نقطہ نظر

مشن ایکسٹینشن: 3 روزہ کارروائی کے دوران میں نے سپریم کورٹ میں کیا کچھ دیکھا؟

جب چیف جسٹس آرڈر لکھواتے ہوئے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد روکے جانے سےمتعلق جملےپر پہنچے تو عدالتی کمرے میں جیسے بھونچال آگیا

’لارا برینن‘ ایک دفتر میں ملازمہ ہے۔ ایک دن اس خاتون کو اپنے باس کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ مقدمہ چلتا ہے اور عدالت اسے عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے۔ لارا کے مطابق اسے جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا ہے۔ سزا کے خلاف اپیل خارج ہونے پر وہ مایوس ہوکر خودکشی کی کوشش کرتی ہے لیکن بچ جاتی ہے۔ لارا کا شوہر ’جان‘ اسے جیل سے باہر نکالنے کی منصوبہ بندی شروع کردیتا ہے۔ ایک دن اسے معلوم ہوتا ہے کہ جیل انتظامیہ نے لارا کو بیماری کے باعث ایک ہسپتال میں داخل کرادیا ہے، پھر جان 3 دن کا ایک ایمرجنسی پلان تیار کرتا ہے اور اسی منصوبے پر چلتے ہوئے وہ لارا کو ہسپتال سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور یہ دونوں اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے ملک فرار ہوجاتے ہیں۔ اس فلم کا نام ’نیکسٹ تھری ڈیز‘ ہے جس میں جان کا کردار معروف اداکار رسل کرو نے نبھایا ہے جبکہ لارا خوبصورت اداکارہ الزبیتھ بینکس بنتی ہیں۔

ویسے تو میرے اس مضمون کا اس فلم سے کوئی لینا دینا نہیں، البتہ تعلق صرف 3 دن یا مقدمے کا ہی بن سکتا ہے۔ مجھے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے مقدمے پر کچھ لکھتے جب ذہن میں آیا کہ یہ مقدمہ 3 دن کا تھا تو یہ فلم ذہن میں آگئی لہٰذا ذکر چھیڑ دیا۔

25 نومبر رات 10 بجے مجھے اپنے ادارے سے فون آیا کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیے جانے کی کوئی خبر ہے کیا؟ میں نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی درخواست نہ صرف دائر ہوئی ہے بلکہ کل یعنی 26 نومبر کو چیف جسٹس اپنی سربراہی میں قائم 3 رُکنی بینچ میں اس درخواست پر سماعت کر رہے ہیں۔

اب اس بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں کہ درخواست 24 نومبر کو خاموشی سے سپریم کورٹ میں دائر ہوئی یا کسی نے جان بوجھ کر خبر نہیں چلائی یا چل نہیں پائی؟

25 نومبر کو درخواست منظور ہوئی اور 26 نومبر کو پہلی سماعت کے ساتھ عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا جو 3 دنوں تک جاری رہی۔ اس مقدمے نے 3 دن تک ملک میں ہیجان برپا کیے رکھا جسے چیف جسٹس نے خود تسلیم کیا۔ مگر ان 3 دنوں کی کارروائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟ اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں، اگر نہیں بھی کریں تو بھی خیر ہی ہے کیونکہ 3 دنوں کے سفر کا اختتام اسی نُکتے سے ہوا جہاں سے شروع ہوا۔

سپریم کورٹ کے عدالتی کمروں، راہداریوں اور ان تمام کونوں سے تو اچھی طرح واقفیت ہے جہاں موبائل سگنل پکڑتے ہیں، لیکن یہ درخواست، درخواست گزار اور اس کے بعد شروع ہونے والی کارروائی ایسی تھی جس سے ہم ناواقف تھے۔

پھر اس کارروائی میں حکومت کا بار بار بدلتا مؤقف دیکھ کر یوں لگا جیسے وزیرِاعظم ہاؤس سے متعارف ہوا یوٹرن اب اٹارنی جنرل آفس تک پہنچ گیا ہو۔

