دنیا کے بہترین کرکٹ میوزیم میں سے ایک پاکستان میں!
محفوظ شو کیس میں خالص چاندی کی ٹرافی کے برابر میں سونے کے پانی سے آراستہ گلاب کی طرز پر بنا چمکتا ہوا نہرو کپ رکھا ہوا ہے، اور ان دونوں کی آمد تاریخ ساز لمحات کے ساتھ ہوئی تھی۔
بھارت کو بھارت کی سرزمین پر چت کرنے کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے اور یہ ٹرافیاں انہی خوابوں کی مجسم تعبیریں ہیں۔
1989ء میں جواہر لال نہرو کی 100ویں سالگرہ کے موقعے پر نہرو کپ کا انعقاد کیا گیا تھا، اور پاکستانی ٹیم نے کلکتہ میں کھیلے جانے والے اس کپ کے فائنل میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر یہ اعزاز اپنے نام کیا اور فاتحانہ جشن کے ساتھ نہرو کپ کو پاکستان لایا گیا۔
نہرو کے لیے مشہور تھا کہ وہ اپنے کوٹ پر گلاب لگایا کرتے تھے شاید اسی لیے نہرو کپ کو گلاب کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔
دوسری ٹرافی اس وقت کی ہے جب 2007ء میں انڈین ٹیسٹ کرکٹ کو 75 برس مکمل ہونے کی خوشی منانے کے لیے بھارت نے پاکستان کو اپنے وطن آنے کی دعوت دی۔
اس سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان ٹرافیوں کو بھارتی فتح کی توقعات کی بنا پر ہی قوم پرستانہ جذبات سے سرشار ہوکر ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ آج یہ دونوں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کے کرکٹ میوزیم میں سجی ہوئی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ہیڈکوارٹر قذافی اسٹیڈیم کے وسیع و عریض میدان سے ملحق اس اکلوتے کمرے پر مشتمل میوزیم میں ٹرافیوں کا خزانہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ محققین کے لیے قابلِ رساں مشہور لائبریری بھی ہے جہاں وزڈن کے تمام شمارے دستیاب ہیں، (جسے عرفِ عام میں بائبل آف کرکٹ کہا جاتا ہے)۔
میوزیم کا اصل مقامِ فخر وہ مقام ہے جہاں آسٹریلوی واٹرفورڈ کرسٹل ورلڈ کپ ٹرافی سجی ہوئی ہے، جسے 1992ء میں عمران خان اور ان کی ٹیم وطن لائی تھی۔
میوزیم کا رخ کرنے والوں میں سے شاذ و نادر کو ہی اس ٹرافی کو چھونے کا اعزاز نصیب ہوتا ہوگا کیونکہ یہاں موجود یحییٰ غزنوی اکثر اوقات خود اس ٹرافی کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ یحییٰ غزنوی کون ہیں تو جناب یحییٰ غزنوی 2013ء سے پی سی بی اور نشینل کرکٹ اکیڈمی (این سی اے) کے ساتھ بطور جنرل منیجر آرکائیوز اینڈ گیم ایجوکیشن سے منسلک ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے اس ٹرافی کو بنانے والی کمپنی، جو اب آئرلینڈ منتقل ہوچکی ہے، سے اس کی نقل منگوانے کی کوششوں کی وجوہات بتاتے ہیں۔ دراصل یحییٰ غزنوی کو یہ فکر لاحق ہے کہ جس طرح 1966ء میں فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کو ویسٹ منسٹر کے میتھوڈسٹ سینٹرل ہال سے چُرا لیا گیا تھا کہیں ویسا ہی واقعہ یہاں رونما نہ ہوجائے۔