نقطہ نظر

کوئی ہے جو ان ’4 پیر‘ والے گدھوں کو بچائے؟

چینیوں نے امریکا کی بھی نیند اڑادی ہے لیکن خود بھی نہیں سو پارہے اور اس سے نمٹنے کے لیے گدھے کی کھال کا سہارا لے رہے ہیں

ہم شیروں، گینڈوں اور ہاتھیوں کی معدومیت کے خطرے ہی پر افسردہ خاطر تھے کہ اب پتا چلا ہے گدھے بھی دنیا سے ختم ہونے کو ہیں، یعنی وہ گدھے جن کے 4 پیر اور ایک دُم ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بس 5 سال کے اندر سارے جہاں کے نصف گدھے ناپید ہوجائیں گے، جس کی وجہ چین میں بنائی جانے والی دوا ’ایجیاﺅ‘ ہے۔

یہ دوا گدھے کی کھال سے بنتی ہے، جو سردی لگنے سے بے خوابی تک کئی مسائل کا حل ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ دوا عمر میں اضافہ کرتی ہے۔ چین میں اس دوا کا استعمال اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے بنانے کے لیے دُور دراز ملکوں سے بھی گدھے کی کھال برآمد کی جارہی ہے۔

’ایجیاو‘ کی اسی حساب سے تیاری ہوتی رہی تو اندیشہ ہے کہ اگر 5 برس میں گدھوں کی نصف آبادی ختم ہوتی ہے تو اس سے اگلے 5 برسوں میں باقی کے گدھے بھی دنیا سے منہ موڑ جائیں گے۔ پھر دنیا میں گدھوں کی 2 ہی اقسام کا تذکرہ ہوا کرے گا، معدوم گدھے اور معلوم گدھے۔

اب تک تو یہ گدھے سواری اور باربرداری ہی کے کام آیا کرتے تھے، مگر یہ تو کسی کو بھی خبر نہ تھی کہ اس کی کھال میں سردی کے مداوے سے نیند کے لانے تک کتنے ہی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ حیرت ہے کہ جس گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں سے نیند کوسوں دُور چلی جاتی ہے، اسی کی کھال سُلانے کا باعث بنتی ہے، گویا خَر سےخراٹے لانے کی دوا بن رہی ہے۔ واہ بھئی واہ، مان گئے چینیوں کو، گدھوں کا استعمال کوئی ان سے سیکھے۔

چین میں گدھے کی کھال سے بنائی جانے والی دوا کی بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت اس دوا کے وظائف کی وجہ سے ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چینیوں کو سردی بہت لگتی ہے، نیند کم آتی ہے اور وہ طویل عمر کے خواہش مند ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ دوا صرف عام خنکی ہی کا علاج کرتی ہے یا خوف سے ٹھنڈے پڑ جانے والے جسموں کے لیے بھی تیر بہ ہدف نسخہ ہے، ہمارے خیال میں یہ صرف سردیوں ہی کی سردی کا مسئلہ حل کرتی ہے، ورنہ اس پر پابندی لگ چکی ہوتی۔

جہاں تک بے خوابی کا معاملہ ہے تو ایک زمانے میں چینی ایسے گراں خواب تھے کہ بیرونی قوتیں باآسانی سوتے ہوئے چینیوں کی کھال اتار لیتی تھیں۔ پھر ہوا یوں کہ ’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘، سنبھلنے کے بعد انہوں نے ماؤ زے تنگ کی قیادت میں تاریخی لانگ مارچ کیا۔ لانگ مارچ ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ان کا نتیجہ ’جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا‘ کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

بہرحال، اب حال یہ ہے کہ چینیوں نے امریکا کی بھی نیند اُڑا دی ہے، لیکن خود بھی نہیں سو پارہے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے گدھے کی کھال کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

سردی سے بچنے اور نیند کی خواہش تو سمجھ میں آتی ہے، مگر حیرت اس بات پر ہے کہ چینی لمبی عمر کیوں چاہتے ہیں؟ اسی طرح کا سوال ہمارے ایک مجسمہ شرافت و نجابت دوست سے ڈاکٹر نے کیا تھا۔ ان دوست کو کسی بیماری کے باعث جب ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تو ہمارے دوست نے جاننا چاہا کہ آپریشن سے ان کی جان کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

