دنیا

18 سال سے جنگ زدہ افغانستان کیلئے 'سال 2019' مزید کتنا مشکل ثابت ہوا؟

افغانستان میں قیام امن کیلئےامریکا اور طالبان کےدرمیان مذاکرات کا عمل کئی مراحل کےبعد بھی منطقی انجام کو نہیں پہنچا سکا۔

سال 2019 کے دوران جہاں دنیا کے منظر نامے پر بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں سب کی نگاہیں افغانستان اور اس کے مستقبل پر بھی مرکوز رہیں اور 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی جانب مثبت پیشرفت دیکھنے میں آئی۔

رواں سال بھی گزشتہ کی طرح افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل کئی مراحل کے بعد بھی منطقی انجام کو نہیں پہنچا سکا اور مذاکرات کا اونٹ اب بھی کسی ایک طرف بیٹھنے کی تگ و دو کرتا نظر آتا ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام کے بعد افغانستان میں قیام امن کی گاڑی نے اپنے سفر کا آغاز تو کیا لیکن کچوے کی رفتار میں جبکہ اس نے خرگوش کی رفتار اس وقت حاصل کی جب زلمے خلیل زاد کو گزشتہ سال ستمبر میں امریکا کا نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل مقرر کیا گیا، جنہوں نے باضابطہ طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا۔

زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد نے جب قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں چار اہم نکات شامل ہیں:

زلمے خلیل زاد نے رواں سال 29 جنوری کو اپنے ایک بیان میں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان سینئر عہدیداران، افغانستان سے دہشت گردوں کو باہر نکالنے، تمام امریکی فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی اور کابل-طالبان مذاکرات جیسے تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے ہیں۔

امن مذاکرات کو اس وقت نئی قوت ملی تھی جب گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کی قید سے رہا ہونے والے افغان طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے رواں سال فروری میں دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھالی تھی، جس کے بعد طالبان کی جانب سے 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا۔

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عباس استکزئی — فائل فوٹو / اے پی

اسی ماہ زلمے خلیل زاد نے یہ بیان دیا کہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد دینے کے لیے پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا تھا۔

امریکا-طالبان مذاکرات کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد نے ایک تعمیری کردار ادا کیا اور ’ان کی درخواست‘ پر ملا برادر کو رہا کیا۔

امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملا برادر کی رہائی کی درخواست کی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ افغان امن کے آغاز میں سینئر طالبان رہنما بھی تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مارچ میں ہونے والے 16 روزہ مذاکراتی دور کے بعد دونوں فریقین نے 'بڑی کامیابیوں' کا دعویٰ کیا تھا جبکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ دونوں فریقین فوجیوں کے انخلا اور انسداد دہشت گردی کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہیں۔

امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان تازہ دور ‘حقیقی کامیابیوں’ کے ساتھ ختم ہوا، لیکن فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے طریقہ کار پر کوئی معاہدہ طے نہ پاسکا۔

مئی میں ہونے والے مذاکراتی دور کے حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اہم ترین پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے کہ 2 نکاتی ایجنڈے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اور افغانستان سے کسی کو نقصان پہنچنے کی روک تھام، کو حتمی شکل دی جائے'۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ اس مسئلے کے دیگر پہلوؤں کے حل کی راہیں بھی ہموار کرے گا اور ہم اس سے پہلے دوسری جانب توجہ نہیں دے سکتے'۔

20 جون کو افغانستان میں امن کے فروغ اور مصالحتی عمل کے لیے طالبان کے وفد کی چین نے میزبانی کی، جہاں طالبان کی جانب سے امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج کے طالبان سے انخلا کا مطالبہ کیا گیا اور اس کے بدلے میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان کو مرکز کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

30 جون کو امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کا یہ بیان سامنے آیا کہ انہوں نے پاکستان کے سویلین اور ملٹری حکام کو آگاہ کیا ہے کہ امریکا، پاکستان سے افغان امن عمل میں مزید کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

