری فرینکس نے دلائل پیش کیے کہ اگر پاکستان استحکام کی کوششوں کو ملتوی کرنا چاہتا ہے اور نمو کے محرکات پر توجہ دی جاتی ہے تو حکومت اس التوا کی قیمت کیسے ادا کرتی؟ اور ایسا کرنے (محرک) کے لیے یہ رقم کہاں سے آئی؟ امریکا کے برخلاف، جو بھاری خسارے بھی برداشت کرسکتا ہے کیونکہ دنیا یو ایس گورنمنٹ بانڈ خریدنے پر آمادہ ہے، پاکستان ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

مزید یہ کہ اگر اس محرک کے لیے یہ رقم مہیا بھی ہوجاتی تو یہ عارضی محرک کتنا موثر ثابت ہوتا جبکہ سرمایہ کاروں کو معلوم ہے کہ حکومت نے ابھی تک اصل عدم توازن کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہیں کیے؟

حکومت کا یہ فیصلہ دانشمندانہ تھا کہ کمزور پہلوؤں سے نمٹنے کے لیے جلد نتائج دینے والے اقدامات کو شروع میں شامل کیا جائے جبکہ طویل مدت کی متقاضی اصلاحات پر کام جاری ہو۔

رواں سال نومبر کے آغاز میں آئی ایم ایف کا وفد 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد پہنچا تھا۔

آئی ایم ایف کے پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد رواں برس دسمبر کے آغاز میں پاکستان کو 45 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز کی دوسری قسط جاری ہوئی، جس کے بعد قرضے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم ایک ارب 44 کروڑ ڈالر ہوگئی۔

آئی ایم ایف کے سینئر عہدیداران نے فنڈز سے وابستہ توقعات سے بالاتر ہو کر وعدوں کو پورا کرنے پر پاکستانی حکام کی تعریف کی۔

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے قبل سعودی عرب نے اکتوبر میں پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹس کے بحران سے نکالنے کے لیے 3 ارب ڈالر کے غیر ملکی کرنسی سپورٹ فراہم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور گزشتہ برس نومبر میں پہلی اور 14 دسمبر کو ریاض سے اسلام آباد کو ایک ارب ڈالر کا دوسرا بیل آؤٹ پیکج موصول ہوا۔

اس کے علاوہ ریاست نے اسلام آباد کو ایک سال کے لیے تیل کی درآمدات میں 3 ارب ڈالر تک کی تاخیری ادائیگی کی سہولت کا بھی اعلان کیا تھا۔

ایسے موقع پر جب پاکستانی معیشت کو مشکلات کا سامنا تھا اور ملک کو اپنے معاشی معاملات سنبھالنے کے لیے غیر ملکی کرنسی میں بیرونی امداد فوری اور اشد ضرورت تھی تو ایسے وقت میں سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کو نا صرف مالی بلکہ اخلاقی مدد بھی فراہم کی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کی اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر ریاض اسلام آباد کو مالی، سفارتی اور اخلاقی مدد فراہم کرتا رہا ہے جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان بہترین تعلقات کے باعث ہے.

27 نومبر 2019 کو پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان ترقیاتی منصوبوں کے لیے 78 کروڑ 70 لاکھ ڈالر قرض کے 5 معاہدوں پر دستخط ہوئے جس میں کراچی کے لیے 3 ترقیاتی منصوبے بھی شامل ہیں۔

اقتصادی امور ڈویژن کے سیکریٹری نور احمد اور اسلام آباد میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر پیچوموتو الینگوو نے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

عالمی بینک، کراچی میں شہری نقل و حرکت، شہری انتظام اور خدمات کی فراہمی، پانی اور سیوریج سروسز کی بہتری، سیاحت اور توانائی کے شعبے سے متعلق 3 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 65 کروڑ 20 لاکھ ڈالر فراہم کرے گا۔

17 نومبر (2019) کو ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) نے کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ ریڈ لائن منصوبے کے لیے 7 کروڑ 18 لاکھ 10 ہزار ڈالر قرض کی منظوری دی۔

کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ ریڈ لائن منصوبے سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر اور مستحکم نظام فراہم کیا جائے گا۔

منصوبے میں 24.2 کلومیٹر ریڈلائن کا مرکزی کوریڈور، شہر کے وسط میں تمام بس ریپڈ ٹرانزٹ سے ضم ہوتا ہوا 2.4 کلومیٹر طویل کامن کوریڈور اور اس کوریڈور کو دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے آف کوریڈور ڈائریکٹ اور فیڈر سروسز شامل ہیں۔

علاوہ ازیں اس میں بی آر ٹی آپریشنز کا قیام اور کمپریسڈ نیچرل گیس-ہائبرڈ فلیٹ اور سسٹمز کی خریداری بھی شامل ہے۔

صوبہ سندھ میں فنانسنگ پلان کے مطابق منصوبے پر 50 کروڑ 33 لاکھ 30 ہزار ڈالر لاگت آئے گی جس میں سے ایشین ڈیولپمنٹ بینک 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ادا کرے گا، فرنچ ڈیولمپنٹ ایجنسی 7 کروڑ 18 لاکھ 11 ہزار ڈالر، گرین کلائیمٹ فنڈ ایک کروڑ 18 لاکھ ڈالر کی گرانٹ کے ساتھ 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور سندھ حکومت 7 کروڑ 57 لاکھ 11 ہزار ڈالر فراہم کرے گی۔

5 جولائی 2019 کو ایشین ڈیولپمنٹ بینک یا ایشیائی ترقیاتی بینک (اے بی ڈی) نے کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے لیے 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر قرض کی منظوری دی۔

کراچی کا بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبہ شہر کو 26.6 کلومیٹر طویل بی آر ٹی لائن ریڈ لائن اور اس سے منسلک سہولیات فراہم کرے گا جس سے 15 لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا تھا کہ ریڈ لائن بی آر ٹی کے روٹس پر روزانہ 3 لاکھ افراد سفر کریں گے۔

اے ڈی بی نے وفاقی حکومت کے سماجی تحفظ کے پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے اضافی 20 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی۔

اس حوالے سے جاری پریس ریلیز میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا تھا کہ اے ڈی بی کی جانب سے اکتوبر 2013 میں منظور کیے گئے سماجی تحفظ کے ترقیاتی منصوبے کے باعث بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 8 لاکھ 55 ہزار خواتین کا اندراج ہوا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ منصوبے کے لیے اضافی قرض کے ذریعے رقوم کی نقد منتقلی میں تعاون اور اس کے ساتھ بی آئی ایس پی کے ادارے کو مضبوط بنانے سے متعلق اقدامات میں مدد جاری رہے گی۔

6 جنوری 2019 کو ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے درمیان صوبے میں آب پاشی اور پانی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومت کو 10 کروڑ 70 لاکھ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا تاہم اس کی ادائیگی کی تاحال کوئی تفصٰلات سامنے نہیں آئیں۔

7 دسمبر 2019 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں اقرار کیا گیا کہ مالی سال 20-2019 کے پہلے 4 ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے قرض میں 410 ارب روپے تک کا اضافہ ہوا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے ایک ہزار 627 ارب روپے سے 74.8 فیصد کم ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے آخر تک مرکزی حکومت کا قرضوں کا اسٹاک 321 کھرب 97 ارب روپے تھا جو رواں سال جون میں 317 کھرب 87 ارب روپے پر موجود تھا۔

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق اب اتنے بےتحاشہ قرضے اتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جسے معاشی اصطلاح میں 'ڈیٹ ٹریپ' یا قرضوں کی دلدل میں دھنس جانا کہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں پرانا قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لیے جاتے ہیں۔