میں اس رات اسلام آباد سیکٹر جی 13 کے اس ویران پُل سے گزرتے ہوئے خوفزدہ ہوگیا۔ اس پل پر کوئی مسئلہ تھا، کوئی آسیب تھا کہ جس کے باعث یہاں سے رات میں گزرنے والے کو ریت سرخ نظر آنے لگتی تھی۔ میں نے سوچا کہ آئندہ اس پُل سے رات کے وقت نہیں گزروں گا۔
کچھ دن بعد میری ملاقات اس سیکٹر میں رہنے والے دوست عتیق سے ہوئی۔ میں نے اس پُل کے حوالے سے اپنا واقعہ سنایا اور خیال ظاہر کیا کہ اس جگہ پر ضرور کچھ آسیبی اثرات ہیں، تو وہ ہنسنے لگا۔
’ارے کچھ نہیں بھائی۔ وہم ہے تمہارا۔ ہم تو پتا نہیں کتنی بار اس پُل پر سے گزرے ہیں، دن میں بھی اور رات میں بھی، اور کبھی کبھی تو آدھی آدھی رات کو بھی۔ ہمارے ساتھ تو کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘
’بھائی فرض کیا کہ اس دن واقعی گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں کوئی ایسی خرابی تھی جس کی وجہ سے روشنی کچھ دیر کے لیے سرخ ہوگئی، لیکن بالکل یہی مسئلہ موٹرسائیکل کی لائٹ کے ساتھ کیوں پیش آیا؟‘، میں بولا۔
عتیق کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر بولا، ’یار ویسے یہاں چند سال پہلے ہمارے سامنے ایک دردناک واقعہ ضرور پیش آیا تھا‘۔
میں چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’جس زمانے میں ہم نے یہاں اپنا گھر بنانا شروع کیا تو تعمیر کے دوران اسی سیکٹر میں ایک گھر کرائے پر لے لیا تھا۔ وہ گھر اس پُل کے قریب ہی تھا۔ یہ پُل تھا تو کمزور سا، لیکن علاقے میں جاری تعمیراتی کاموں کی وجہ سے اس پر سے ریت، بجری اور اینٹوں کے بھاری بھاری ڈمپر گزرتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ خدشہ ہونے لگا کہ کہیں یہ پل ٹوٹ کر ریلوے لائن پر گر ہی نہ جائے۔ چنانچہ سیکٹر کی انتظامیہ نے پُل کے دونوں طرف لوہے کے گارڈر لگا دیے تاکہ یہاں سے بڑی گاڑیاں نہ گزر سکیں۔ اس اقدام کے بعد ڈمپر دوسرے راستوں سے آنے جانے لگے اور یہ پُل ویران سا ہوگیا‘۔
’اچھا‘، میں غور سے سُن رہا تھا۔
’وہ سردیوں کی ایک رات تھی۔ ویران پُل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ایک چھوٹا ٹرک اس طرف آیا اور پُل کی طرف بڑھنے لگا۔ ٹرک کے پچھلے حصے میں کئی مزدور سوار تھے اور وہ کھڑے ہوئے تھے۔ ٹرک تیز رفتاری سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ ڈرائیور اس بات سے بالکل بے خبر تھا کہ یہاں سڑک پر ایک رکاوٹی آہنی شہتیر لگا ہوا ہے۔ اس نے اپنی رفتار میں کوئی کمی نہیں کی اور ٹرک اس گارڈر کے نیچے سے تیزی سے گزر گیا۔ ٹرک تو گزر گیا، لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے، وہ نہ گزر سکے۔۔۔‘، عتیق خاموش ہوگیا۔
’کیا مطلب؟‘ میری آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
’ٹرک پر سوار مزدوروں کے سر اس آہنی گارڈر سے ٹکرائے اور نتیجتاً کئی لوگ لہولہان ہوکر ٹرک سے باہر گِر پڑے۔ مزدوروں کی چیخ و پُکار سُن کر ڈرائیور نے بریک تو لگالیا، لیکن اس وقت تک حادثہ ہوچکا تھا۔ کئی افراد کے سر پھٹ گئے، وہ خونم خون ہوگئے، بلکہ وہ تو جان سے ہی گزر گئے۔ پُل پر ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔‘
عتیق یہاں تک بتا کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ پھر بولا، ’لیکن اس واقعے کے بعد آج تک یہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو اس واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہو۔ یہ تم پہلے آدمی ہو جسے پل کی زمین سرخ نظر آئی ہے‘، وہ خاموش ہوگیا۔
عتیق کی گفتگو سُن کر میں تو سناٹے میں ہی آگیا۔ میں کئی دن تک سوچتا رہا کہ اس طرح کی چیزیں کیا کسی خاص فریکوینسی پر ہی انسانوں کو نظر آتی ہیں؟ مجھے اس رات جو اس پُل کی مٹی سرخ نظر آئی، کیا وہ میرا وہم تھا یا اس کا کوئی تعلق اس حادثے میں بہنے والے خون سے بھی تھا؟
آدھی رات کی آوازیں
میرا بچپن کراچی کے علاقے ملیر میں گزرا ہے، سعودآباد سے آگے ملیر توسیعی کالونی میں، جسے عرفِ عام میں کھوکھراپار بھی کہا جاتا ہے۔ کھوکھراپار اِی ایریا کی ایک گلی جس کے اندر بلدیہ کے تعمیر کردہ 12 کوارٹرز کی آمنے سامنے دو قطاریں تھیں، اس گلی کے بالکل درمیان میں ہمارا گھر تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سیکنڈری کلاسز میں تھا۔ میٹرک میں امتحانات چونکہ بورڈ کے تحت ہوتے تھے اس لیے ہم پڑھائی کی طرف سے خاصے فکرمند رہتے تھے۔ ہر وقت امتحانات کا خوف طاری رہتا تھا۔ جیسے جیسے امتحانات قریب آتے، ہماری نیندیں اُڑ جاتیں۔ دن تو دن، راتیں بھی جاگ جاگ کر پڑھائی میں مصروف گزرنے لگتیں۔