سال 2019 کے دوران جہاں دنیا کے منظر نامے پر بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں سب کی نگاہیں افغانستان اور اس کے مستقبل پر بھی مرکوز رہیں اور 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی جانب مثبت پیشرفت دیکھنے میں آئی۔
رواں سال بھی گزشتہ کی طرح افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل کئی مراحل کے بعد بھی منطقی انجام کو نہیں پہنچا سکا اور مذاکرات کا اونٹ اب بھی کسی ایک طرف بیٹھنے کی تگ و دو کرتا نظر آتا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام کے بعد افغانستان میں قیام امن کی گاڑی نے اپنے سفر کا آغاز تو کیا لیکن کچوے کی رفتار میں جبکہ اس نے خرگوش کی رفتار اس وقت حاصل کی جب زلمے خلیل زاد کو گزشتہ سال ستمبر میں امریکا کا نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل مقرر کیا گیا، جنہوں نے باضابطہ طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا۔
زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد نے جب قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں چار اہم نکات شامل ہیں:
افغان سرزمین کا امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونا
امریکی اور بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے انخلا
افغان حکومت کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کا آغاز
جنگ بندی
زلمے خلیل زاد نے رواں سال 29 جنوری کو اپنے ایک بیان میں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان سینئر عہدیداران، افغانستان سے دہشت گردوں کو باہر نکالنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے ہیں۔
امن مذاکرات کو اس وقت نئی قوت ملی تھی جب گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کی قید سے رہا ہونے والے افغان طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے رواں سال فروری میں دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھالی تھی، جس کے بعد طالبان کی جانب سے 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا۔