مشن ایکسٹینشن: 3 روزہ کارروائی کے دوران میں نے سپریم کورٹ میں کیا کچھ دیکھا؟
’لارا برینن‘ ایک دفتر میں ملازمہ ہے۔ ایک دن اس خاتون کو اپنے باس کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ مقدمہ چلتا ہے اور عدالت اسے عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے۔ لارا کے مطابق اسے جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا ہے۔ سزا کے خلاف اپیل خارج ہونے پر وہ مایوس ہوکر خودکشی کی کوشش کرتی ہے لیکن بچ جاتی ہے۔ لارا کا شوہر ’جان‘ اسے جیل سے باہر نکالنے کی منصوبہ بندی شروع کردیتا ہے۔ ایک دن اسے معلوم ہوتا ہے کہ جیل انتظامیہ نے لارا کو بیماری کے باعث ایک ہسپتال میں داخل کرادیا ہے، پھر جان 3 دن کا ایک ایمرجنسی پلان تیار کرتا ہے اور اسی منصوبے پر چلتے ہوئے وہ لارا کو ہسپتال سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور یہ دونوں اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے ملک فرار ہوجاتے ہیں۔ اس فلم کا نام ’نیکسٹ تھری ڈیز‘ ہے جس میں جان کا کردار معروف اداکار رسل کرو نے نبھایا ہے جبکہ لارا خوبصورت اداکارہ الزبیتھ بینکس بنتی ہیں۔
ویسے تو میرے اس مضمون کا اس فلم سے کوئی لینا دینا نہیں، البتہ تعلق صرف 3 دن یا مقدمے کا ہی بن سکتا ہے۔ مجھے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے مقدمے پر کچھ لکھتے جب ذہن میں آیا کہ یہ مقدمہ 3 دن کا تھا تو یہ فلم ذہن میں آگئی لہٰذا ذکر چھیڑ دیا۔
25 نومبر رات 10 بجے مجھے اپنے ادارے سے فون آیا کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیے جانے کی کوئی خبر ہے کیا؟ میں نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی درخواست نہ صرف دائر ہوئی ہے بلکہ کل یعنی 26 نومبر کو چیف جسٹس اپنی سربراہی میں قائم 3 رُکنی بینچ میں اس درخواست پر سماعت کر رہے ہیں۔
اب اس بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں کہ درخواست 24 نومبر کو خاموشی سے سپریم کورٹ میں دائر ہوئی یا کسی نے جان بوجھ کر خبر نہیں چلائی یا چل نہیں پائی؟
25 نومبر کو درخواست منظور ہوئی اور 26 نومبر کو پہلی سماعت کے ساتھ عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا جو 3 دنوں تک جاری رہی۔ اس مقدمے نے 3 دن تک ملک میں ہیجان برپا کیے رکھا جسے چیف جسٹس نے خود تسلیم کیا۔ مگر ان 3 دنوں کی کارروائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟ اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں، اگر نہیں بھی کریں تو بھی خیر ہی ہے کیونکہ 3 دنوں کے سفر کا اختتام اسی نُکتے سے ہوا جہاں سے شروع ہوا۔
سپریم کورٹ کے عدالتی کمروں، راہداریوں اور ان تمام کونوں سے تو اچھی طرح واقفیت ہے جہاں موبائل سگنل پکڑتے ہیں، لیکن یہ درخواست، درخواست گزار اور اس کے بعد شروع ہونے والی کارروائی ایسی تھی جس سے ہم ناواقف تھے۔
پھر اس کارروائی میں حکومت کا بار بار بدلتا مؤقف دیکھ کر یوں لگا جیسے وزیرِاعظم ہاؤس سے متعارف ہوا یوٹرن اب اٹارنی جنرل آفس تک پہنچ گیا ہو۔
ان 3 دنوں میں حکومت اور اس کے ماتحت وزارتِ دفاع ایسی آزمائش میں تھے گویا کہ ایک طرف آگ تو دوسری طرف پانی تھا۔ ہم نے ان 3 دنوں میں بااختیار حکومت کی ساری اتھارٹی کو منہ لٹکائے دیکھا۔ اختیارات ہونے کے باوجود سلیقہ اور طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو یہ ساری ہزیمت اٹھانا پڑی، اور خود کو ایک چکر ویو میں پھنسا دیا۔
لیکن اس سہہ روزہ کارروائی سے اگر کسی نے خوب لطف اٹھایا تو وہ میڈیا ہی تھا کہ بیچنے کے لیے اب ان کے پاس خبروں کا بہت سا اسٹاک جمع ہوگیا تھا۔ 3 دنوں میں ہر لمحے، ہر پل معزز ججوں کی آبزرویشنز، ریمارکس، حکومت کا مؤقف، اٹارنی جنرل کے دلائل، عدالت کے سوالات پھر ان کے جوابات، عدالت کی طرف سے مانگی جانے والی دستاویزات، پھر پیش کی جانے والی دستاویزات، مطلب ہر پل ایک نئی خبر تھی، اور یہ خبریں وہی تھیں جو ایک دن پہلے بندش کا شکار تھیں، جن پر سینسرشپ تھی۔ عام دنوں میں ایسی خبریں چلانے پر سب کے پَر جلتے ہیں، یہ وہی خبریں کہ بقول غالب ’بات پر واں زبان کٹتی ہے‘۔
