افسانہ: بوڑھے آدمی کا خواب

بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آگئی تھی، اس سے پہلے کہ میں آپ کو اس تبدیلی کے بارے کچھ بتاؤں مجھے آپ کو اس تبدیلی سے پہلے کی زندگی کے بارے میں بتانا ہوگا ورنہ یہ کہانی جھول کا شکار ہوجائے گی اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا۔
تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ صادق حسین کو ریٹائرڈ ہوئے 2 سال ہوگئے ہیں۔ بیوی 5 سال پہلے فوت ہوگئی تھی اور دونوں بچے اپنی گوری بیویوں کے ساتھ کینیڈا ہوتے ہیں اور آخری بار 5 سال پہلے آئے تھے۔ اب کبھی کبھار ان کا فون آجاتا ہے، اور صادق حسین کی زندگی بچوں کی اگلی کال کے درمیانی وقفے میں معلق رہتی ہے۔
پہلے پہل صادق حسین ریٹائر ہوئے تو پھر بھی ایک آدھ دن چھوڑ کر دفتر چلے جاتے، پرانے دوستوں سے ملاقات ہوجاتی اور ان کا دل بہل جاتا، پھر رفتہ رفتہ انہیں محسوس ہوا کہ دفتر کے لوگ اب تنگ آتے جارہے ہیں، جیسے وہ دفتر جاکر ان کے کام میں مخل ہوتے ہیں، لہٰذا انہوں نے دفتر جانا چھوڑدیا۔
گھر کا زیادہ تر کام گھر کی پرانی ملازمہ نسرین کردیتی تھی۔ صادق صاحب صبح اٹھتے، ناشتہ کرتے، اخبار پڑھتے یونہی ٹی وی پر چینل بدلتے رہتے، ایک آدھ چکر باہر گلی کا لگا کر آجاتے اور پھر سہ پہر تک بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے۔
سہ پہر کو وہ گھر کے قریب ہی بنے ایک پارک میں جاتے جہاں تھوڑی سی چہل قدمی کرنے کے بعد ایک بنچ پر بیٹھ کر بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھتے رہتے یا پھر باغ میں اڑتے پرندوں کا نظارہ کرتے۔
وہ سوچتے کہ کاش وہ بچہ ہوتے اور بچوں کے ساتھ کھیلتے یا پھر پرندہ ہوتے اور ان اڑتے پرندوں کے ساتھ قطار میں اڑا کرتے لیکن وہ تو ایک تنہا اداس بوڑھے تھے کہ جس سے سارا دن کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے اس کا حل نکالا اور وہ ہر شے سے باتیں کرنے لگے۔ مثلاً گھر کی دیواروں، برتنوں، کتابوں، ٹی وی، غرض گھر کی ہر چیز سے وہ باتیں کرتے تھے۔
ان کے ڈرائنگ روم کی دیوار میں دراڑ پڑگئی تھی، اور وہ روز کئی کئی منٹ تک اس دیوار سے باتیں کرکے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہتے، ’پریشان نہیں ہونا، شکستہ ہوکر گرنا مت، میں اس دفعہ پینشن ملتے ہی مستری بلا لاؤں گا، تم بس خود کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ ہم آدمیوں پر بھی تو ایسا وقت پڑتا ہے کہ لگتا ہے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے لیکن ہمت رکھنا پڑتی ہے‘۔
اگر کبھی چائے کا کپ گندا ہی پڑا رہ جاتا تو وہ کہتے ’اوہ ہو! آج نسرین نے تمہیں دھویا نہیں؟ کتنے میلے ہوگئے ہو، آؤ میں تمہیں کچن میں چھوڑ آؤں، کل نسرین کو کہوں گا کہ سب سے پہلے وہ تمہیں دھوئے‘۔
پھر ایک دن بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آگئی۔
