نقطہ نظر

پاکستان اور ایڈز کا عفریت

ہمیں ایڈز سے متعلق لوگوں کے اذہان میں بیٹھے ہوئے فرسودہ تصورات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

رتودیرو کے تعلقہ ہسپتال میں واقع نیا اے آر ٹی (antiretroviral therapy) سینٹر اس پسماندہ تعلقے کا واحد ’نفیس‘ عوامی مقام ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ لاڑکانہ کے زیادہ تر تعلقوں میں ایسا کوئی عوامی مقام موجود ہی نہیں۔

اے آر ٹی سینٹر کے عملے کا کہنا ہے کہ مختلف عارضوں میں مبتلا مقامی افراد اکثر ہسپتال کی مرکزی عمارت کے بجائے اسی سینٹر کا رُخ کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ سینٹر مکمل طور پر فعال ہے اور انہیں یہ دیگر سہولیات سے عاری ہسپتالوں کے برعکس ’ٹی وی میں نظر آنے والے ہسپتالوں جیسا ہی نظر آتا ہے‘۔

عالمی ادارہ صحت، یو این ایڈز اور دیگر فلاحی تنظیموں کی جانب سے ملنے والے آئی سی ٹی (information technology communication) مواد کو سینٹر کی دیواروں پر آویزاں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سارا مواد انگریزی زبان میں ہے جو مقامیوں کی اکثریت کو سمجھ نہیں آتی۔ تاہم دیواروں پر آویزاں انفارمیشن مٹیریل نے سینٹر کو کسی حد تک چار چاند ضرور لگا دیے ہیں۔

اس تعلقے کے ایک مقامی شخص کہتے ہیں کہ ’سینٹر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لیاری (جیسے کسی علاقے) میں ایک فائیو اسٹار (ہوٹل جیسی) عمارت بنا دی گئی ہے‘۔ قریب ہی موجود دوسرا مقامی شخص شریکِ گفتگو ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ ’ہمارا شہر اب ‘ایچ آئی وی پازیٹو تعلقہ‘ پکارا جانے لگا ہے‘۔

صرف اس سینٹر کی وجہ سے ہی اس تعلقے کو ’ایچ آئی وی پازیٹو‘ تصور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ رواں سال اپریل کے مہینے میں جب یہ بات سامنے آئی کہ ایک ڈاکٹر استعمال شدہ ٹیکوں کے ذریعے درجنوں مریضوں میں اس انفیکشن کو پھیلا رہا ہے تب سے رتودیرو اور گرد و نواح کے دیہاتوں کے لوگ توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس معاملے کو میڈیا کی غیر معمولی توجہ حاصل ہونے کے باعث حکومتِ سندھ نے چند اقدامات کیے انہی میں سے ایک اے آر ٹی سینٹر کا قیام ہے۔

رتودیرو میں ایچ آئی وی اسکریننگ کیمپ میں ایک کلرک اپنے کام میں مصروف ہے—فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

لیکن یہ مسئلہ ایک ڈاکٹر کی مجرمانہ غفلت سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ معاملے کی چھان بین سے علاقے میں انفیکشن کنٹرول میں لاپروائیوں اور غیر محفوظ انتقالِ خون کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ اس مرض میں مبتلا ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے پاس علاج و معالجے کے لیے گئے ہی نہیں ہے۔

نومبر تک 19 لاکھ 37 ہزار 272 افراد کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا جاچکا ہے، جن میں سے 895 افراد میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی جاچکی ہے، جن میں اکثریت (754) بچوں کی ہے، جبکہ ایک ہزار 181 افراد ایسے ہیں جن پر ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کا شک ظاہر کیا گیا ہے۔