اسی روز جہاں ایک جانب امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ساتواں دور جاری تھا وہیں امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان یکم ستمبر سے قبل امن معاہدہ طے پاجائے گا۔

طویل عرصے تک صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی کہنے والے طالبان نے افغان حکومت کے پُرزور مطالبے اور بظاہر ان پر ہمسایہ ملک کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کے بعد (امریکا کئی سالوں سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات پر مجبور کرے) جولائی میں طالبان نے امریکا کے بعد افغان حکومت، سول سوسائٹی اور دیگر وفود کے ساتھ بھی مذاکرات کا آغاز کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے امریکی حکام کے مطالبے پر واضح ردعمل نہیں دیا کہ آیا وہ ایسا کرنے جارہے ہیں یا نہیں؟ لیکن پاکستانی حکام نے بارہا افغان امن مذاکرات کے عمل میں مدد اور حمایت فراہم کرنے کا نا صرف اعادہ کیا بلکہ متعدد مذاکرات کے لیے طالبان اور امریکا کی اسلام آباد میں میزبانی بھی کی گئی۔

اسی ماہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان شہیل شاہین کا 'بی بی سی' کو انٹرویو کے دوران یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اگر انہیں رسمی طور پر دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو وہ اسے قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔

12 اگست کو طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان سے ہزاروں امریکی فوجیوں کے انخلا پر ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں دور ختم ہوا جس کے حوالے سے طالبان ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ قطر میں ہونے والا مذاکرات کا یہ دور 'طویل اور مفید تھا'۔

دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے 28 اگست کو تصدیق کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی بے دخلی سے متعلق مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں مذاکرات کے پانچویں مرحلے میں مثبت پیش رفت ہوئی اور اب ہم باقی ماندہ نکات کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

— فائل فوٹو / اے پی

لیکن اسی دوران 8 ستمبر کو اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر یہ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا۔

اس پر طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان امن مذاکرات کا سلسلہ معطل کرنے پر ’پہلے سے زیادہ سخت نتائج‘ کی دھمکی دی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ — فائل فوٹو/ رائٹرز

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس گیا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

18 ستمبر کو افغان طالبان کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر مستقبل میں امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان کے 'دروازے کھلے ہیں

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عباس استکزئی کا برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ 'افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں'، انہوں نے ساتھ ہی امریکا کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کچھ غلط نہیں کیا۔

طالبان وفد نے 29 ستمبر کو چین کے دارالحکومت بیجنگ کا دورہ کیا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی۔

مذاکرات کے ہر مرحلے میں پاکستان سہولت کار کے طور پر اپنا بہترین کردار ادا کرتا نظر آیا اور ایسے مرحلے میں جب افغانستان میں امن کی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی اس نے اسے سہارا دینے اور فریقین کو مذاکرات کی بحالی پر رضامند کرنے کی بھرپور کوشش کی، پاکستان کی افغان امن عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امریکا اور دیگر ممالک نے بھی سراہا۔

اسی سلسلے میں اکتوبر میں ملا عبدالغنی کی سربراہی میں 12 رکنی طالبان وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا اور پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں، ان ہی دنوں میں زلمے خلیل زاد بھی امریکی وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں موجود تھے لیکن دونوں فریقین کی ملاقات کے حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔

— فائل فوٹو / نوید صدیقی

20 اکتوبر کو امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر طالبان کے ساتھ اچانک معطل ہونے والے مذاکرات کی بحالی کے لیے افغانستان پہنچے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ‘مقصد اب بھی یہی ہے کہ کسی نکتے پر امن معاہدہ یا سیاسی معاہدہ ہوجائے جو آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے'۔

29 اکتوبر کو افغان امن کانفرنس کے دوران پاکستان، روس اور چین نے مذاکرات کو افغانستان تنازع کا واحد حل تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا۔

19 نومبر کو طالبان نے حکومت سے تبادلوں کے معاہدے کے تحت جنوبی افغانستان میں 2016 میں قید کیے گئے 2 غیر ملکی پروفیسرز کیون کنگ اور ٹموتھی ویکس کو رہا کیا۔