ان 3 دنوں میں حکومت اور اس کے ماتحت وزارتِ دفاع ایسی آزمائش میں تھے گویا کہ ایک طرف آگ تو دوسری طرف پانی تھا۔ ہم نے ان 3 دنوں میں بااختیار حکومت کی ساری اتھارٹی کو منہ لٹکائے دیکھا۔ اختیارات ہونے کے باوجود سلیقہ اور طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو یہ ساری ہزیمت اٹھانا پڑی، اور خود کو ایک چکر ویو میں پھنسا دیا۔

لیکن اس سہہ روزہ کارروائی سے اگر کسی نے خوب لطف اٹھایا تو وہ میڈیا ہی تھا کہ بیچنے کے لیے اب ان کے پاس خبروں کا بہت سا اسٹاک جمع ہوگیا تھا۔ 3 دنوں میں ہر لمحے، ہر پل معزز ججوں کی آبزرویشنز، ریمارکس، حکومت کا مؤقف، اٹارنی جنرل کے دلائل، عدالت کے سوالات پھر ان کے جوابات، عدالت کی طرف سے مانگی جانے والی دستاویزات، پھر پیش کی جانے والی دستاویزات، مطلب ہر پل ایک نئی خبر تھی، اور یہ خبریں وہی تھیں جو ایک دن پہلے بندش کا شکار تھیں، جن پر سینسرشپ تھی۔ عام دنوں میں ایسی خبریں چلانے پر سب کے پَر جلتے ہیں، یہ وہی خبریں کہ بقول غالب ’بات پر واں زبان کٹتی ہے‘۔

26 تا 28 نومبر عدالتِ عظمیٰ کے اندر اور باہر ہمارے آگے بہت کچھ عیاں اور بہت کچھ پوشیدہ رہا۔ ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ میں کسی آرمی چیف کا یہ پہلا مقدمہ تھا، اس رینک کے فوجی افسران کے مقدمات پہلے بھی اسی عدالت میں چلے ہیں لیکن یہ کسی فوجی سربراہ کے عہدے سے متعلق اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ تھا جو سوالات میں گِھرا رہا۔

پہلے کون سے مقدمے چلے؟

چلیے، اس سوال کا جواب ابھی دیے دیتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات کو اسی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا، اسی سپریم کورٹ نے ان کو وردی میں رہ کر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دی کہ اس کا نتیجہ عدالتی فیصلے سے مشروط ہوگا۔

اسی عدالت میں چیف جسٹس کے خلاف جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا، ایسا کرنے والے تمام جج صاحبان وہی تھے جو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ پی سی او پر حلف لے چکے تھے۔ ان 2 مقدمات سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو اصغر خان کیس میں فریق بنایا گیا تھا، اسی عدالت نے ان سے بیانِ حلفی بھی لیا تھا۔

3 دنوں کا مقدمہ

چلیے اب لوٹتے ہیں 3 دنوں والے مقدمے کی طرف۔ اکثر و بیشتر اس قسم کی درخواستیں رجسٹرار آفس میں ہی اعتراضات لگنے کے بعد واپس ہوجاتی ہیں۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ چیف صاحب شاید اس درخواست کو اس آبزرویشن کے ساتھ نمٹا دیں کہ ہم انتظامی معاملات میں کیوں پڑیں، اور انہوں نے اب تک اس حکومت کی آمد کے بعد سے یہی راہ اپنائی ہوئی ہے۔ لیکن مقدمہ لگا تو سب اُلٹ پلٹ معلوم ہوا۔

پہلے سب کو حیرانی ہوئی اور حکومت کو پریشانی۔ بعدازاں جب حتمی فیصلہ آیا تو اسے سمجھنے کے لیے علیحدہ علیحدہ تشریحات نکالی جانے لگیں۔ یہ مقدمہ منفرد ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی تھا کیونکہ جو شخص یہ سوال لیکر عدالتِ عظمیٰ کے پاس پہنچا تھا اس نے بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن بقول شاعر، اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔

