جی آئی ڈی سی کیسز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ نہ کرنے پر وفاقی حکومت سے وضاحت طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے گیس ڈیولپمنٹ انفرا اسٹرکچر سیس (جی آئی ڈی سی) 2015 کے تحت رقوم جمع کرنے سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے سے متعلق آگاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ بتائے ایران پاکستان (آئی پی) پائپ لائن پروجیکٹ اور ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) پائپ لائن پروجیکٹ کے انفرا اسٹرکچر کی تیاری کے لیے جی آئی ڈی سی 2015 کے تحت رقوم جمع کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا یا نہیں۔
کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے حکم دیا اگر ایسی کوئی رپورٹس پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کی گئیں تو حکومت کو یہ جواز بھی پیش کرنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا جبکہ جی آئی ڈی قانون کے سیکشن 4(2) میں ایسے اخراجات کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جی آئی ڈی سی کیس سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کرنے والے عدالتی بینچ نے حکومت کو اس حوالے سے ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: گیس ڈیولپمنٹ انفرا اسٹرکچر کیس: حکومت نے جلد سماعت کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا
دوران سماعت یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ 8 برس سے پارلیمنٹ میں ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے مذکورہ احکامات جاری کیے۔
سی این جی اسٹیشنز کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی آئی ڈی سی لیوی کوئی ٹیکس یا فیس نہیں تھا بلکہ شہریوں پر مسلط ایک جرمانہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے قانون سازی کی اہلیت کے بغیر جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کے ذریعے ٹیکس عائد کیا تھا کیونکہ سیس فورتھ شیڈول میں وفاقی قانون سازی کی فہرست میں ٹیکس کے نفاذ سے متعلق شقوں 43 سے 53 کے زمرے میں نہیں آتا۔
تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری عامر رحمٰن نے عدالت سے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور دیگر علاقوں کی صورتحال کو مدنظر رکھنے کی درخواست کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ اس پیسے کے استعمال سے متعلق پوچھیں جو وہ 2011 سے ادا کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کے پہلے شیڈول میں موجود کمپنیاں قانون کے تحت دیے گئے نرخ پر صارفین سے سیس جمع کرنے کی ذمہ دار تھیں جسے سرکاری خزانے میں جمع کیا جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے گیس کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا
جی آئی ڈی سی سے جمع ہونے والی رقوم میں 2016 میں 279.5 ارب روپے اور 2019 کے دوران 207.6 ارب روپے انٹر گیس سسٹمز لمیٹڈ نے تاپی پروجیکٹ عملدرآمد کمپنی تاپی پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ (ٹی پی سی ایل) کی ایکویٹی کے لیے استعمال کیے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تاپی پروجیکٹ کے حوالے سے پنجاب اور بلوچستان کے ماحولیاتی حکام سے پہلے ہی منظور لے لی گئی تھی اور اب ابتدائی کام جاری ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ تاپی پروجیکٹ کے فیز ون کے تحت گیس کا بہاؤ مالی سال 24-2023 سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں ایران پاکستان (آئی پی) پائپ لائن پروجیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آئی پی گیس سپلائی پرچیس ایگریمنٹ کی ترمیم پر 5 ستمبر 2019 میں دستخط ہوئے تھے جبکہ جی ایس پی اے کے تحت اس پر کسی دعوے کی مدت میں 5 سال کی توسیع کی تھی۔
واضح رہے کہ 2015 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس بل قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
اس وقت کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس بل پیش کیا تھا۔
تاہم جی آئی ڈی سی کا معاملہ اس وقت متنازع ہوا جب حکومت نے گزشتہ ہفتے متنازع آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت فرٹیلائزر، جنرل انڈسٹری، آئی پی پیز، پاور جنریشن، کے الیکٹرک اور سی این جی سیکٹر وغیرہ جیسے بڑے کاروبار کو 210 ارب روپے کی مالیاتی ایمنسٹی فراہم کی جانی تھی۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق جنوری 2012 سے دسمبر 2019 کے درمیان جی آئی ڈی سی پر قانونی جنگ کی وجہ سے پھنسی رقم 417 ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔
بعدازاں ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں گیس ڈیولپمنٹ انفرا اسٹرکچر سیس (جی آئی ڈی سی) کیس کی زیر التوا درخواستوں پر فوری سماعتوں کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
رواں برس اکتوبر میں سپریم کورٹ نے تمام ہائی کورٹس سے گیس ڈیولپمنٹ انفرااسٹرکچر سیس (جی آئی ڈی سی) 2015 سے متعلق تمام زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کی تھیں۔