26 تا 28 نومبر عدالتِ عظمیٰ کے اندر اور باہر ہمارے آگے بہت کچھ عیاں اور بہت کچھ پوشیدہ رہا۔ ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ میں کسی آرمی چیف کا یہ پہلا مقدمہ تھا، اس رینک کے فوجی افسران کے مقدمات پہلے بھی اسی عدالت میں چلے ہیں لیکن یہ کسی فوجی سربراہ کے عہدے سے متعلق اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ تھا جو سوالات میں گِھرا رہا۔
پہلے کون سے مقدمے چلے؟
چلیے، اس سوال کا جواب ابھی دیے دیتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات کو اسی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا، اسی سپریم کورٹ نے ان کو وردی میں رہ کر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دی کہ اس کا نتیجہ عدالتی فیصلے سے مشروط ہوگا۔
اسی عدالت میں چیف جسٹس کے خلاف جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا، ایسا کرنے والے تمام جج صاحبان وہی تھے جو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ پی سی او پر حلف لے چکے تھے۔ ان 2 مقدمات سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو اصغر خان کیس میں فریق بنایا گیا تھا، اسی عدالت نے ان سے بیانِ حلفی بھی لیا تھا۔
3 دنوں کا مقدمہ
چلیے اب لوٹتے ہیں 3 دنوں والے مقدمے کی طرف۔ اکثر و بیشتر اس قسم کی درخواستیں رجسٹرار آفس میں ہی اعتراضات لگنے کے بعد واپس ہوجاتی ہیں۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ چیف صاحب شاید اس درخواست کو اس آبزرویشن کے ساتھ نمٹا دیں کہ ہم انتظامی معاملات میں کیوں پڑیں، اور انہوں نے اب تک اس حکومت کی آمد کے بعد سے یہی راہ اپنائی ہوئی ہے۔ لیکن مقدمہ لگا تو سب اُلٹ پلٹ معلوم ہوا۔
پہلے سب کو حیرانی ہوئی اور حکومت کو پریشانی۔ بعدازاں جب حتمی فیصلہ آیا تو اسے سمجھنے کے لیے علیحدہ علیحدہ تشریحات نکالی جانے لگیں۔ یہ مقدمہ منفرد ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی تھا کیونکہ جو شخص یہ سوال لیکر عدالتِ عظمیٰ کے پاس پہنچا تھا اس نے بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن بقول شاعر، اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔
چیف جسٹس نے خود آخری دن یہ فرمایا کہ ہمارے پاس بھی ایک راہی آیا تھا جس کو ہم نے جانے نہیں دیا۔ اب راہی صاحب خود عدالت آئے یا ان کو کسی نے دھکا دیا تھا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
کسی نے اس درخواست گزار کو عادی درخواستیے کا نام دیا، ویسے اس میں شک بھی نہیں۔ یہ ان کی پہلی درخواست نہیں، بلکہ اس طرح کی کارروائیوں کی ان کی پوری تاریخ ہے۔
میاں نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست، میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تعیناتی کے خلاف درخواست، افتخار چوہدری کی سرکاری گاڑی کی واپسی سے متعلق درخواست اور کئی درخواستں انہوں نے مختلف عدالتوں میں دائر کر رکھیں ہیں۔ تاہم اگر انہیں اس درخواست کے نتائج سے متعلق علم ہوتا تو شاید وہ درخواست جمع کرانے کی زحمت ہی نہ کرتے۔ درخواست منظور ہونے کے دوسرے دن جب بات سمجھ میں آئی تو عدالت تک پہنچے لیکن عدالتی کمرے تک آنے کی جرات نہیں کرسکے۔
اس طرح کے بڑے، منفرد اور بھاری بھرکم مقدمات کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں تو گھر یا آفس سے نکل کر سپریم کورٹ تک پہنچنا ’آگ کا دریا اور ڈوب کر جانا ہے‘ جیسا ہوتا ہے، کیونکہ پہلے اسکول ٹائم پر سڑکوں پر ٹریفک جام سے اپنا راستہ نکالنا، پھر سپریم کورٹ کے اندر داخل ہونے کا مشکل مرحلہ اور عدالت کی پارکنگ میں جگہ کا حصول کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ جج صاحبان کی آبزرویشنز اور وکلا حضرات کے دلائل سننے کے لیے اسپیکر کے نزدیک بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی جگہ کی تگ و دو بھی کرنی پڑتی ہے۔