امریکی اور آسٹریلوی پروفیسرز کو 3 طالبان رہنماؤں کے بدلے میں رہا کیا گیا، افغان حکومت سے رہائی پانے والے افراد میں حقانی نیٹ ورک کے قائد اور طالبان کے ڈپٹی سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی بھی شامل تھے۔

رہا ہونے والے پروفیسرز — فائل فوٹو / اے پی

29 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی تہوار 'تھینکس گیونگ' کے موقع پر اچانک افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان، جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے لیکن وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے مگر اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال میں اب کام ہوجائے گا'۔

دوسری جانب طالبان رہنماؤں نے بتایا تھا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ ہفتے کے اختتام سے ان کی امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں جاری ہیں اور ممکن ہے کہ وہ جلد مذاکرات بحال کردیں۔

مثبت سمت میں جاری مذاکرات میں تعطل کے بعد حالیہ ہفتوں میں ہونے والی پیشرفت کے بعد طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات جلد بحال ہونے کی امید ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے اب تک کم و بیش دس دور ہوچکے ہیں، جن میں کبھی دونوں جانب سے مثبت پیشرفت دکھائی دی تو کبھی مذاکرات کسی نکتے پر ڈیڈلاک کا شکار نظر آئے۔

28 ستمبر کو افغانستان میں صدارتی انتخاب کا میدان سجا تاہم انتخابی عمل میں فراڈ، انتخابی مہم پر حملوں اور طالبان کی دھمکیوں کے زیر اثر انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح انتہائی کم رہی۔

صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی اور ملک کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان مقابلہ تھا۔

— فائل فوٹو / اے پی

15 اکتوبر کو اقوام متحدہ نے افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوران حملوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات جاری کی تھیں، جس کے مطابق انتخابی عمل کے دوران 85 شہری جاں بحق اور 373 زخمی ہوئے۔

اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان نے خصوصی رپورٹ میں کہا کہ حملوں میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور 80 سے زائد افراد طالبان کے براہ راست حملوں کا شکار ہوئے جس کا مقصد 28 ستمبر کے انتخابات کو نشانہ بنانا تھا۔

خوف کے سائے میں انتخابات کے انعقاد کے بعد اب سب کی نظریں اس کے نتائج پر تھیں اور ابتدائی نتائج کا اعلان 19 اکتوبر کو کیا جانا تھا، جنہیں بعد ازاں 14 نومبر تک موخر کردیا گیا تھا۔

تاہم 13 نومبر کو افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن (آئی ای سی) کے حکام نے مختلف تکنیکی مسائل کا حوالا دیتے ہوئے انتخابی نتائج کی تاریخ کو مزید آگے بڑھا دیا تاہم کوئی نئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔

پاکستان رواں سال بھی مختلف حوالوں سے افغانستان کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کرتا رہا لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس کے باوجود مختلف مواقع پر اسلام آباد پر الزامات سامنے آتے رہے۔

مارچ میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ طالبان نے موجودہ حکومت سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ انہوں نے افغان حکومت کے تحفظات کے سبب طالبان رہنماؤں سے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے افغانستان نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان کے بیان سے پاکستان کی مداخلت کی پالیسی ثابت ہوتی ہے اور یہ افغانستان کی خود مختاری پر حملہ ہے‘۔

جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے وزیر اعظم کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے انتخابات کے پاکستانی ماڈل کی جانب اشارہ کیا تھا جس میں الیکشن کا انعقاد عبوری حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

چند روز بعد عمران خان نے جمرود میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران ایک بار پھر اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں نے افغانستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کا کہا تو مجھ پر تنقید کی گئی لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم افغانستان کے لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں'۔

عمران خان نے مزید کہا تھا کہ 'اگر الیکشن سے افغانستان میں امن حاصل کرنا ہے تو ایسی عبوری حکومت سے انتخابات کروائے جائیں جنہیں وہاں کے لوگ غیر جانبدار سمجھیں، ہم افغانستان کے خیر خواہ ہیں اور وہاں کی بہتری چاہتے ہیں'۔