ہر کچھ دنوں بعد لاڑکانہ اور دیگر قریبی اضلاع سے کچھ لڑکے یہاں یہ دیکھنے آتے ہیں کہ ’ایچ آئی وی وارا‘ (ایچ آئی وی والے) کس طرح دکھتے ہیں۔ جبکہ چند تو ’ایچ آئی وی پازیٹو سے متاثر خاندانوں‘ کے گھروں تک بھی پہنچ جاتے ہیں کیونکہ متاثرین کے نام، پتے، ٹیسٹ کے نتائج جیسی تمام تر تفیصلات مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر ایک کی پہنچ میں ہے۔

ایچ آئی وی سے متاثرہ بچے کے والد نظیر حسین نے سوشل میڈیا پر رتودیرو میں ایچ آئی وی کے معاملے کو اٹھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ای او ایس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ بد سے بدتر ہوچکا ہے۔ دیگر لوگ بھلے ہی اے آر ٹی کو ایک فائیو اسٹار عمارت تصور کریں لیکن وہ اب بھی طبی سہولیات و انتظامات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ ان کی بیٹی کراچی میں ایک ڈاکٹر کے ہاں زیرِ علاج ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں دستیاب علاج معالجے کی سہولیات کا معیار مختلف ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہاں اے آر ویز مفت میں فراہم کی جاتی ہیں، لیکن بچے کی بہتر غذا، تعلیم اور صحبت کو یقینی کون بنائے گا؟‘

نظیر حسین کی بیٹی میں ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کی تصدیق 23 اپریل کے آس پاس ہوئی تھی، وہ تب سے ایچ آئی وی کے معاملے پر بھرپور انداز میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کی کمسن بیٹی کئی ماہ سے بیمار تھی اور اس کا علاج اسی ڈاکٹر سے کروایا گیا تھا جو خود بھی ایچ آئی وی کا شکار ہے اور اپنے کلینک پر آنے والے بچوں اور خواتین کو استعمال شدہ ٹیکے لگایا کرتا تھا۔

یہاں کی آبادی پاکستان کی غریب اور پسماندہ ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس علاقے میں ایچ آئی وی کا معاملہ منظرِ عام پر آنے سے پہلے مقامی لوگوں کی بہت کم تعداد نے ایچ آئی وی کے بارے میں سُن رکھا تھا اور مقامی باشندوں کی قلیل تعداد ہی یہ جانتی تھی کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

ایک خاتون کے خون کے نمونے لیے جا رہے ہیں—فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

رتودیرو کے ایچ آئی وی ’مثبت’ خاندان اور ان کے بچے

کرن* ہمیشہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر اے آر ٹی سینٹر کے اندر داخل ہوتی ہیں۔ پنو عاقل سے تعلق رکھنے والی یہ نوجوان خاتون اور ان کے 4 چھوٹے بچوں میں سے 2 ایچ وہ آئی پازیٹو ہیں اور اس وقت اسی سینٹر میں ان کا علاج چل رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ میرا اور میرے بچوں کے نام سب کے سامنے پکارے جائیں‘۔ سینٹر میں ان کے ساتھ آنے والے ان کے سسر نے ای او ایس کو بتایا کہ لوگ اب ہم سے رابطہ رکھنے سے کتراتے ہیں۔ علاقے میں موجود بچے اب میری ان 2 پوتیوں سے بھی کھیلنے سے انکار کردیتے ہیں جو ایچ آئی وی کا شکار نہیں ہیں۔

کرن کے شوہر بھی ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ وہ یہ وثوق سے نہیں بتاسکتیں کہ ان کے جسم میں وائرس کس طرح داخل ہوا۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ وائرس یا تو ان کے شوہر یا پھر بچے کی پیدائش کے دوران انتقالِ خون کے ذریعے ان کے جسم میں داخل ہوا ہے۔ کرن کو اپنی اور اپنے 2 بچوں کی حالت میں بہتری کی زیادہ امید نظر نہیں آتی۔ ان کے سُسر انہیں یہ کہتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ پر بھروسہ رکھو۔

