الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری،حکومت کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کے معاملے کے حل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے چیمبر میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، شبلی فراز، وزیر دفاع پرویز خٹک اور لیگی رہنما ایاز صادق نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کر کے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملے کے حل کے لیے 10 روز کی مہلت کی درخواست کی جائے گی۔
اجلاس کے میڈیا سے گفتگو میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے معاملے پر مشاورت ہوئی، ارکان کی تقرری کا معاملہ حل ہونے کے بعد آرمی چیف کی توسیح سے متعلق فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیح سے متعلق قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے ہوئے ہیں، قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں سمیت سب ساتھ ہوں گے۔
ایاز صادق کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن جماعتیں مشاورت کریں گی جبکہ معاملہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں بھی جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن ممبران کے تقرر کا معاملہ ایک ہفتے کیلئے مؤخر
خیال رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی میں اس حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا جبکہ وفاقی وزرا نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ اراکین کی تقرری پر اتفاق ہوا ہے لیکن آج ہونے والے اجلاس میں اتفاق نہیں ہوا جس کے بعد معاملے کو ایک ہفتے کے لیے مؤخر کردیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر و ممبران کے تقرر کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی کی صدارت انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے کی جس میں اپوزیشن جماعت کے راجا پرویز اشرف اور احسن اقبال سمیت دیگر بھی شامل تھے۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے بچانے کے لیے عدالت سے ایک سے دو ہفتوں کی توسیع مانگی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سمیت متحدہ اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر اور سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری کے معاملے پر حکومتی کمیٹی سے عدم اتفاق کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
متحدہ اپوزیشن نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ یہ معاملہ عوامی مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے علاوہ آئینی معاملات بھی جڑے ہوئے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘5 دسمبر 2019 کو چیف الیکشن کمشنر کی معیاد ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر فعال ہوجائے گا جس کے باعث ملک کا پورا انتخابی نظام رک جائے گا’۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے الیکشن کمیشن اراکین کے لیے 3،3 نام تجویز کردیئے
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ‘اراکین اور الیکشن کمشنر کی تقرری پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئین کا آرٹیکل 213 خاموش ہے جو ملک میں آئینی بحران کا باعث ہوگا’۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘اراکین و چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے پر اتفاق رائے یا مسئلے کے حل کے لیے آئینی ترمیم میں ناکامی پر واحد حل معزز عدالت سے رجوع تھا’۔
یاد رہے کہ الیکشن کیمشن آف پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے اراکین جنوری میں ریٹائر ہوئے تھے اور آئین کے مطابق ان عہدوں پر 45 دن میں اراکین کا تقرر ہونا تھا لیکن اپوزیشن اور حکومت کے اختلافات کے باعث یہ نہ ہوسکا، اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی مدت 5 دسمبر کو ختم ہوجائے گی۔