بھارت: سنسکرت کے مسلمان پروفیسر کو مذہب کی وجہ سے طلبہ کی مخالفت کا سامنا
بھارت کے شہر وارانسی میں مسلمان پروفیسر کو سنسکرت کا استاد تعینات کرنے کے خلاف طلبہ کی جانب سے کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ مسلمان شخص قدیم ہندو مت سے وابستہ زبان کی تعلیم نہیں دے سکتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 6 نومبر کو فیروز خان کے تقرر کی خبر کے بعد 30 طلبہ پر مشتمل گروہ نے وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا کہ مسلمان پروفیسر سنسکرت کی تعلیم دینے کا حق نہیں رکھتا۔
فیروز خان بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں سنسکرت لٹریچر کا پروفیسر تعینات ہونے پر بہت خوش تھے تاہم 2 ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وہ سنسکرت کی ایک کلاس بھی نہیں لے سکے۔
اس حوالے سے فیروز خان نے بتایا کہ 'جب میرے والد نے مجھے اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ایسے اسکول کا انتخاب کیا جہاں سنسکرت پڑھائی جاتی تھی کیونکہ انہوں نے خود بھی پڑھی تھی اور وہ اس سے محبت کرتے تھے'۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مذہبی عدم برداشت سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی
انہوں نے بتایا کہ 'سنسکرت سے میری محبت اور وابستگی اس وقت شروع ہوئی جب میں اسکول میں تھا'۔
خیال رہے کہ قدیم بھارت میں سنسکرت زبان کا استعمال اسکالرز کی جانب سے کیا جاتا تھا اور بعض اوقات اسے دیوابھاشا یعنی دیوتاؤں کی زبان بھی قرار دیا جاتا تھا۔
تاہم موجودہ دور میں ایک فیصد سے کم بھارتی یہ زبان بولتے ہیں اور یہ زیادہ تر مذہبی تقریبات کے دوران ہندو پنڈتوں کی جانب سے استعمال کی جاتی ہے۔
ہندو مذہب اور ہندو مذہبی تحریروں سے وابستہ زبان کو زندہ رکھنا بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اہم منصوبہ رہا ہے۔
مسلمان پروفیسر کے خلاف احتجاج میں شریک طالبعلم چکراپنی اوجھا، جن کا تعلق بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی سے ہے، نے کہا کہ مسلمان پروفیسر کا تقرر یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم یونیورسٹی کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ فیروز خان کی تعیناتی کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ 'یونیورسٹی نے ملازمت کے لیے متفقہ طور پر بہترین امیدوار کو منتخب کیا ہے'۔
آنند موہن سنگھ نے کہا کہ 'اگر ایک مسلمان پروفیسر سنسکرت پڑھاتا ہے تو اس سے ہندوازم کی عظمت پر اثر پڑتا ہے'۔
پروفیسر کی برطرفی کے مطالبات کے باوجود کچھ اساتذہ نے ان کی حمایت میں آواز بھی بلند کی ہے۔
بنارس یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ '30 سال تک ایک ہندو شخص نے ایک محکمے کی سربراہی کی جس میں اردو، فارسی اور عربی زبانیں شامل تھیں، یہاں تک کہ ان کے پاس ایک ایسی ڈگری بھی تھی جو انہیں قرآن پڑھانے کی اجازت بھی دیتی تھی'۔
انہوں نے کہا کہ 'شعبہ اردو میں ہندو پروفیسرز بھی ہیں، مذہب اور زبان دو بالکل مختلف چیزیں ہیں'۔
طلبہ نے احتجاج روک دیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ پروفیسر کی معطلی تک احتجاج جاری رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمان شخص کو قتل کرنےاورلاش جلانے کی ویڈیو
ادھر پروفیسر فیروز خان کا کہنا تھا کہ وہ سمھ نہیں پارہے کہ ان کے مذہب کا زبان کی مہارت سے کیا تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک مسئلہ کیوں ہے کہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص کسی دوسرے مذہب سے وابستہ زبان کی تعلیم دے نہیں سکتا؟ میں نے سنسکرت پڑھی کیونکہ میں اس زبان کا لٹریچر سمجھنا چاہتا تھا'۔
فیروز خان نے کہا کہ 'یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت کے وقار کے 2 پہلو ہیں، ایک سنسکرت اور دوسرا سنسکرتی (جو ثقافت کا ترجمہ کرتا ہے)، اگر آپ بھارت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سنسکرت پڑھے بغیر ایسا نہیں کرسکتے'۔
تاہم طلبہ کی جانب سے پروفیسر کی حمایت کی گئی ہے اور اس حوالے سے مارچ بھی کیا گیا، رشمی سنگھ نے کہا کہ 'ان کے خلاف احتجاج بیوقوفی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'بھارت ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے، ایک پروفیسر کا انتخاب مذہب یا ذات کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا'۔
علاوہ ازیں انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق سنسکرت کا پروفیسر تعینات ہونے پر تنازع کے بعد وہ یونیورسٹی میں آیوروید پڑھانے کے لیے انٹرویو دیں گے۔
مظاہروں کے بعد فیروز خان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر انہیں اپنی بے عزتی محسوس ہوئی اور انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس ملازمت کے لیے ہرگز درخواست نہ دیتے اگر اشتہار میں یونیورسٹی نے یہ درج کیا ہوتا ہے کہ انہیں مسلمان شخص نہیں چاہیے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے کہا کہ 'بنارس یونیورسٹی میں 2 الگ فیکلٹیز ہیں، سنسکرت ڈپارٹمنٹ اور سنسکرت ودیا دھرما وید ویگان سنکے (ایس وی ڈی وی ایس)'۔
انہوں نے کہا کہ 'فیروز خان کو ایس وی ڈی وی ایس میں تعینات کیا گیا ہے جو قدیم شاستروں اور لٹریچر سے متعلق ہے'۔
طالبعلم نے کہا کہ 'ایس وی ڈی وی ایس تھیوری سے آگے ہے، اس میں ہندو روایات کے مطابق اسکالرز اور پنڈتوں کو مستقبل کی عملی تعلیم دی جاتی ہے اور ہندو روایات سے وابستہ پروفیسر ہی ان مخصوص روایات کی تعلیم دے سکتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر کو ہندو تقاریب میں شرکت کرنی ہوگی وہ ایسی تقاریب میں کیسے شرکت کرسکتے ہیں؟