چیف جسٹس نے خود آخری دن یہ فرمایا کہ ہمارے پاس بھی ایک راہی آیا تھا جس کو ہم نے جانے نہیں دیا۔ اب راہی صاحب خود عدالت آئے یا ان کو کسی نے دھکا دیا تھا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

کسی نے اس درخواست گزار کو عادی درخواستیے کا نام دیا، ویسے اس میں شک بھی نہیں۔ یہ ان کی پہلی درخواست نہیں، بلکہ اس طرح کی کارروائیوں کی ان کی پوری تاریخ ہے۔

میاں نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست، میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تعیناتی کے خلاف درخواست، افتخار چوہدری کی سرکاری گاڑی کی واپسی سے متعلق درخواست اور کئی درخواستں انہوں نے مختلف عدالتوں میں دائر کر رکھیں ہیں۔ تاہم اگر انہیں اس درخواست کے نتائج سے متعلق علم ہوتا تو شاید وہ درخواست جمع کرانے کی زحمت ہی نہ کرتے۔ درخواست منظور ہونے کے دوسرے دن جب بات سمجھ میں آئی تو عدالت تک پہنچے لیکن عدالتی کمرے تک آنے کی جرات نہیں کرسکے۔

اس طرح کے بڑے، منفرد اور بھاری بھرکم مقدمات کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں تو گھر یا آفس سے نکل کر سپریم کورٹ تک پہنچنا ’آگ کا دریا اور ڈوب کر جانا ہے‘ جیسا ہوتا ہے، کیونکہ پہلے اسکول ٹائم پر سڑکوں پر ٹریفک جام سے اپنا راستہ نکالنا، پھر سپریم کورٹ کے اندر داخل ہونے کا مشکل مرحلہ اور عدالت کی پارکنگ میں جگہ کا حصول کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ جج صاحبان کی آبزرویشنز اور وکلا حضرات کے دلائل سننے کے لیے اسپیکر کے نزدیک بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی جگہ کی تگ و دو بھی کرنی پڑتی ہے۔

جب میں سپریم کورٹ کی پارکنگ میں پہنچا تو مجھے پہلے ٹریفک سارجنٹ نے آگے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ میں آگے گیا تو وہاں ایک اور سارجنٹ نے مزید آگے جانے کا کہہ کر اپنے سر کا بوجھ ہلکا کردیا۔ جب آخری سارجنٹ کے پاس پہنچا تو وہاں گاڑی پارک کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، بلکہ گاڑی پیچھے کرنے کا بھی راستہ بند ہوچکا تھا، ایسے میں بندہ بشر جائے تو جائے کدھر؟

اب یہ ناچیز پہلے والے سارجنٹ کو کوسنے لگتا ہے کہ کہاں پھنسا دیا؟ کافی انتظار کے بعد گاڑی کہیں نہ کہیں چھوڑ کر میں نے کورٹ روم کی طرف دوڑ لگادی اور عدالتی کمرے میں اسپیکر کے نزدیک بیٹھ بھی گیا لیکن میرا ذہن اب بھی پارکنگ میں گھوم رہا تھا کہ گاڑی کو اچھی جگہ نہیں ملی کوئی اناڑی مار بھی سکتا ہے اور ایک نئی مصیبت گلے پڑجائے گی۔

میں کورٹ روم میں اس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں سے ججز اور اٹارنی جنرل کو باآسانی سنا جاسکتا تھا۔ میری پوری توجہ عدالتی کارروائی پر مرکوز تھی اور کان اٹارنی جنرل اور جج صاحبان پر دھرے تھے کہ کوئی جملہ، ریمارکس، دلیل میری سماعتوں کو بائے پاس نہ کرجائے۔

تاہم اب بھی میرا دماغ پارکنگ ایریا کے چکر کاٹ رہا تھا۔ پہلے سوچا کہ چونکہ درخواست واپس لیے جانے کی درخواست آگئی ہے سو اب مقدمہ بھی نِمٹ چکا، میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ جلدی جلدی کار پارکنگ میں جاؤں گا گاڑی کسی درست جگہ کھڑی کروں گا، لیکن یہاں تو ’سِین‘ ہی کچھ اور تھا۔

