ہم کب سمجھیں گے کہ ’افراد‘ نہیں ’ادارے‘ اہم ہوتے ہیں

وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ جائیں کہ ادارے افراد سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ رہنما آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن رہ جاتی ہے تو ان کی جانب سے چھوڑی گئی لیگیسی اور وہی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
وہ لیڈران جو روزِ اول سے اپنی لیگیسی کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنے متعلقہ ادارے، تنظیم یا تحریک یا پھر پیشہ ورانہ کام میں اپنی خدمات کی فراہمی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، اکثر وہی لیڈران اپنے پیچھے ایک ایسی لیگیسی چھوڑ جاتے ہیں جس کی آبیاری آگے چل کر ان کی جگہ لینے والے دیگر افراد کرتے ہیں۔
دوسری طرف وہ افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ عہدہ ان کا حق اور کوئی بھی ان جیسی اہلیت کا حامل نہیں ہوسکتا، وہ اپنے پیچھے ایسی لیگیسی چھوڑ جائیں گے جو ان افراد کے پیشروؤں کے لیے آگے بڑھانا تو دُور کی بات، وہ تو ان کے حلق کا کانٹا بن جائے گی۔
بدھ کے روز پورے ملک کی نظروں اور سماعتوں کا محور وہ غیر معمولی عدالتی سماعت تھی جس کا فیصلہ ابھی سنایا جانا باقی ہے۔ مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے کیونکہ جج صاحبان کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے کے نتیجے پر بہت کچھ انحصار کرتا ہے۔ اس پورے معاملے میں اگر کوئی چیز اہم محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ کس طرح ہم بار بار اس قسم کے حالات میں خود کو پاتے ہیں۔
اس سے پہلے جج صاحبان کی بحالی کا مسئلہ دیکھنے کو ملا تھا، اور پھر وہ دن بھی آئے کہ جب سپریم کورٹ نے اس مقدمے کو سننا شروع کیا کہ آیا پرویز مشرف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوسکتی ہے یا نہیں، اور اس مقدمے کی سماعتوں کا سلسلہ نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ انجام کو پہنچا۔
اس قسم کے مختلف معاملات کی فہرست کافی طویل ہے۔ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ میں یہاں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تمام مقدمات ایک جیسی نوعیت رکھتے تھے۔ ہر ایک مقدمے کے اپنے الگ معاملات، تشریح کے لیے اپنے قوانین تھے۔ لیکن ہر ایک مقدمے نے ایک گرداب کو جنم دیا اور یوں لگا جیسے اس کے اندر تاریخ کے سارے حوالے داخل ہو رہے ہوں اور مستقبل کی راہیں اسی سے نکلنے والی ہوں۔ ہر ایک مقدے نے اس احساس کو پیدا کیا کہ ملک کی تقدیر داؤ پر لگی ہے اور بنیادی معاملات کو قانون کی روشنی میں زیرِ غور اور حل کیا جار ہا ہے۔
کسی حد تک یہ سچ بھی تھا۔ اب کوئی بھی آرمی چیف ملک میں ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کرنے سے پہلے 2 بار ضرور سوچے گا یا پھر کوئی سیاسی رہنما سپریم کورٹ میں دھاوا بولنے سے پہلے 3 بار ضرور سوچے گا، اور یہ سب وکلا تحریک اور ملک کے اقتداری ڈھانچے میں عدالت کا پہلے سے بڑھ کر مؤثر کردار ادا کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔
لیکن دوسری طرف ایک حد تک ہم نے اس ملک کو متعدد مرتبہ بالخصوص گزشتہ دہائی میں ایسے حالات میں گرفتار پایا، جس سے اعلیٰ سطح پر اختیارات کی جنگ میں آنے والی شدت ظاہر ہوتی ہے۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com