وہ ایک ایسی ہی اداس شام کو اسی پرانے بنچ پر بیٹھے تھے جب ان کے ساتھ والے بنچ پر ایک 30 سے 35 سال کی ایک اداس سی خاتون آکر بیٹھ گئی۔ صادق حسین کو ان آنکھوں کو دیکھ کر یوں لگا کہ جیسے وہ اداس آنکھیں ان کی اپنی آنکھیں ہیں اور وہ خود کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ آنکھیں بالکل ویسی ہی تھیں جیسی وہ روز صبح آئینے میں دیکھتے تھے۔
انہوں نے سوچا معلوم نہیں یہ خاتون کون ہیں، میں تو بالکل اکیلا ہوں سو اداس ہوں لیکن اس خاتون کو بھری جوانی میں بھلا کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیوں اتنی اداس ہے؟ لیکن انہوں نے کچھ نہیں پوچھا۔ پھر ساری رات خواب میں وہ آنکھیں ان کے سامنے آنسو بہاتی رہیں، وہ بار بار پریشان ہوکر جاگ جاتے اور سوچتے کہ آخر یہ خواب کیا ہے اور وہ خاتون کون ہے؟ وہ بھلا کیسے جان سکتے تھے کہ وہ کون ہے کیونکہ کل سے پہلے تو انہوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اگلے دن وہ سہ پہر سے بھی پہلے پارک پہنچ گئے اور بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ وہ خاتون شام سے ذرا پہلے آئیں اور آکر ساتھ کے بنچ پر بیٹھ گئیں۔ صادق صاحب آج بھی یہ سوچتے رہے، آخر وہ کس طرح اس سے پوچھیں کہ وہ اتنی اداس کیوں ہے؟ وہ ان کی کون تھی؟ کچھ بھی تو نہیں۔
ایک ہفتہ اسی شش و پنج میں گزر گیا۔ اس ہفتے کے دوران صادق صاحب نے در و دیوار سے کوئی بات نہ کی اور دیوار و در انہیں حیرت سے تکا کرتے تھے۔ بوڑھے کو معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے کئی دنوں بعد انہوں نے تازہ شیو بنایا تھا لیکن وہ اس سارے ہفتے اس خاتون سے کچھ بھی نہ پوچھ سکے۔ ہاں لیکن ہر رات خواب میں وہ اسے دیکھتے، اسے حوصلہ دیتے اور وہ خاتون جواباً صادق صاحب کو حوصلہ دیتیں۔
صادق صاحب عمر کے اس حصے میں تھے جب زندگی انسان سے سب کچھ لے جاتی ہے اور انسان کے حصے میں سوائے تجربے کے کچھ نہیں آتا سو ان کے پاس تجربہ اور شعور تھا۔
اپنے اندر آنے والی تبدیلی کو دیکھ کر انہیں یہ محسوس ہوا کہ اس خاتون کے لیے ان کے اندر انسیت پیدا ہوگئی ہے، بالکل ویسے ہی انسیت جیسی کئی سال پہلے انہیں ایک درخت سے ہوگئی تھی۔
خاتون قدرے گھبرائے لہجے میں بولیں، ’نہیں انکل میں نے نہیں دیکھا‘۔
’اوہ اچھا شکریہ، میں تلاش کرتا ہوں یہیں کہیں ہوں گی‘۔
’ہاں، ہاں بالکل وہ میری عزیزہ ہیں، کیا تم نے انہیں کہیں دیکھا ہے؟‘، صادق صاحب بے چینی سے پوچھتے۔
’جی بالکل وہ گیٹ نمبر ایک پر آپ ہی کے بارے پوچھ رہی تھی‘۔
اور صادق حسین صاحب تیزی سے گیٹ نمبر ایک کی طرف جاتے، پیچھے لڑکے تالیاں بجاتے اور خوش ہوتے۔
اگلے دن پھر کوئی اور لڑکا یہی بات دہراتا اور صادق حسین صاحب ہر بار یقین کرلیتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