وفاقی کابینہ نے آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی، شفقت محمود
اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی ہے اور آرٹیکل میں الفاظ 'مدت میں توسیع' کا اضافہ کیا گیا ہے۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر شفقت محمود نے شیخ رشید اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 'اجلاس میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا، آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کو ایڈوائس کریں، اس طریقے پر عمل کیا گیا اور صدر نے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔'
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے پاس یہ صوابدیدی اختیار بھی ہے کہ وہ حالات کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں، اس معاملے میں خاص طور پر جس چیز کو مدنظر رکھا گیا وہ یہ کہ خطے میں غیر معمولی حالات ہیں اور بھارت کی طرف سے کئی محاذوں پر خطرات ہیں۔'
مزید پڑھیں: آرمی چیف کی مدت میں توسیع کےخلاف درخواست کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور کوئی جھوٹا آپریشن کر سکتا ہے، ایل او سی پر فائرنگ کا تبادلہ غیر معمولی صورتحال ہے، مقبوضہ کشمیر میں 113 دن سے جاری کرفیو بھی غیر معمولی حالات ہیں جبکہ بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کی بھی دھمکیاں دے رہا ہے، لہٰذا غیر معمولی حالات کے پیش نظر وزیر اعظم نے آرمی کمانڈ میں تسلسل کا فیصلہ کیا۔'
شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 'وفاقی کابینہ نے آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی ہے اور ترمیم کے ذریعے رول 255 میں لفظ 'مدت میں توسیع' کا اضافہ کیا گیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی آرمی ریگولیشنز کے رول 255 کے تحت توسیع دی گئی تھی۔'
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع
پوری کابینہ نے وزیر اعظم کے فیصلے کی توثیق کی، شیخ رشید
اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ آج پوری کابینہ نے وزیر اعظم عمران خان کے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کی توثیق کی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے یہ ریمارکس کی 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 اراکین آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حق میں تھے، شیخ رشید نے کہا کہ '14 کابینہ نے اپنی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی رائے نہیں دی تھی۔'
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کابینہ کے قواعد و ضوابط بلکل واضح ہیں کہ اگر کوئی رکن سرکولیشن کے ذریعے بھیجی گئی سمری کا انکار نہیں کہتا تو اس کا مطلب 'ہاں' ہوتا ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ‘رولز 17 اور 19 کے مطابق کابینہ اراکین کی طرف انکار نہیں ہے تو وہ ہاں تصور ہوگا، کابینہ کی طرف سے وقت دیا جاتا ہے اور اس میں 24 گھنٹے دیے گئے تھے اور باقی دستخط اگلے روز آئے تھے جو 19 ہیں تاہم 5 غیر حاضر تھے وہ ملک سے باہر ہیں’۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت آج ہونے والے کابینہ اجلاس میں 16 نکاتی ایجنڈا زیر غور آنا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے بعد اجلاس میں طے شدہ ایجنڈے کو ملتوی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر تفصیلی غور کیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن کل (بدھ) تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کیے تھے۔