ان کا کہنا تھا 'میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، یہ بہت ضروری ہے کہ لوگ خود دیکھیں کہ سیاستدان کیا کہہ رہے ہیں، تاکہ وہ اپنا فیصلہ کرسکیں، مجھے نہیں لگتا کہ ایک پرائیویٹ کمپنی کو سیاستدانوں یا خبروں کو سنسر کرنا چاہیے'۔
مارک زکربرگ کی جانب سے کافی عرصے سے فیس بک کی سیاسی تقاریر کے حوالے سے متنازع حکمت عملی کا دفاع کیا جارہا ہے، جبکہ دوسری جانب فیس بک پر غلط معلومات کی ترسیل، نفرت انگیز تقاریر اور دیگر مواد کی روک تھام کے لیے دباﺅ بڑھ رہا ہے۔
فیس بک کی سیاسی اشتہارات کی پالیسی پر تنقید کا نیا سلسلہ اکتوبر میں اس وقت شروع ہوا جب فیس بک نے ڈیموکریٹ جو بائیڈن کی صدارتی مہم کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اشتہار کو ہٹانے سے انکار کردیا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس میں سابق نائب صدر کے بارے میں غلط معلومات دی گئی ہے۔
فیس بک کی جانب سے سیاسی اشتہارات کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلیوں پر غور کیا جارہا ہے مگر اس کا موقف اس معاملے میں دیگر کمپنیوں سے مختلف ہے۔
ٹوئٹر نے اکتوبر میں سیاسی اشتہارات پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ گوگل نے نومبر میں کہا تھا کہ وہ انتخابی اشتہارات کو عمر، جنس اور پوسٹل کوڈ کے مطابق محدود حلقے کو دکھائے گا۔
اس انٹرویو کے دوران مارک زکربرگ نے اکتوبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ڈنر کرنے کی خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں مختلف امور میں بات چیت کی گئی مگر یہ بات چیت نجی تھی۔