درخواست خارج کیے جانے کے سارے امکانات ابتدائی لمحات میں ہی دم توڑ گئے۔ درخواست گزار خود پیش نہیں ہوئے، پھر مقدمہ واپس لینے کی آدھی اَدھوری درخواست آئی، بندہ عدالتی احاطے میں موجود ہونے کے باوجود کمرہ نمبر ایک سے دُور دُور رہا اور عدالت نے درخواست واپس لینے والے کی درخواست خارج کردی۔

یہ اتفاق تھا یا حادثہ جو بھی ہو اس مقدمے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ اہم تھی تو وہ اس کی ٹائمنگ تھی۔ اگر اس مقدمے کا فیصلہ ایک دن کے لیے محفوظ ہوجاتا تو کیا ہوتا؟ پھر کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوجاتی، باقی خوف کے تاثر کو میں نہیں مانتا۔ ’ادارے اہم ہوتے ہیں افراد نہیں، یہ تو وزیرِاعظم خود ہی جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے موقع پر کہہ چکے ہیں‘۔ جب وزیرِاعظم، نیب چئرمین اور باقی آئینی عہدیداروں کو عدالت یک جنبش قلم سے ہٹاتی ہے تو کون سے بحران پیدا ہوتے ہیں؟ معاملات چل جاتے ہیں کیونکہ آئین موجود ہے۔

اس مقدمے میں اٹارنی جنرل کو باقاعدہ نوٹس بھی نہیں ملا تھا، لیکن ان کی نہ صرف عدالت آمد ہوئی بلکہ پیش بھی ہوئے اور انہوں نے نوٹس نہ ہونے کی شکایت بھی نہیں کی، نا ہی عدالت سے وقت طلب کیا۔

حسنِ اتفاق دیکھیے کہ اٹارنی جنرل کے پاس وزارتِ دفاع کی ایکسٹینشن کی سمری، نوٹیفیکیشن اور ضروری کاغذات بھی موجود تھے، ویسے تو یہی اٹارنی جنرل صاحب کئی مقدمات میں نوٹس نہ ملنے کا شکوہ کرتے رہے ہیں، اور پھر عدالت سے تیاری کا وقت الگ لیتے رہے ہیں۔ مگر یہ مقدمہ پہلے دن سے ’وقت کم مقابلہ سخت‘ جیسی صورتحال کے ساتھ چلنا شروع ہوا۔

عدالتی کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جسٹس کھوسہ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد عام طور پر اس کمرے میں اتنا رش نہیں ہوتا کیوںکہ وہ اکثر فوجداری مقدمات کی اپیلیں سنتے رہے ہیں۔ سیاسی نوعیت کے مقدمات میں اپنے پیشروؤں کی طرح وہ اتنی زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے اور ازخود نوٹس تو ایک بھی نہیں لیا، ورنہ یہ وہی کمرہ ہے جہاں افسران اور سیاستدانوں کی لائینں لگا کرتی تھیں۔ جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار تو باقی مقدمات چھوڑ کر ایسے مقدمات اپنے آگے رکھتے تھے جن میں سے خبریں نکل سکیں۔

تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کئی دنوں کے بعد عدالتی کمرے نمبر ایک میں رونق نظر آئی تھی۔ اب کی بار کئی لوگ اس کمرے میں آئے تھے، ایک بندہ وہ ٹکرایا جس نے اپنی خواہش کو خبر بنانے کے چکر میں مجھے 2 دن پہلے ہی فیصلہ سنا دیا۔ عدالت میں فیصلے سے پہلے فیصلے دینے کے عادی وکیل و صحافی بھی موجود تھے۔

پہلی سماعت پر جب چیف جسٹس آرڈر لکھواتے ہوئے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد روکے جانے سے متعلق جملے پر پہنچے تو عدالتی کمرے میں جیسے بھونچال آگیا۔ کمرے سے صرف ٹی وی رپورٹرز ہی بریکنگ نیوز کے چکر میں نہیں بھاگے بلکہ وہاں بیٹھے متعدد دیگر لوگوں کی دوڑیں بھی لگیں۔ باہر نکلتے میں نے کئی لوگوں کو اپنے اپنے باسز کو رپورٹس دیتے دیکھا اور سُنا، یہ بہت بڑا آرڈر تھا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ آرڈر 2 دن کے لیے ہی تھا لیکن اس آرڈر کی توقع کوئی کرے تو کیسے کرے؟

