اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟


خاموشی کو شاید ہی پہلے اتنا زیادہ شور مچاتے دیکھا ہے۔
ایک ایسی حکومت جس نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے پورے زور و شور سے یہ وعدے کیے تھے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گی، اس کی ایک ایسے وقت میں خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، جب لندن میں اتنی بڑی مچھلی پکڑی جاچکی ہو، اور ضبط شدہ رقم کو ’ریاستِ پاکستان‘ کے حوالے کرنے سے متعلق برطانوی حکام نے وعدہ بھی کرلیا ہو۔
اس پورے معاملے سے متعلق زیادہ حقائق ابھی منظرِ عام پر نہیں آسکے ہیں لیکن ہم یہ سب ضرور جانتے ہیں کہ رواں سال اگست میں نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ اسے ’ایسے 8 بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں جن میں 10 کروڑ پاؤنڈز سے زائد رقم جمع ہے، شک ہے کہ یہ رقم سمندر پار ملکوں میں رشوت اور کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘۔
اگرچہ پریس ریلیز میں کسی کا بھی نام درج نہیں ہے مگر اس میں اتنا ضرور لکھا تھا کہ ’احکامات کے مطابق این سی اے ان رقوم کے حوالے سے مزید تحقیقات کرنے کی مجاز ہوگی۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں بدعنوانیوں سے حاصل شدہ رقم یہاں جمع کروائی گئی ہے یا پھر بدعنوانیوں میں استعمال کے ارادے سے محفوظ کی گئی ہے تو این سی اے ان پیسوں کو ری کور کرنے کی کوشش کرے گی‘۔
اس کے محض چند دن پہلے ہی ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ’وہ متعلقہ شخص‘ درحقیقت ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ ہے۔ این سی اے کی پریس ریلیز میں یہ بتایا گیا ہے کہ این سی اے کی جانب سے ’ملک ریاض حسین کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں‘ تصفیہ ہوا اور پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ پہلے سے منجمد 9 اکاؤنٹس کے علاوہ لندن کے علاقے ہائیڈ پارک ون میں واقع فلیٹ کو بھی ضبط کرلیا گیا ہے۔ حکام نے اس فلیٹ کی قیمت 5 کروڑ پاؤنڈ بتائی۔
جیسے ہی یہ خبر منظرِ عام پر آئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کی جانب سے داد و تعریف کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ہمارے رہنما کے وعدے کی تکمیل کا آغاز ہوا چاہتا ہے تاہم حکومتی حلقے میں ایک عجیب سی بے اطمینانی محسوس کی گئی۔
حکومت کے وہ نمائندگان جو بے باکی کے ساتھ ٹی وی پر آکر اپنی کامیابیوں کے راگ الاپنے کا حد سے زیادہ شوق رکھتے ہیں، نہ جانے کیوں اتنے شرمیلے ہوگئے ہیں۔ کئی اینکروں نے بھی اپنے شوز میں اس موضوع کو زیادہ چھیڑنا پسند نہیں کیا۔ لیکن ہاں، میں نے ایسی شخصیات بھی ضرور دیکھیں جو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھیں۔
انہی شخصیات میں سے ایک کے شو میں حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان بطورِ مہمان شریک تھیں۔ اینکر نے جب ان سے پوچھا کہ حکومت اس معاملے پر اتنی خاموش کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ وزیرِاعظم کے اپنے ایسیٹ ری کوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر، کل (یعنی بدھ کے روز) پریس کانفرنس کریں گے اور اس معاملے کے حوالے سے تمام تفصیلات سے بھی آگاہ کریں گے۔ اس کے ساتھ وہ بتائیں گے کہ اس میں حکومت کا کردار کیا تھا اور یہ کہ ’ہماری وہ کون سی مجبوریاں ہیں جو اس معاملے سے جڑی ہوئی ہیں‘۔
ملک ریاض نے عجیب و غریب تحریر والی اس دستاویز کی تصویر شیئر کی تھی جس پر ’نوٹ ٹو ایڈیٹرز‘ کی سرخی پڑھی جاسکتی ہے۔ اس میں شامل چند جملوں کو 2 گھنٹے بعد شہزاد اکبر کی پریس ریلیز میں بھی پایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ شہزاد اکبر کی پریس ریلیز میں ملک ریاض کو بے گناہ ثابت کرنے سے متعلق جملہ 2 بار شامل کیا گیا ہے۔ اب یا تو یہ جلد بازی کا کیا دھرا ہے یا پھر اس نکتے پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے
دونوں ہی حالات میں اس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ شہزاد اکبر کی پریس ریلیز کی تیاری میں ملک ریاض کا عمل دخل شامل رہا ہے اور تیزی سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کے پیش نظر انہوں نے جلد بازی میں پریس ریلیز کا ابتدائی ڈرافٹ ہی ٹوئیٹ کردیا۔
شہزاد اکبر کے لیے پریس کانفرنس کرنے کا یہی اچھا وقت رہے گا۔ حالیہ مہینوں میں لندن میں ان کی ملک ریاض کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا آخر معاملہ کیا ہے؟ حکومت کیوں اس پیش رفت کا سہرا اپنے سر سجانے میں اتنی سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے، حالانکہ جج صاحبان کی جائیدادوں پر نظر رکھنے کے عمل کو فوراً اپنا کارنامہ بتا دیتی ہے، جس کا اندازہ یکم جون 2019ء کو جاری ہونے والی اے آر یو کی پریس ریلیز سے لگایا جاسکتا ہے؟
شہزاد اکبر کو ملک ریاض کے اس بیان کی وضاحت کرنی ہوگی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ضبط شدہ رقم سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں واجبات کی مد میں دیے جائیں گے۔
خاموشی ہی جُرم کو پنپنے دیتی ہے۔ اکبر صاحب کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ حکومتی وعدے کے مطابق جلد ہی پریس کانفرنس بُلائیں۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com