پاکستان

جماعت اسلامی کا 22 دسمبر کو اسلام آباد میں کشمیر کے حق میں مارچ کا اعلان

کشمیرکی آزادی کیلئےنیشنل ایکشن پلان کااعلان کیا جائے اورایل او سی پر لگی باڑ کو ہٹانے کا عملی اقدام کیا جائے،سراج الحق
|

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ملک میں کشمیر کے حق میں حکمرانوں کے ضمیر کو جگانے کیلئے 22 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملین مارچ کا اعلان کردیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف پاکستان ہی کشمیریوں کا وکیل ہے اور ساتھ ہی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا جائے اور ایل او سی پر لگی باڑ کو ہٹانے کا عملی اقدام کیا جائے۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ آزاد کشمیر حکومت کو مقبوضہ کشمیر سمیت پورے کشمیر کا واحد نمائندہ قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، بھارت سے شملہ معاہدہ منسوخ کردے، سراج الحق

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم بین الاقوامی دنیا کو ایک مرتبہ پھر متوجہ کریں گے کیونکہ 1974 سے 1981 تک اقوام متحدہ کی قرار دادیں مظلوم قوم کو مسلح جدوجہد کی اجازت دیتی ہیں۔

انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی سطح پر بھارت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

'سید علی گیلانی کے خط پر بھی کیا ردعمل دیا گیا؟'

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کے خط پر بھی کیا ردعمل دیا گیا؟ اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارت نے شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور ختم کئے، اب پاکستان بھی بھارت سے تمام معاہدے ختم کردے۔

پریس کانفرنس کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر کسی قومی مسئلے پر اتفاق رائے ہے تو وہ کشمیر کی آزادی ہے اور اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں جبکہ پوری قوم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر، پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان کا جغرافیہ ہی نامکمل ہے جبکہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 5 اگست کے بھارتی اقدام سے 250 سال سے قائم ریاست کا خاتمہ ہوا اور مودی کے اس اقدام کے بعد کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے جبکہ بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: محاصرے میں سسکتی زندگی کے 100روز

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ 4 ہزار 390 مربع کلو میٹر پر مشتمل علاقہ بھارت نے بغیر جنگ کے قبضے میں لے لیا اور ہم تماشہ دیکھتے رہے اور بھارتی فوج نے پورا فائدہ اٹھایا جبکہ ہمیں لائن آف کنٹرول پر مصروف رکھ کر بھارت نے کشمیر ہڑپ کرلیا۔

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ یورپی ممالک اور اسلامی ممالک میں مقبوضہ کشمیر کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے جبکہ ترکی، ملائشیا اور ایران نے بہت دلیری کے ساتھ کشمیری عوام کا ساتھ دیا۔

'وزیراعظم پراسرار طور پر خاموش ہیں'

امیر جماعت اسلامی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر سے ہمیں امید ملی اور ہمیں امید تھی کہ وزیراعظم پوری قوم کو اعتماد میں لے کر عملی اقدامات کریں گے لیکن 27 ستمبر سے آج تک حکومت پراسرار طور پر خاموش ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں جشن عید میلادالنبیﷺ پر پابندی، پاکستان کی مذمت

سراج الحق کا کہنا تھا کہ سب نے سوچا حکومت اب کوئی لائحہ سب سے مل کر طے کرے گی لیکن 27 اگست کے بعد سفیر بننے والے وزیراعظم پراسرار طور پر خاموش ہیں اور عملی اقدام کی بجائے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی جانب جانے والوں کو غدار قرار دے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اس ‘فتویٰ’ سے کشمیریوں کو مایوسی ہوئی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں سیاسی اختلافات نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔

'مودی نے 2 وعدے پورے کردیئے'

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 18 ہزار کشمیری بھارتی جیلوں میں قید ہیں، عالمی اداروں کے بقول 13 ہزار کشمیری لڑکیوں سے زیادتی کی گئی ہے جبکہ مقبوضہ وادی میں عصمت دردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر میں ہمارا کردار تماشائی کا نہیں ہوسکتا، مودی نے 3 وعدے کئے، جس میں سے بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے اور مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے پر وہ عمل کرچکا جبکہ مظفر آباد اور گلگت بلتستان کو بھارت میں شامل کرنا ابھی باقی ہے۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ مودی، پاکستان کے پانی کا ایک ایک قطرہ بند کردینا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے 3 سیاستدانوں کو رہا کردیا

بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 5 اگست کو مسلمان اکثریتی ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے انتظامی لحاظ سے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

اس اقدام کے پیشِ نظر کسی بھی متوقع مزاحمت کو شروع ہونے سے پہلے ہی روکنے کے لیے بی جے پی حکومت نے طویل عرصے سے ریاستی جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی زندگیوں کو مزید مشکل کردیا اور یہاں تعینات فوج میں اضافہ کیا۔

5 اگست کے یکطرفہ اقدام سے پہلے ہی کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی غیر معمولی نقل وحرکت سے مقامی افراد میں اس بات کا خوف پھیل گیا تھا کہ حکومت کوئی انتہائی قدم اٹھانے جارہی ہے لیکن اس سے پہلے ہی بھارت نے کشمیر پر ایسی پابندیاں عائد کیں کہ بہت سے لوگوں کو ریاست کی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کا علم بھی کئی روز بعد ہوا۔