یہ آرڈر اٹارنی جنرل کے لیے بھی کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ آفٹر شاکس ابھی بھی محسوس کر رہے ہوں لیکن نوٹیفیکیشن کی معطلی کی خاطر خاصا سامان بھی تو اٹارنی جنرل صاحب نے خود عدالت کو مہیا کیا تھا۔ وہ کسی قانون یا ریگولیشن سے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کسی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

وہ بار بار عدالت کو وفاقی حکومت کی صوابدید کا قصہ سُنا کر مطمئنن کرنا چاہتے تھے لیکن وفاقی حکومت کے اس صوابدید کے پیچھے کسی قانون کی پُشت پناہی نہیں تھی۔

رٹائرڈ کیپٹن انور منصور کون ہیں؟

رٹائرڈ کیپٹن انور منصور کا شمار سندھ اور پاکستان کے ممتاز وکلا میں ہوتا ہے۔ وہ 1971ء میں جنرل نیازی کے کمانڈ میں کام کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار اور جنگی قیدی بنے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل اور پیپلز پارٹی کے دور میں اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں۔ پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں بچانے کی ذمہ داری پہلے انہی کے کاندھوں پر تھی لیکن جب مقدمہ درست نہیں لڑسکے تو ان کو ہٹا کر فروغ نسیم کو ان کی جگہ پر لگا دیا گیا اور وہ کافی کچھ ریلیف لے گئے۔

فوجی سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے مقدمے میں اٹارنی جنرل کو ایک غیر قانونی، غیر آئینی نوٹیفیکیشن کو درست قرار دینے کے لیے دلائل دیتے دیکھا تو مجھے وہ انور منصور یاد آگئے جنہوں نے این آر او کے خلاف کیس میں عدالت کو اٹارنی جنرل کی حیثیت میں کہہ دیا کہ این آر او غلط اور غیر آئینی ہے۔ وہ انور منصور اس اقتداری مکس پلیٹ میں کہاں غائب ہوچکے ہیں اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔ انور منصور شاید ضمیر اور مقتدر حلقوں کے دباؤ کا شکار رہے لیکن عدالت کو سچ بتانے سے بھی قاصر رہے کہ جن آئینی شقوں اور قوانین کی بات آپ کر رہے ہیں ان سے چھیڑ چھاڑ ممنوع ہے۔

ریٹائرڈ کیپٹن انور منصور خان

ایکسٹینشن کا یہ نوٹیفیکیشن 26 نومبر کو معطل ہوا اور اسی آرڈر میں آرمی چیف کو بھی نوٹس جاری ہوا۔ اس آئینی درخواست کا نمبر 39 تھا۔ سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو جو نوٹس جاری کیا اس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام چھٹے نمبر پر تھا جبکہ پہلے نمبر پر درخواست گزار یعنی چیئرمین جیورسٹ فاؤنڈیشن، پھر اٹارنی جنرل، اس کے بعد سیکرٹری دفاع، چوتھے نمبر پر وزیرِاعظم پاکستان اور پانچویں نمبر صدرِ پاکستان کا نام درج ہے۔

نوٹس میں لکھا گیا کہ آپ مقررہ تاریخ کو وکیل کے ذریعے یا خود مقدمے کی تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوں، اگر دستاویزات داخل کروانی ہیں تو پہلے کروادیں، مقدمے میں التوا کی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔ نوٹس میں فریقین کو اپنے ساتھ اصلی شناختی کارڈ لانے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

