نقطہ نظر

کیا آپ کو اینیمیٹڈ فلم ’فروزن ٹو‘ دیکھنی چاہیے؟

کہانی کو ترتیب دیتے ہوئے مناظر کا ردھم بھی بہت اچھا بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے فلم میں فیچر فلم ہونے کا احساس محفوظ رہا۔

عام طور پر خیال یہی کیا جاتا ہے کہ اینیمیٹیڈ فلموں کی ٹارگٹ آڈینس بچے ہی ہوتے ہیں، مگر معروف امریکی اینیمیٹیڈ فلموں کے ادارے ’والٹ ڈزنی پکچرز‘ کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’فروزن ٹو‘ نے اس تاثر کو بہت حد تک ختم کیا، کیونکہ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی اس فلم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس فلم نے کئی ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔

اس فلم کے سیکوئل کے منظرِ عام پر آنے کی جب بات کی گئی تو مداحوں نے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ 22 نومبر 2019ء کو پاکستان اور امریکا سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی اس اینیمیٹیڈ فلم کی کامیابیوں کا سفر تاحال جاری ہے۔ چونکہ میں خود اس فلم کو دیکھ آیا ہوں، اس لیے یہ بات بڑے ہی اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کو دیکھتے ہوئے آپ کے پیسے اور وقت دونوں وصول ہوجائیں گے۔

اس فلم میں کیا اچھا تھا، کیا بُرا، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

کہانی / مکالمے

فلم کی کہانی کا مرکزی خیال ایک خیالی سلطنت پر مبنی ہے، جس کی ملکہ کا نام ’ایلسا‘ ہے اور اس کے پاس چیزوں کو منجمد کرنے کی برفانی صلاحیت موجود ہے۔

اس کہانی میں وہ یہ کھوجتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کس طرح اس کے بزرگوں نے سلطنت کے قیام اور استحکام کے لیے کوششیں کیں، یہ بھی کہ اس میں چیزوں کو جامد کر دینے کی صلاحیت کیسے پیدا ہوئی؟

ان اہداف کو ذہن میں رکھ کر وہ اپنی سلطنت سے باہر قدم رکھتی ہے اور اپنے ماضی کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ اس کا خطرناک سفر کچھ یوں شروع ہوتا ہے کہ وہ ایک غیبی آواز کے تعاقب میں اس مقام تک جا پہنچتی ہے، جہاں اس کو ان سوالوں کے جوابات ملتے ہیں۔ اس سفر میں اس کی چھوٹی بہن ’اینا‘ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے ہمیشہ اس کی زندگی بچ جاتی ہے۔

فلم کی کہانی کا مرکزی خیال ایک خیالی سلطنت پر مبنی ہے، جس کی ملکہ کا نام ’ایلسا‘ ہے

اسی کہانی کے اہم کرداروں میں کرسٹوف، اولاف اور دیگر موجود ہیں۔ ان سب کی مشترکہ جدوجہد اور تلاش پر مبنی یہ کہانی رومانوی انداز میں تخلیق کی گئی ہے، جس میں بے حد عمدہ مکالمے اور موسیقی کا امتزاج برقرار رکھا گیا ہے۔

ایک منظر میں دونوں بہنوں کے مکالموں کی شاندار بنت پڑھ کر دیکھیں، کیسی اچھی کاوش کی گئی ہے۔ اردو فلموں کی مانند اس میں کہانی کی صورتحال کے مطابق گیت بھی تخلیق کیے گئے ہیں، جن پر متعلقہ کرداروں نے عمدہ اداکاری کی ہے۔ لیکن مکالموں کی ادائیگی میں یہ افسانوی کردار انسانوں کے حقیقی کرداروں کے زیادہ قریب محسوس ہوئے، اس کہانی میں یہی لفظوں کی جادوگری ہے۔

فلم کی کہانی کو ’اسنو کوئین‘ کی کہانی سے پہلی بار اخذ کیا گیا تھا، پھر دونوں فلموں میں کہانی کو دونوں ہدایت کاروں نے مل کر لکھا، اس لیے وہی اس فلم کے اسکرین پلے رائٹر بھی ہیں۔ ان کے نام ’چریس بک‘ اور ’جینفرلی‘ ہیں۔

پہلی اور دوسری فلم میں کہانی کا واضح فرق رکھا گیا ہے۔ اس فلم میں واحد پہلو جس کی کمی محسوس کی گئی، وہ تجسس کا پہلو ہے۔ فلم کی کہانی میں کہیں کوئی تجسس بھرا کلائمکس نہیں ہے، بس سیدھی سیدھی کہانی آگے بڑھتی اور ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہانی کی پیشکش اس قدر جمالیاتی انداز میں گندھی ہوئی ہے کہ آنکھوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے۔ اس پر شاندار مکالموں نے سماں باندھ دیا۔ 2 مرکزی کرداروں کے مکالمے پڑھ کر محسوس کیجیے۔

