سن لیجیے، بلوچ غیر مہذب نہیں، علم و دانش کا مرکز ہیں


یہ کچھ عرصے پہلے کی بات ہے جب معلوم ہوا کہ پنجاب کی نصابی کتب میں بلوچ قوم کو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’یہ غیر مہذب لوگ ہیں جو قتل اور لوٹ مار کرتے تھے‘۔
کتابوں میں موجود یہ مجرمانہ نقص 3 سال پہلے اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کو اس کا علم ہوا اور انہوں نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اس معاملے کو بھرپور انداز میں اٹھایا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اب تک کتب میں شامل اس بیمار اور متعصب ذہنیت کی پیدا کردہ تشریح کو درست کیا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ نصابی کتب کے لکھاری یہ ذکرِ خیر کرنا بھول ہی گئے کہ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل اس چھوٹی سی آبادی نے کم شرح خواندگی کے باوجود کس قدر ممتاز دانشوروں کو جنم دیا۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچ سیاسی و سماجی کارکنان کو شکوہ رہتا ہے کہ ان کی ثقافتی شناخت اور زبان کو مسخ شدہ تشریحات سے جوڑا جارہا ہے اور ان کے دانشوروں کو مارا جا رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو یہ ان بربریت پھیلانے والوں پر حملہ آور ہونے کا طریقہ رہا ہے جو علم سے ڈرتے اور اسے تباہ کرنے کا قصد کرتے تھے۔
میں نے اس سے پہلے کبھی یہ لفظ نہیں سنا تھا لیکن جب میں لائبریری پہنچی اور وہاں موجود خزانے کو دیکھا تب مجھے احساس ہوا کہ اس زبان کے پاس جتنا علم ہے وہ اسے بیان کرنے کے لیے ایسی اصطلاح کے استعمال کے تمام تقاضوں پر پورا اترتی ہے۔
مجھے ڈاکٹر بمری سے پتا چلا کہ اس لائبریری میں بلوچستان کے موضوع پر بلوچی زبان اور دیگر زبانوں میں لکھی جانے والی 25 ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ 1951ء سے لے کر اب تک پورے ملک میں بلوچی زبان میں شائع ہونے والے تمام جریدوں کو یہاں جمع کیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ان جریدوں کی تعداد 30 تھی مگر اس وقت صرف ایک ہی جریدہ نکلتا ہے۔
خود یہ کتب خانہ مشقتِ محبت کی مثال ہے۔ بلوچی زبان سے محبت کی مثال ہے۔ معروف شاعر صبا دشتیاری نے 2003ء میں اس لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے ناصرف اپنی کتابوں کی کلیکشن عطیہ کی بلکہ بلوچستان یونیورسٹی میں بطور پروفیسر ملازمت کے دوران ملنے والی تنخواہ کا نصف حصہ بھی اس سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری کو عطیہ کرتے رہے، لیکن پھر 2011ء میں ان کے قتل کے ساتھ ہی یہ سلسلہ تھم گیا۔
مجھے یہ جان کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ اس شہر میں چند دیگر بلوچ کتب خانے بھی موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک صدیق ولیج میں واقع امام بخش بلوچ میموریل لائبریری دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا جہاں لائبریری انچارج اکبر ولی آرٹس اینڈ تھیٹر گروپ کے ساتھ ساتھ ایک فٹ بال ٹیم کو بھی تربیت فراہم کرتے ہیں۔
اس قسم کے ادارے علم و دانش اور ثقافتی سرگرمیوں کا اکثر مرکز بن جاتے ہیں۔ اس سب کے علاوہ ولی علاقے کے بچوں کے لیے کلاسز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