مگر روشن مستقبل کو تصور کرنا بھی ان خاندانوں کے لیے آسان نہیں ہے۔ 7 سالہ ندا* کچھ عرصہ پہلے ہنستی کھیلتی اپنے اسکول جایا کرتی تھی۔ اسے اس حقیقت کا ذرا بھی علم نہیں تھا کہ اپنے والدین کی طرح وہ بھی ایچ آئی وی کا شکار ہے۔ پھر ایک دن اس کی ایک کزن نے اس کے اسکول کی ٹیچر اور چند طلبا کو بتایا کہ ندا کے والدین کو ایڈز ہے۔

ندا کی والدہ عقیلہ* کہتی ہیں کہ ’ہیڈ مسٹریس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے؟‘ عقیلہ جان گئی تھیں کہ ان کے مرض کی خبر پھیل جانے کی وجہ سے ان کی بیٹی کو اسکول میں ستایا جا رہا ہے اور اب ان کی بیٹی کے لیے اسکول کا ماحول ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے بڑے بچوں کو دوسرے شہر میں واقع اپنے والدین کے گھر بھیج دیا اور ندا کو گھر میں پڑھانا شروع کردیا۔

لاہور پریس کلب کے باہر خواجہ سرا ایڈز آگاہی مہم کے سلسلے میں ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے ہوئے ہیں—ایم عارف/وائٹ اسٹار

ایڈز اور غلط تصورات کی بہتات

مرد اور خواجہ سراؤں کے مسائل سے متعلق آگاہی پیدا کرنے والی ‘پِرھ میل ہیلتھ سوسائٹی‘ نامی سماجی تنظیم کی خواجہ سرا افسر سمرن کے اندازے کے مطابق ’ضلع لاڑکانہ میں قریب 1200 خواجہ سرا جسم فروشی کا کام کرتے ہیں اور ان میں سے 100 کو ایچ آئی وی پازیٹو کا مرض لاحق ہے‘۔

سمرن کے مطابق ایچ آئی وی سے متاثرہ مرد اپنے مرض کے بارے میں اپنے جنسی ساتھی کو نہیں بتاتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنی بیویوں اور اپنے پیار کرنے والوں کے ساتھ ہم بستر رہیں گے لیکن کچھ بولیں گے نہیں اور انہیں بھی وائرس کا شکار بنادیں گے‘۔

سمرن کے ساتھ موجود خواجہ سرا ملکہ بھی ایچ آئی وی پازیٹو سے متاثر ہیں۔ اس وقت یہ پِرھ تنظیم میں ملازمت کر رہی ہیں اور اس سے پہلے جسم فروشی کا کام اور ریوینیو محکمے میں ملازمت کرتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’2015ء میں ٹیسٹ کے ذریعے یہ تصدیق ہوئی کہ میں ایچ آئی وی کی شکار ہوں، اس وقت مجھے اس انفیکشن کی زیادہ سمجھ نہیں تھی اور مجھے لگا کہ جیسے اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا لیکن میں نے اس بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا‘۔ ایک عرصے تک مسلسل بیماری کا سامنا کرتے رہنے کے بعد انہوں نے بالآخر اے آر ویز لینا شروع کیں۔

سماجی کارکنوں کے مطابق جنسی عمل کے گرد خاموشی کا کلچر معاملات کو بد سے بدتر بنا رہا ہے اور یوں جسم فروشی کا کام کرنے والوں اور دیگر پسماندہ آبادیوں کے افراد دونوں میں انفیکشن کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے لیے کام کرنے والے حمزہ راؤ کہتے ہیں کہ ’پنجاب کے زیادہ تر حصوں میں مردوں کے درمیان جنسی تعلق ایک کھلے راز کی طرح ہے‘۔

شہر کی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو کی بنیاد پر وہ یہ مانتے ہیں کہ مردوں کے درمیان انجان افراد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے اس گروہ میں جنسی تعلق سے منتقل ہونے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ڈیٹنگ اور اسمارٹ فونز کی مختلف ایپس کے ذریعے جنسی ساتھی تلاش کرنے کا ایسا کلچر فروغ پا رہا ہے جو پوری طرح سے محفوظ نہیں ہے۔ اس وجہ سے کئی زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں اور خاموشی کی پالیسی اپنانے سے بہت سے انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے‘۔