اس استفسار پر ڈاکٹر نے پوچھا ’سگریٹ پیتے ہو؟‘، جواب ملا ’نہیں‘، ’کوئی اور نشہ؟‘، ’نہیں‘، ’کوئی تعلق؟‘، ’نہیں‘، ’کچھ کھیلتے ہو، جیسے تاش؟‘، ’نہیں‘۔ ان تمام جوابات کو سننے کے بعد ڈاکٹر نے ہمارے دوست کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے پوچھا، ’تو بھئی جینا کیوں چاہتے ہو؟‘

ہمیں بھی چینیوں پر ایسی ہی حیرت ہے کہ اتنی پابندیوں میں جینے والے آخر مزید جینا کیوں چاہتے ہیں۔ چلو چاہتے ہیں تو چاہتے رہیں، مگر اپنے جینے کے لیے بے چارے گدھوں کا جینا کیوں حرام کردیا ہے؟

ہم سوچ رہے ہیں کہ گدھوں پر یہ سب بیتنے پر جب ہم اتنے پریشان ہیں تو گدھے کتنا پریشان ہوں گے؟ اب تک تو یہ گائیں، بکروں اور مرغیوں کا انجام دیکھ کر اپنے گدھے ہونے کی خیر مناتے تھے، لیکن اب سوچتے ہوں گے کہ ہم واقعی کتنے گدھے تھے کہ یہ نہ سوچا جب انسان سے انسان نہیں بچ پاتا تو ہم کیسے بچیں گے؟

چونکہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے اور حکم ہے کہ ’میڈیا مثبت تصویر دکھائے‘، اس لیے ہم حکم کی تعمیل کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ گدھا اتنا گدھا بھی نہیں ہوتا کہ آنکھوں کے سامنے سارے مناظر منفی ہوں اور وہ مثبت تصویر پر یقین کرلے، مگر اپنی سی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟

ہم گدھوں سے کہیں گے ’گھبرانا نہیں ہے‘، یقین مانو گدھو! کم از کم ہم تمہیں یہ گدھا سمجھ کر نہیں کہہ رہے۔ یہ تو دیکھو کہ کھال کی وجہ سے تمہاری اہمیت کتنی بڑھ گئی ہے۔ اب یہ مت کہنا کہ ’اس اعتبار سے تو ہر پاکستانی بہت اہم ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہماری کھال سے صرف ’ایجیاﺅ‘ بنتی ہے، اور پاکستانیوں کی کھال دیے جاﺅ دیے جاﺅ کہہ کر کھینچ لی جاتی ہے‘۔ ایسی باتیں کرو گے تو ہم تمہیں دولتی مار دیں گے۔ تمہیں تو فخر ہونا چاہیے کہ تم چینیوں کے درد کی دوا بن گئے ہو، ورنہ کل تک کہتے تھے:

دنیا ہمہ تن درد ہے، ہونے دو ہمیں کیا

ایسا بھی کوئی درد ہے ہم جس کی دوا ہیں

اب کہیں جواباً یہ شعر نہ سنا دینا،

’چین‘ سے کس کو رستگاری ہے

آج ہم کل تمہاری باری ہے

ویسے ہمیں یقین ہے کہ چینی تمہیں ناپید نہیں ہونے دیں گے، تم کوئی ایغور تھوڑی ہو، وہ غور کرکے تمہارے تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ ممکن ہے دنیا بھر سے گدھے جمع کرکے چین لے آئیں، جہاں تم بچے پر بچہ پیدا کرکے 'ون چائلڈ' پالیسی پر کڑھتے چینیوں کے دل جلاتے رہو۔

اس امکان کے باوجود اگر تم چینیوں سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ چین جاﺅ اور اپنی اپنی کھال اتار کر پیش کردو۔ بچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر اعلان کردو کہ ہم گدھے نہیں خرگوش ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہہ دینا 'جب باقی گدھے اپنے گدھے ہونے کا اعتراف نہیں کرتے اور کوئی ان کے گدھا ہونے پر اصرار نہیں کرتا تو پھر ہم سے یہ تقاضا کیوں؟'

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