یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
برطانیہ کی نیوکیسل، شیفلڈکارڈف، کوئین میری، لیڈز اور ڈنڈی یونیورسٹیوں کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں کے دانتوں کے درد اور انفیکشن میں کمی کے لیے فلنگ کرانا اچھی طرح برش کرنے اور میٹھے کے استعمال میں کمی سے زیادہ موثر نہیں۔
تحقیق کے مطابق دانتوں میں فلنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ بچوں کو انجیکشن یا ڈرل کی وجہ سے تکلیف کا سامنا ضرور ہوسکتا ہے۔
3 سال تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران بچوں کے دانتوں کے مسائل کے حوالے سے 3 مختلف طریقہ علاج کا موازنہ کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ روایتی فلنگ دانتوں کی فرسودگی کے لیے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتی۔
اس تحقیق کے دوران 3 سے 7 سال کی عمر کے ایک ہزار سے زائد کا جائزہ لیا گیا جو دانتوں کی فرسودگی اور تکلیف کا شکار تھے۔
ہر بچے کے لیے علاج کے 3 طریقوں میں سے ایک کو اپنایا گیا اور ماہرین نے اس کا جائزہ 3 سال تک لیا۔
پہلا طریقہ علاج فلنگ کی بجائے میٹھی اشیا کا استعمال کم کردینا، فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ سے برش تھا جبکہ دوسرا طریقہ ڈرل سے فلنگ کرنا تھا جبکہ تیسرے طریقے میں متاثرہ دانتوں کو ایک میٹل کراﺅن سے سیل کردیا گیا تاکہ اس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
طبی جریدے جرنل آف ڈینٹل ریسرچ میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ کوئی بھی طریقہ علاج درد، انفیکشن یا بچوں کی ذہنی بے چینی میں کمی لانے کے لیے ایک دوسرے سے بہتر ثابت نہیں ہوسکا۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج جسے ثابت ہوتا ہے کہ ہر طریقہ علاج کا اثر لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے مگر جن بچوں میں دانتوں کی فرسودگی بہت کم عمری میں سامنے آتی ہے انہیں کسی بھی طریقہ علاج کو اپنانے کے باوجود درد کا سامنا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس مسئلے کا حل فلنگ یا دانتوں کو سیل کرنا نہیں بلکہ اس کی روک تھام کرنا ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ دانتوں پر فلورائیڈ پیسٹ سے برش کرنے خاص طور پر سونے سے پہلے، کھانے کے اوقات کے درمیان میٹھے مشروبات اور ایشا سے گریز اور ڈینٹسٹ سے اکثر رجوع کرنا دانتوں کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دینے والی فائدہ مند عادات ہیں۔