پاکستان

العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی سزا کالعدم کرنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2رکنی بینچ 18 دسمبر کو سماعت کرے گا۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل 18 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہوگئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنسز میں سابق وزیر اعظم کو 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف پر العزیزیہ ریفرنس میں ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر (تقریباً ساڑھے 3 ارب پاکستانی روپے) یعنی لگ بھگ 5 ارب روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل

اس ضمن میں تازہ پیش رفت کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کردی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2رکنی بینچ 18 دسمبر کو 4 متفرق درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب کی جانب سے نواز شریف کی سزا بڑھانے کی اپیل بھی 18 دسمبر کو سماعت کے لیے منظور ہوئی۔

اس کے علاوہ جج ویڈیو کیس کے مرکزی کردار ناصر بٹ نے بھی نواز شریف کی اپیل میں فریق بننے کی درخواست دائر کررکھی تھی اور مذکورہ درخواست پر بھی سماعت 18 دسمبر کو ہوگی۔

مزیدپڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور کرلی

تاہم نواز شریف کی مرکزی اپیل سے قبل جج ویڈیو کیس کے تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت شروع کیے جانے کا امکان ہے۔

نواز شریف نے متفرق درخواست میں ویڈیو کا فرانزک کرنے والے برطانوی ماہر سمیت 5افراد کو عدالتی گواہ بنانے کی استدعا کی ہے۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔

جج ویڈیو لیک کا معاملہ

یاد رہے کہ 6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

مزیدپڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: رہا ہونے والے ملزمان کے خلاف مقدمے کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

جس کے بعد 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

مزیدپڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔

العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت

یاد رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد ان کی طبی بنیادوں پر ضمانت اور رہائی کے لیے اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ سے الگ الگ کیسز میں رجوع کیا گیا تھا، جہاں لاہور کی عدالت عالیہ نے چوہدری شوگر ملز میں ان کی ضمانت منظور کی تھی۔

اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ہسپتال سے گھر منتقل

بعدازاں 5 نومبر کو صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی تاہم وہ 6 نومبر کو اپنی رہائش گاہ جاتی امرا روانہ ہوئے جہاں انہیں گھر میں قیام آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔

صحت کے حوالے سے ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا تھا کہ نواز شریف کی طبیعت میں بہتری ہے تاہم پلیٹلیٹس میں بار بار کمی کے دیگر اسباب جاننے کے لیے جینٹیک ٹیسٹ ضروری ہیں جو پاکستان میں ممکن نہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک سفر کرسکتے ہیں۔

نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ

عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد سابق وزیراعظم کا نام سفری پابندی کی فہرست ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ درپیش تھا جس کے لیے شہباز شریف نے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جس نے نیب کی رضامندی طلب کی تھی۔

نیب نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے میڈیکل رپورٹ طلب کی تھی تاکہ نواز شریف کی صحت سے متعلق انہیں بیرون جانے کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کیا جاسکے۔

انتظامی تاخیر کے سبب حکومت نے ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جس کے باعث بیرونِ ملک روانگی کے تمام تر انتظامات ہونے کے باوجود نواز شریف 10 نومبر کو لندن روانہ نہیں ہوسکے تھے۔

بعدازاں 11 نومبر کو وزارت داخلہ کے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی اور اسی دن نوٹس جاری کیا گیا، 12 تاریخ کو کابینہ کو بریفنگ دی اور انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔

بیرون ملک روانگی کی مشروط اجازت

جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈز جمع کروانے تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

بیرونِ ملک روانگی کے حوالے سے جاری رہنے والی کشمکش کی صورتحال کے پیشِ نظر صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نےشہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

مزید عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔

نواز شریف کی بیرون روانگی

19 نومبر کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچ گئے۔

بعدازاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'چاہتے ہیں کہ والد صاحب کا بہترین علاج ہو، جبکہ ڈاکٹرز کی مشاورت کے بعد امریکا جانے کا بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'سیاست پر کوئی بات نہیں کرنی، اس وقت سب سے ضروری نواز شریف کی صحت ہے۔'