ان 3 دنوں میں ہم جیسے رپورٹرز کو دیکھنے سننے اور مشاہدہ کرنے کو تو کافی کچھ ملا لیکن اقتدار کے ایوانوں کے در دروازے ہلتے اور دہلتے رہے۔ پہلے 2 دن تک عدلیہ کی آزادی، جرأت اور ہمت کو بھی سلامی ملتی رہی، 2 دن اسی عدالت میں پریشانِ حال وزیر، معاونین اور مشیران شاید یہ سوچ رہے تھے چیف جسٹس صرف یہ بولتے ہی نہیں کرکے بھی دکھاتے ہیں کہ قانون طاقتور لوگوں کے لیے الگ نہیں ہوتا ہمارے سامنے سب ایک جیسے ہیں۔

2 دن تک اس مقدمے کا رخ ایک طرف تھا لیکن تیسرے دن اس کا رخ کہیں اور ہی مُڑ گیا۔ اٹارنی جنرل کا سارا زور روایات پر تھا، ایسی روایات جن کو توڑنا کم از کم اٹارنی جنرل یا سول حکومت کے بس کی بات ہی نہیں۔ وہ بار بار کہہ بھی رہے تھے کی ایکسٹینشن کا کوئی قانون نہیں۔

پہلے دن کی سماعت کے بعد حکومت اگلے دن کی تیاری میں جُٹ گئی۔ رات گئے تک اعلیٰ دماغ اور حکومتی اکابرین نوٹیفیکیشن کو درست ثابت کرنے کی مشق کرتے رہے۔ پھر دوسرے دن لیگل ٹیم جب نئی سمری اور نئے نوٹیفیکیشن کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو انہیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا کیونکہ چیف جسٹس کو اس سے پہلے 4 فوجداری مقدمات کو نمٹانا تھا۔

جب اس کیس کی باری آئی تو عدالت نے وہی پہلے دن والے ہی سوالات اٹھائے کہ قانون بتائیے، کس قانون کے تحت مدت میں توسیع چاہتے ہیں؟ حالانکہ حکومت تو ریگولیشنز میں ترمیم کرکے لائی تھی لیکن جج صاحبان نے کہا یہ ریگولیشنز وفاقی حکومت کے لیے نہیں ہیں یہ تو آرمی چیف کے لیے ہیں کہ وہ کسی کو ایکسٹینشن دے سکتے ہیں۔

پھر سوال یہ بھی ہوا کہ کیا آرمی چیف خود کو مدت ملازمت میں توسیع دے سکتا ہے؟ دوسری طرف اٹارنی جنرل وضاحتوں پر وضاحتیں دیے جارہے تھے کہ جی صاحب، یہ پھر وہ، چونکہ، چنانچہ، لیکن عدالت کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔

اس مقدمے کو سننے کے لیے مقامی صحافی ہی نہیں غیر ملکی صحافی، فوٹو گرافر، سیاسی کارکنان، چھوٹے موٹے سیاستدان، حکومتی وزرا، سول سوسائٹی کے نمائندے، مختلف سفارتخانوں کے نمائندے بھی موجود تھے اور سب کے سب اس اضطراب میں مبتلا تھے کہ آخر ہونے کیا جا رہا ہے؟

عدالت میں جب وقفہ ہوتا تو حکومتی لیگل ٹیم کے ممبران کو صحافی گھیر لیتے لیکن ان کے پاس دینے کے لیے کوئی جواب نہیں ہوتا، جب ججز کے سوالوں پر وہ اطمینان بخش جواب نہیں دے رہے تھے تو صحافیوں کو بتانے کے لیے ان کے پاس کیا ہونا تھا؟

مجھے عدالت کے اندر کالے کوٹ پہنے ایسے لوگ بھی نظر آئے جو اپنے قد، کاٹھ اور جسامت سے وکیل نہیں لگ رہے تھے۔ اس غیر معمولی مقدمے میں کافی نئی چیزیں دیکھنے کو ملیں لیکن کئی سوال تھے جن کے جواب نہیں ملے۔ عدالتی کمرے میں صحافیوں کی شکل میں وہ رودالیاں بھی دیکھنے کو ملیں جو ایسے مقدمات پر تبصرہ کرتے وقت آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں، اور ایسے اینکرز جو ان معاملات پر بات کرنے پر بھی غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفکٹ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

