پہاڑی عورتیں، بدلتے موسم اور نئے راستے!
یہاں کی خواتین کانوں کو ہاتھ لگاتےہوئے کہتی ہیں کہ ’توبہ توبہ، یہ دودھ دہی کون بیچےگا؟ بےبرکتی ہوتی ہے، اللہ ناراض ہوگا‘
’ہمارے باپ دادا مویشی پالتے تھے، صدیوں سے یہی ہمارا پیشہ تھا۔ دودھ، گھی اور جانور ہمارے لیے کیش کا ذریعہ تھے مگر اب سب بدل گیا ہے۔‘
سدپارہ گاؤں کی روزی بی نے بتایا کہ ’اب ہم زیادہ مویشی نہیں رکھ سکتے کیونکہ برف باری اور موسموں کی تبدیلی سے مویشیوں کے لیے زیادہ چارا نہیں ملتا۔ اب اتنے ہی جانور رکھتے ہیں جتنی گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ہم سبزیاں اور آلو اگاتے ہیں جن سے اچھے پیسے مل جاتے ہیں‘۔
بلند و بالا قراقرم کے پہاڑوں تلے خوبصورت رنگ بدلتی سدپارہ جھیل کے قریب سدپارہ گاؤں آباد ہے۔ یہ گاؤں بلتستان کے مرکزی شہر اسکردو سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ گاؤں کی آبادی 3 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ عورتیں صدیوں سے روایتی طور پر گلہ بانی کا کام کررہی تھیں مگر اب بدلتے موسموں نے ان کی زندگی کو بھی تبدیلی سے دوچار کردیا ہے۔