پاکستان

ملک ریاض سے 19 کروڑ پاؤنڈز کی برآمدگی کابینہ اجلاس میں موضوع بحث

اثاثہ جات برآمدگی یونٹ تصفیے کے تحت تقریباً 25 کروڑ ڈالر واپس پاکستان لانے میں معاونت فراہم کرے گا، حکام

اسلام آباد: وفاقی کابینہ میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے اہلِ خانہ سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی برآمدگی اور اسے پاکستان کے حوالے کرنے کا معاملہ زیر بحث رہا۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب وزیراعظم سیکریٹریٹ کے عہدیدار اور دیگر وزرا کمرہ اجلاس سے باہر چلے گئے تو وزیراعظم عمران خان نے مذکورہ معاملے پر کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق اثاثہ جات برآمدگی یونٹ (اے آر یو) تصفیے کے تحت 19 کروڑ پاؤنڈز (تقریباً 25 کروڑ ڈالر) واپس لانے میں معاونت فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: نیشنل کرائم ایجنسی ملک ریاض سے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے پر رضامند

خیال رہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان میں پراپرٹی ڈیولپمنٹ سے منسلک ایک خاندان کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کیا اور ریاست پاکستان کو فوری طور پر فنڈز واپس کرنے پر اتفاق کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’19 کروڑ پاؤنڈز کا تصفیہ پاکستان کے بڑے نجی سرمایہ کار ملک ریاض کے حوالے سے کی گئی ایک تفتیش کا نتیجہ ہے اور یہ سول معاملہ ہے جس میں کوئی جرم ثابت نہیں ہوا‘۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ این سی اے نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی درخواست پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا جسے اس بات کا یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم برطانیہ بھیجی۔

اس ضمن میں جب وزیراعظم کے معاون خصوسی شہزاد اکبر سے رابطہ کیا گیا تو تصفیے کی شرط کے باعث تفصیلات فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے۔

مزید پڑھیں: ملک ریاض: ادنیٰ ٹھیکیدار سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے تک کا سفر

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس 2 آپشنز تھے یا تو کیس کی پیروی کی جائے جو تقریباً 5 سال تک جاری رہتی یا تصفیہ کر کے رقم واپس لے آئیں‘۔

تاہم جب ان سے پوچھا گیا ملک ریاض نے مذکورہ رقم سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کیس میں ادا کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو معاون خصوصی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اہم نہیں کہ رقم کسی طرح بیرونِ ملک بھیجی گئی بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم اسے برآمد کروانے میں کامیاب رہے، یہ ملک کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جس میں بیرونِ ملک بھیجی گئی قومی دولت برآمد کی گئی۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ حکومت نے اس کیس سے متعلق کوئی تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کیں کیوں کہ اس قسم کے انکشاف منظر عام پر آنے سے بین الاقوامی ادارے کا اعتماد مجروح ہوگا جو اس تصفیے میں کچھ ’رازداری‘ برتنے کا خواہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بیرون ملک ناجائز 40 کروڑ پاؤنڈ ضبط'، حکومت کے دعووں پر پیپلز پارٹی کو تشویش

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مزید بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی اس قسم کے برآمدگی کیسز کا آغاز کر رکھا ہے، اس لیے ہم بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں‘۔

یاد رہے کہ اگست میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ویسٹ منسٹر مجیسٹریٹ کی عدالت نے 12 کروڑ پاؤنڈز فنڈز کیس میں 8 اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2018 میں 2 کروڑ پاؤنڈز سے منسلک اسی تفتیش کے سلسلے میں برطانیہ کے بینکوں میں موجود اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا گیا تھا، یہ کارروائی فنڈز کے خلاف تھی کسی شخص کے خلاف نہیں۔

مذکورہ تصفیے میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں موجود ایک ہائیڈ پارک پلیس بھی شامل ہے، جو اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی ملکیت تھا اور مارچ 2016 میں ملک ریاض کے بیٹے کو فروخت کردیا گیا تھا، تاہم اس تصفیے کی دیگر معلومات معاہدے کے تحت پوشیدہ ہیں۔

مزید پڑھیں: بیرون ملک اثاثوں کی واپسی کیلئے ٹاسک فورس تشکیل

مذکورہ رقم کی واپسی عدالت سے باہر ہونے والے تصفیے کا نتیجہ، برطانیہ اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین قریبی کامیاب تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے جسٹس اینڈ اکاؤنٹیبلیٹی پارٹنر شپ کا مظہر ہے۔

اثاثہ برآمدگی یونٹ بیرونِ ملک چھپائی گئی غیر قانونی دولت کی نشاندہی کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کی تجویز پر گزشتہ برس ستمبر میں تشکیل دیا گیا تھا۔


یہ خبر 4 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