سیاہ چائے، سبز چائے سمیت متعدد اقسام میں چائے کو تیار کرکے پیا جاتا ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ چائے نوشی کی عادت صحت کے لیے فائدہ مند ہے مگر اس گرم مشروب کا بہت زیادہ استعمال کچھ نقصانات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہاں آپ دن بھر میں بہت زیادہ چائے پینے کے ممکنہ نقصانات کے بارے میں جان سکیں گے۔
آئرن جذب کرنے میں مسائل
چائے میں ٹینن نامی پیچیدہ نامیاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو مخصوص غذاﺅں سے جسم میں آئرن جذب ہونے کے عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔ آئرن کی کمی دنیا بھر میں بہت عام غذائی کمی ہے جس کا سامنا کروڑوں افراد کو ہوتا ہے جو آگے بڑھ کر انیمیا یا خون کی کمی جیسے مرض کا وجہ بن جاتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق چائے میں موجود یہ نامیاتی مرکبات نباتاتی ذرائع سے حاصل ہونے والی آئرن کے جذب ہونے کے عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، یعنی اگر آپ گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تو چائے کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اگر آپ آئرن کی کمی کا شکار ہیں تو چائے سے ضرور لطف اندوز ہوں مگر احتیاط کے طور پر کھانے کے ساتھ کی بجائے دوپہر اور رات کے کھانے کے درمیان پینے کو ترجیح دیں، تاکہ جسم کی آئرن جذب کرنے کی اہلیت متاثر نہ ہو۔
ذہنی بے چینی اور تناﺅ
چائے کی پتی میں قدرتی طور پر کیفین موجود ہے اور کیفین کا چائے یا کسی بھی شکل میں بہت زیادہ استعمال ذہنی بے چینی، بے قراری، بے سکونی اور تناﺅ کا باعث بن سکتا ہے۔
چائے کے ایک کپ میں اوسطاً 11 سے 61 ملی گرام کیفین ہوسکتی ہے (اس کا انحصار چائے کی قسم اور بنانے کے طریقے پر ہوتا ہے)۔
سیاہ یا دودھ کے بغیر چائے میں سبز اور دودھ والی چائے کے مقابلے میں زیادہ کیفین ہوتی ہے اور چائے کے لیے جتنی زیادہ پتی استعمال کریں گے، کیفین کی مقدار اتنی ہی زیادہ بڑھ جائے گی۔
محققین کے مطابق دن بھر میں 200 ملی گرام سے کم کیفین کا استعمال بیشتر افراد میں ذہنی بے چینی بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے، تو اگر آپ کو چائے پینے کے بعد ذہنی بے چینی یا الجھن کا سامنا ہوتا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ آپ زیادہ مقدار میں چائے پی رہے ہیں اور اس میں کمی لانی چاہیے۔
نیند متاثر ہونا
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ چائے میں کیفین موجود ہوتی ہے اور اس کا زیادہ استعمال نیند کے سائیکل کو متاثر کرسکتا ہے۔ جب نیند کا وقت ہوتا ہے ایک ہارمون میلاٹونین دماغ کو اشارہ کرتا ہے کہ اب سو جانا چاہیے، کچھ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ کیفین میلاٹونین بننے کے عمل پر اثرانداز ہوکر نیند کے معیار اور دورانیے کو متاثر کرتی ہے۔
نیند کی کمی متعدد مسائل جیسے تھکاوٹ، یاداشت کی کمزوری اور توجہ کی صلاحیت کو متثر کرنے کا باعث بنتی ہے، جبکہ موٹاپے اور بلڈ شوگر لیول بڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق سونے سے کچھ گھنٹے پہلے صرف 200 ملی گرام کیفین کا استعمال بھی نیند کے معیار پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے، تاہم کچھ رپورٹس میں کسی قسم کا نمایاں اثر ریکارڈ نہیں کیا گیا، مگر ایسے افراد جو چائے پینے کے نتیجے میں نیند کی کمی کا شکار ہورہے ہوں، انہیں اس کی مقدار میں کمی لانے پر غور کرنا چاہیے۔
متلی
چائے میں کچھ مخصوص مرکبات سے جی متلانے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے خصوصاً اگر بہت زیادہ مقدار میں پی جائے یا خالی پیٹ اس کا استعمال کیا جائے۔ ٹینن چائے کے تلخ اور خشک ذائقے کا باعث بننے والا جز ہے اور اس سے ہی نظام ہاضمہ متاثر ہوسکتا ہے جسے جی متلانے اور پیٹ میں درد جیسی شکایات ہوسکتی ہیں۔
سینے میں جلن
کیفین سے سینے میں جلن کی شکایت ہوسکتی ہے یا اس کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق کیفین سے شکم کے اس حصے کو سکون پہنچتا ہے جو غذائی نالی کو معدے سے الگ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں معدے میں موجود تیزابی سیال غذائی نالی میں اوپر چڑھ جاتا ہے اور سینے میں جلن کی شکایت ہوتی ہے۔ کیفین سے معدے میں تیزابیت بڑھنے کا بھی امکان ہوتا ہے اور ضروری نہیں چائے پینے سے سینے میں جلن کی شکایت ہو تاہم اگر اس گرم مشروب کو پینے کے بعد ایسا احساس ہوتا ہے تو اس کی مقدار میں کمی لانا ہی بہتر ہے۔
سردرد
ویسے تو کیفین کا استعمال سردرد کی شدت میں کمی لانے میں مدد دیتا ہے تاہم اس کی زیادہ مقدار سے اثر الٹ جاتا ہے۔ بہت زیادہ مقدار میں چائے پینے سے کیفین کی جو مقدار جزوبدن بنتی ہے وہ بار بار ابھرنے والے سردرد کا باعث بن سکتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق سو ملی گرام کیفین کا روزانہ استعمال بھی سردرد کا باعث بن سکتا ہے تاہم ہر ایک میں اس مقدار کا انحصار اس کی اپنی برداشت پر ہوتا ہے۔
چائے میں دیگر کیفین والے مشروبات کے مقابلے میں اس جز کی مقدار کم ہوتی ہے مگر اکثر اقسام کی چائے کے ایک کپ میں 60 ملی گرام کیفین جسم کو مل سکتی ہے۔
سر چکرانا
ویسے زیادہ چائے پینے سے سر چکرانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے مگر جن افراد کو اس کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ چائے کے ذریعے بہت زیادہ کیفین کا استعمال بنتا ہے۔
یعنی 6 سے 12 کپ روزانہ چائے پینے والے کچھ افراد کو سر چکرانے کا سامنا ہوسکتا ہے مگر اس حوالے سے حساس افراد میں کم مقدار بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