اسی عدالتی کمرے میں وہ صحافی اور وکلا بھی موجود تھے جو خواہشوں کو خبروں کا رنگ دیتے ہیں اور فیصلے بھی اسی رنگ کے چاہتے ہیں۔ کچھ وہ بھی تھے جو بات بات پر یہی کہہ رہے تھے کہ سرجی ہونا کچھ بھی نہیں بس ایوئیں تماشا لگایا ہوا ہے۔ ان میں وہ بھی تھے جو سرگوشیوں میں کہہ رہے تھے سارے رلے ہوئے نے (سب ملے ہوئے ہیں)، تاہم ان 3 دنوں میں بار بار ایک ہی سوال دہرایا جاتا رہا کہ ایکسٹینشن کس قانون کے تحت کیا گیا ہے اور ہر بار ایک ہی جواب کہ مائے لارڈ جیسا کہ اس پر کبھی کچھ نہیں ہوا اس لیے ہم بھی کنوینشنز پر چل کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں، لیکن تیسرے دن جب حکومت نے ان کنوینشنز کو ایک طرف رکھ کر آرمی چیف کی مقرری آئین کے تحت کی تو اس پر پھر سوال یہ ہوا کہ آپ آرمی چیف کو 28 نومبر سے اس عہدے پر مقرر کر رہے ہیں جو ابھی خالی ہی نہیں ہوئی؟

اس سے پہلے جو سوالات ہوئے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر روایت کو مان بھی لیا جائے تو پھر یہ بات بھی مانی جائے گی کہ ایک رٹائرڈ شخص کو آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے۔ اس بات پر اٹارنی جنرل خاموش رہے لیکن کچھ دیر بعد بولے سر رٹائرڈ افسر کو نہ لگانے کی کوئی بات آئین میں نہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین میں تو یہ بھی نہیں کہ فوجی سربراہ فوج سے ہی ہونا چاہیے پھر تو آپ کو بھی فوجی سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے ایک، پھر دوسری اور پھر تیسری سمری، اور ان سے جڑے نوٹیفیکیشن تقریباً رد ہی کردیے لیکن فیصلے میں ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں وہ کچھ کیا جو حکومت نے 19 اگست کو کردیا تھا۔

حکومت نے تسلیم کیا کہ قانون یا قاعدہ کوئی نہیں، بس پرانی روایت پر چل کر وہی کام کیا جو ہوتا چلا آ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا آخری نوٹیفیکیشن بھی سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی ٹرم ہے اور آئین میں مقرری کا کوئی ٹرم نہیں۔

حکومت کی طرف سے دی جانے والی ایکسٹینشن اور سپریم کورٹ کی ایکسٹینشن میں اگر فرق ہے تو صرف اور صرف مدت کا ہے۔ حکومت نے مدت 3 سال رکھی، سپریم کورٹ نے اس میں سے ڈھائی برس کم کردیے اور 6 ماہ بغیر کسی قانون کے ایکسٹیشن دینے کا کہہ دیا۔ باقی 2 برس 6 ماہ قانون بننے کے بعد وہ اس عہدے پر براجمان رہیں گے۔

3 دن کی سپریم کورٹ کی کارروائی میں ملیں تو خبریں ملیں، ہیجان ملا، ایک نیا تجربہ ملا اور ملی تو ایکٹینشن اور اس کو جواز بخشنے کی مہر ملی جس پر حکومت سپریم کورٹ کی شکر گزار ہے۔

26 نومبر کے عدالتی آرڈر میں 3 معزز جج صاحبان نے کہا کہ جس طرح کی سمری اور نوٹیفیکیشن تیار کیے گئے ہیں، یہ ایسے ہی ہیں جیسے گھوڑے کے آگے چھکڑا باندھنا لیکن حتمی فیصلے میں معزز عدالت نے گھوڑے کی لگام حکومت سے لی اور چھکڑے کو اِدھر اُدھر کرکے ٹھیک وہاں باندھ دیا جہاں حکومت نے باندھا ہوا تھا۔


ہیڈر بشکریہ: supremecourt.gov.pk


ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