سماجی کارکن اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں ایچ آئی وی کے شکار افراد کو اپنی بیماری پر لب کشائی کرنے پر انہیں کسی قسم کی پریشانی یا دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

عالمی یوم ایڈز کے موقعے پر دی مال کے مقام پر منعقدہ ایڈز آگاہی واک میں شامل شرکا—ایم عارف/وائٹ اسٹار

قومی ردِعمل

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کے سربراہ ڈاکٹر بصیر اچکزئی کے مطابق ان کا پروگرام اہم آبادیوں تک اچھی خاصی رسائی رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فی الحال ایچ آئی وی ہائی رسک گروہ تک ہی محدود ہے‘، لیکن ان کے مطابق میڈیا ان کے پروگرام اور آگہی کو پھیلانے میں ان کی مدد کے لیے زیادہ سنجیدہ نہیں ہے'۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے قریب 30 ممتاز اینکروں، صحافیوں اور میڈیا کی مختلف شخصیات سے درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے شوز پر ایچ آئی وی پر بات کریں۔ لیکن صرف 2 سے 3 اینکروں نے اس مرض پر 2 منٹ بات کی جبکہ دیگر میں سے کسی نے بھی اس حوالے سے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی‘۔

این اے سی پی فنڈز کی کمی کا شکار ہے جبکہ قومی سطح پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مہمات چلانے کے لیے لاکھوں روپے چاہئیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اچکزئی کہتے ہیں کہ ’اخبار میں آدھے صفحے کا اشتہار شائع کروانے میں 13 سے 15 لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں جبکہ ٹی وی پر اشتہارات تو اس سے بھی کہیں زیادہ مہنگے پڑتے ہیں‘۔

ہر چند ماہ بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی ان کی ٹیم اور ان پر ’مناسب اقدامات نہ اٹھانے پر‘ سوالات کی بوچھاڑ کرتی ہے، لیکن زیادہ اقدامات اٹھانے کے لیے ان کے پاس مطلوبہ بجٹ ہی نہیں ہے۔ این اے سی پی کے سربراہ کے مطابق آپریشن اور علاج معالجے میں معاونت کے لیے 26 کروڑ ڈالرز درکار ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس وقت پروگرام کے پاس علاج معالجے کے 40 مراکز ہیں جن کی تعداد 80 تک بڑھانا ہوگی تاکہ لوگوں کو بہتر علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے‘۔

انفیکشن کے پھیلاؤ پر ضابطہ بنانے سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ہسپتال کا کوڑا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن اسے حل کرنا صحت حکام کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ایسا طبی نظام درکار ہے جہاں ایچ آئی وی ٹیسٹ کو روٹین چیک اپ کا حصہ بنایا جاسکے اور ساتھ ساتھ ہمیں اس بیماری سے متعلق لوگوں کے اذہان میں بیٹھے ہوئے فرسودہ تصورات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

این اے سی پی نے پیری ایکسپوزر پروفیلیکسس (پی آر ای پی) بھی متعارف کرایا ہے جس کے تحت اینٹی وائرل دوائیں ہائی رسک گروپس میں شامل ان لوگوں کو دی جاتی ہیں جو ابھی تک اس وائرس کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اچکزئی کے مطابق حکومت کو opiate substitution therapy) OST) کی اجازت دینی چاہیے۔ تاہم بقول ڈاکٹر اچکزئی ’قانون نافذ کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ او ایس ٹی کی اجازت دینے سے ملک میں ایک نئے قسم کی منشیات متعارف ہوجائے گی‘۔


*شناخت کو محفوظ بنانے کے لیے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


یہ مضمون یکم دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: SumairaJajja@

سمیرا ججہ

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: SumairaJajja@

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں:

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