پاکستان

ترسیلات زر سے متعلق اسٹیٹ بینک کے اقدامات پر کرنسی ڈیلرز کی تنقید

ترسیلات زر بہتر نہیں ہوسکتیں کیونکہ 50 فیصد سے زیادہ آمدنی گرے مارکیٹ میں چلی گئی ہے، رپورٹ

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے کرنسی ڈیلرز سے اپیل کی ہے کہ وہ ترسیلات زر کو مزید بہتر بنانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں۔

تاہم ڈیلرز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گرے مارکیٹ پہلے ہی ان کے 50 فیصد کاروبار پرغالب ہے۔

مزیدپڑھیں: حد یہ کہ اب اسٹیٹ بینک بھی خسارے کے ڈنک سے نہ بچ سکا

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ہمیں اسٹیٹ بینک نے حکومت کی جانب سے ترسیلات زر میں بہتری اور مراعات کے لیے مدعو کیا لیکن ایکسچینج کمپنیاں خاص طور پر بڑے نیٹ ورک والوں کو نقصانات کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے حال ہی میں بڑھتی ہوئی ترسیلات زر کے سلسلے میں بہتر کارکردگی کے پیش نظر کرنسی ڈیلرز کے لیے مراعات کا اعلان کیا تھا۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ اسٹیٹ بینک ہمیں اس اسکیم کا فائدہ بتائے گا جس کے تحت اگر کمپنی ترسیلات زر میں 15 فیصد اضافہ کرتی ہے تو اسٹیٹ بینک ترسیلات زر کی مد میں ایک ڈالر کی پیشکش کرتا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 15 فیصد اضافی ترسیلات زر پر ادائیگی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا شرح سود 13.25 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ڈالر کی رقم کرنسی ڈیلرز کو دینے کے بجائے بھیجنے والے کو دی جانی چاہیے تاکہ وہ قانونی طریقے سے رقم منتقلی کرے۔

انہوں نے کہا کہ 'سرکاری ترسیلات زر بہتر نہیں ہوسکتیں کیونکہ 50 فیصد سے زیادہ آمدنی گرے مارکیٹ میں چلی گئی ہے اور وہ ترسیل دہندہ اور وصول کنندہ کی شناخت کیے بغیر بہتر قیمت پیش کرتے ہیں'۔

ظفر پراچہ نے بتایا کہ غیر قانونی منڈی یا گرے مارکیٹ نے ان کے کاروبار کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا جبکہ نقد مارکیٹ بھی غیر قانونی رقم کی ترسیل کرنے والوں کی جانب منتقل ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا لوگوں کو شناخت سے خوف آتا ہے جس کی وجہ سے وہ لائسنس کے بغیر کمپنیوں سے پیسوں کا تبادلہ کروا لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں کرنسی ڈیلرز نے بتایا کہ بینک نرخوں کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کے درمیان معمولی فرق کی وجہ سے منافع کا مارجن کم ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر اپنے عہدوں سے فارغ

کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران غیر ملکی کرنسیوں کی تجارت میں زبردست کمی واقع ہوئی جبکہ غیر ملکی کرنسیوں کی آمد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

ادھر فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا کہ بڑی کمپنیز جن کے پاس نیٹ ورک ہیں، نرخوں کے معمولی فرق کی وجہ سے نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ 'ہنڈی اور حوالہ' مارکیٹ کو ہماری مارکیٹ کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ مل گیا کیونکہ وہ ہم سے 2 ڈالر زیادہ کی پیش کش کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پیر کو انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 30 پیسے کا فرق تھا، انٹر بینک میں قیمت 155.30 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 155.60 روپے تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ایکسچینج کمپنیوں کو مالی سال کے آغاز سے ہی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ صرف چھوٹی کمپنیاں اور بغیر لائسنس کے منی چینجر ہی منافع کما رہے ہیں۔

علاوہ ازیں ظفر پراچہ نے کہا کہ لائسنس یافتہ منی چینجرز کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنے کے لیے بہت کم گنجائش ہے۔

مزید پڑھیں: شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ، 13.25 فیصد ہوگئی

ان کا کہنا تھا کہ بینک روزانہ کرنسی مارکیٹ کی کارروائیاں سنبھالنے سے قاصر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایکسچینج کمپنیاں تشکیل دی گئیں تاہم یہ ناقابل یقین بات ہے کہ حکومت گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے غیر قانونی لین دین کی روک تھام کے لیے اقدامات کررہی ہے لیکن ان فیصلوں سے ملک میں کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کو تقویت مل رہی ہے۔