پرویز مشرف کے حامی اسلام آباد میں عدالت کے باہر ان کا پوسٹر اٹھائے ہیں — فوٹو: اے پی
21 فروری، 2014: خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔
30 مارچ، 2014: پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
یکم اپریل، 2014: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پرویز مشرف کی بیمار والدہ کو پاکستان سے شارجہ لے جانے کی پیشکش کی۔
2 اپریل، 2014: حکومت نے پرویز مشرف کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد کی تھی۔
3 اپریل، 2014: پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دائر کی تاکہ وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جاسکیں۔
7 اپریل، 2014: آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ 'حالیہ دنوں میں ادارے (فوج) پر ہونے والی تنقید کے رد عمل میں فوج اپنا وقار اور ادارے کا فخر کا تحفظ کرے گی'۔
14 مئی، 2014: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پرویز مشرف پر غیر قانونی طور پر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے 'ناقابل تلافی' شواہد پیش کیے۔
12 جون، 2014: سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے بیرون ملک سفر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 'سابق صدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی ہے'۔
13 جون، 2014: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی 2007 کی ایمرجنسی میں 'اعانت'، جنہوں نے اس کی تجویز دی، اس کی تائید کی اور اس کو نافذ کیا، کی تفصیلات کی درخواست مسترد کردی۔
14 جون، 2014: حکومت نے عدالت عظمیٰ میں سندھ ہائی کورٹ کی پرویز مشرف کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔
23 جون، 2014: عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اپیل کے زیر التوا ہونے تک معطل کردیے جس کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
8 ستمبر، 2014: پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے 2007 میں ایمرجنسی عائد کرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے کردار سے متعلق اہم ثبوت کی طرف نشان دہی کی۔
15 اکتوبر، 2014: سابق صدر کی قانونی ٹیم نے خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کے تمام ساتھیوں کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کی درخواست کی۔
21 نومبر، 2014: خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو غداری کیس میں اپنی درخواست دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی اور چارج شیٹ میں میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرنے کا کہا۔
22 دسمبر، 2015: پرویز مشرف نے کہا کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔
14 مارچ، 2016: سابق صدر نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔
16 مارچ، 2016: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔
18 مارچ، 2016: پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے۔
11 مئی، 2016: سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔
16 نومبر، 2016: پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سنگین غداری کیس سے منسلک کر دیا گیا۔
27 فروری، 2017: سابق صدر نے ٹی وی پر بطور تجزیہ کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
10 نومبر، 2017: پرویز مشرف نے 23 سیاسی جماعتوں کے 'گرینڈ الائنس' کا اعلان کیا جو پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی) کے زیر سایہ کام کرے گا۔
29 مارچ، 2018: جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد خصوصی عدالت کا بینچ تحلیل ہوگیا۔
7 اپریل، 2018: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مشرف غداری کیس کا بینچ دوبارہ تشکیل دیا۔
31 مئی، 2018: وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔
7 جون، 2018: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔
20 جون، 2018: مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے۔
30 جولائی، 2018: سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
3 اگست، 2018: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کے 20 اگست سے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا۔
20 اگست، 2018: جان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔
29 اگست، 2018: خصوصی عدالت کو بتایا گیا کہ انٹرپول نے مشرف کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔
2 اکتوبر، 2018: چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو 'بہادر کمانڈو' کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی۔
24 اکتوبر، 2018: آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے اپنے بیان میں کہا کہ مشرف کو ایمیلوئڈوسز (Amyloidosis) کی بیماری لاحق ہے جس کے باعث انہیں کھڑے رہنے اور چلنے میں مشکلات ہیں۔
19 نومبر، 2018: خصوصی عدالت نے مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل کو وطن واپسی کے لیے قائل کریں تاکہ سنگین غداری کیس کی کارروائی آگے بڑھے۔
31 مارچ، 2019: سپریم کورٹ نے مشرف کو حکم دیا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔
یکم اپریل، 2019: چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر کی آگے بڑھائے۔
11 جون، 2019: سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔
30 جولائی، 2019: غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔
8 اکتوبر، 2019: خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
24 اکتوبر، 2019: غداری کیس میں پی ٹی آئی نے پراسیکیوشن ٹیم کو برطرف کردیا۔
19 نومبر، 2019: سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔
23 نومبر، 2019: پرویز مشرف نے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔
25 نومبر، 2019: کیس نے نیا رخ لیا اور وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں پراسیکیوشن کو سنے بغیر خصوصی عدالت کے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
26 نومبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی۔
27 نومبر، 2019: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
28نومبر، 2019: خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔
اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوٖظ کرنے کے خلاف دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو 3 دسمبر تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا۔
3 دسمبر، 2019: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ خصوصی عدالت اس کےفیصلے کی پابند ہے۔
اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔
3 دسمبر ہی کو پرویز مشرف کو امراض قلب اور فشار خون (بلڈ پریشر) کے حوالے سے پیچیدگیوں کے باعث دبئی کے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔
4 دسمبر، 2019: پرویز مشرف نے دبئی کے ہسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'اس کیس میں میری سنوائی نہیں ہورہی، صرف یہی نہیں کہ میری سنوائی نہیں ہورہی بلکہ میرے وکیل سلمان صفدر کو بھی نہیں سن رہے، میری نظر میں بہت زیادتی ہورہی ہے اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جارہا'۔
5 دسمبر، 2019: اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔
10 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیا۔
12 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
16 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
17 دسمبر، 2019: لاہورہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فل بینچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔
اسی روز خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا۔
19دسمبر، 2019: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جو 169 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
ترجمہ: سمیر سلیم، عثمان سیف
انگلش میں پڑھیں