افغان حکومت نے امن مذاکرات سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کے بیان کی وضاحت کے لیے افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارتکار کو ایک مرتبہ پھر طلب کر لیا تھا۔

ڈیڑھ ماہ کے دوران یہ چوتھا موقع تھا جب کابل نے ملک میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات سے متعلق بیانات پر پاکستانی سفارت کار سے وضاحت طلب کی۔

پاکستانی سفارت کار کی طلبی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک مرتبہ پھر تنازعے نے جنم لے لیا۔

اس معاملے کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات پر بھی کابل کی جانب سے پاکستان پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔

سال 2019 افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بھی خونریز ثابت ہوا اور طالبان اور داعش کے حملوں میں امریکی و افغان فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔

ایک جانب جہاں دہشت گردوں کے حملوں میں عوام کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا تو دوسری جانب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر سیکیورٹی فورسز کی بمباری میں بھی کئی معصوم افراد لقمہ اجل بنے۔

24 مارچ کو صوبہ قندوز میں دو امریکیوں کی ہلاکت کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے ضلع گل ٹیپا کے مضافات میں ایک گھر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 8 بچے اور 4 خواتین سمیت 14 پناہ گزین جاں بحق ہوئے۔

امریکی طیاروں کی جانب سے افغان پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں 4 افغان اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

یکم جولائی کو افغان طالبان کے بمباروں نے جنوبی افغانستان میں قائم ضلعی سینٹر پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 8 الیکشن ورکرز سمیت 19 افراد ہلاک ہوئے۔

17 جولائی کو جنوبی صوبے بادغیس میں طالبان کی جانب سے اسپیشل فورسز کے اہلکاروں پر گھات لگا کر کیے گئے حملے میں 21 افغان کمانڈوز ہلاک ہوئے جبکہ کئی اغوا بھی کر لیے گئے۔

18 جولائی کو شہر قندھار میں پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر طالبان کے کار بم دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔

— فائل فوٹو/ اے پی

28 اگست کو صوبہ ہیرات میں چیک پوسٹ پر طالبان کے حملے میں افغان ملیشیا کے 14 اہلکار ہلاک اور کئی شہری زخمی ہوئے۔

31 اگست کو طالبان کی جانب سے قندوز شہر پر کیے گئے بڑے حملے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ عسکریت پسند گروپ نے کئی عمارتوں پر قبضوں کا دعویٰ کیا۔

5 ستمبر کو دارالحکومت کابل کے مصروف سفارتی علاقے میں طالبان کے خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں امریکا اور رومانیہ کے 2 فوجی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے۔

— فائل فوٹو: اے پی

17 ستمبر کو کابل اور افغان صدر اشرف غنی کی انتخابی ریلی کے قریب طالبان نے علیحدہ علیحدہ حملے کیے جس میں 48 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'طالبان نے آج ہی کابل میں خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، انہوں نے پروان میں بھی صدارتی امیدوار کی ریلی کے دوران دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 24 سے زائد افراد ہلاک ہوئے'۔

— فائل فوٹو / رائٹرز

19 ستمبر کو افغانستان کے جنوبی علاقے میں طالبان کے خودکش دھماکے سے 20 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے، طالبان کا ہدف خفیہ ادارے کی عمارت تھی۔

حملے کی وجہ سے زابل صوبے کے دارالحکومت قلات کے ہسپتال کا کچھ حصہ بھی تباہ ہوگیا اور ایمبولینسز کو نقصان پہنچا۔

29 ستمبر کو ملک کے مشرقی علاقے میں افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے امریکی فضائیہ کے تعاون سے کیے گئے فضائی حملے کے نتیجے میں 30 شہری ہلاک اور 40 زخمی ہوئے۔

سرکاری حکام نے بتایا کہ حملے کا مقصد داعش کے خفیہ ٹھکانے کو نشانہ بنانا تھا تاہم غلطی سے ننگرہار صوبے کے ضلع خوگیانی کے علاقے وزیر تانگی کے کسان اس کے نشانے پر آگئے۔