ایلسا: تم آگ پر میرا تعاقب نہیں کرسکتی

اینا: تو پھر تم اس آگ پر مت بھاگو

ایلسا: میں تمہارے بغیر کیا کروں گی؟

اینا: تم ہمیشہ مجھ سے قریب ہوگی

صداکاری / اداکاری

اس فلم کے مرکزی کرداروں میں جن فنکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے، وہ بالترتیب ایلسا (ادینا مینزل)، اینا (کرسٹین بیل)، کرسٹوف (جونتھن گیرف) سمیت دیگر ہیں۔

یہ فلم دنیا بھر میں جہاں ریلیز ہوئی، وہاں انگریزی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں میں بھی ڈب کی گئی، جس کی ایک مثال ہندوستان ہے۔ بھارت میں ایلسا اور اینا کے مرکزی کرداروں کی آواز معروف اداکاراؤں پریانکا چوپڑا اور پرینیتی نے ادا کی۔ پاکستان میں بھی بچوں کی بہت بڑی تعداد اس فلم کو دیکھ رہی ہے، اگر ان کے لیے بھی آواز پاکستان کی قومی زبان اردو میں ڈب کی جاتی تو یہاں اس کی مقبولیت کا دائرہ مزید بڑھایا جاسکتا تھا۔

میوزک / ساؤنڈ / ڈیزائن / ایڈیٹنگ / ڈائریکشن

اس فلم میں موسیقی نے بھی کہانی کو دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلم کی پس پردہ موسیقی اور گیت دونوں نے فلم کے معیار میں اضافہ کیا۔ اس کے لیے کینیڈین موسیقار ’کرسٹوفے بیک‘ نے بیک گراؤنڈ میوزک دیا جبکہ امریکی موسیقار ’رابرٹ لوپیز‘ اور ’کرسٹین اینڈریسن‘ نے فلم کے گیتوں کی دھنیں مرتب کیں۔

ایلسا سیکوئل فلم میں اپنی طاقت کے رازوں کو جان جائیں گی—اسکرین شاٹ

فلم کا ساؤنڈ بھی بہت جاندار اور معیاری رہا جبکہ اینیمیٹیڈ کام کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ جس طرح مختلف مناظر کو اسکیچ کیا گیا ہے وہ بہت متنوع اور دلکشی سے بھرپور تخلیقی کام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فطرت سے قریب، جنگلوں، پہاڑوں اور ندی نالوں کے مناظر پر مبنی بہت ساری پینٹنگز کو فلم کے پردے پر جمع کردیا گیا ہے، ہر فریم اپنی مثال آپ ہے۔

اسی طرح کہانی کو ترتیب دیتے ہوئے مناظر کا ردھم بھی بہت اچھا بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے فلم میں فیچر فلم ہونے کا احساس محفوظ رہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھنے والے اس فلم سے اپنے آپ کو جوڑنے میں کامیاب رہے۔

فلم کی پروموشن، تشہیر اور مختلف پریمیئرز بھی بہت عمدہ طریقے سے رکھے گئے، جس سے اس فلم کی ساکھ، شہرت اور پسندیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ دونوں فلموں میں ہدایت کار اور مرکزی کردار ادا کرنے والے وہی ہیں جو اس سلسلے کی پہلی فلم میں شریک تھے۔ ان میں چند ایک نئے اداکار شامل ہوئے ہیں لیکن فلم میں ان کی موجودگی سے کسی بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک بھرپور ٹیم ورک فلم میں دکھائی دیا۔ فلم کے ہدایت کار ’چارلس بیک‘ اور ’جینفرلی‘ ہیں۔

کچھ اہم سنگ میل / ریکارڈز

2 حوالوں سے اس فلم نے منفرد مقام حاصل کرلیا ہے۔ اس فلم سے متعلق پہلا ریکارڈ یہ ہے کہ اس کا ٹریلر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ٹریلر بن چکا ہے۔ اور پھر بات محض ٹریلر تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ فلم جب ریلیز ہوئی تو پہلے ہی دن اس نے باکس آفس پر اتنی کمائی کرلی کہ اس کا شمار اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی چوتھی فلم میں ہوگیا، اور اگر رواں مہینے نومبر کی بات کی جائے تو یہ اس مہینے کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بھی بن گئی، اور ابھی تو یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، دیکھتے ہیں کہاں تک بات پہنچتی ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بچے اس فلم کے کرداروں سے مانوس ہیں۔ ان کرداروں پر مبنی کھلونوں اور کپڑوں کو خوشی خوشی خریدتے ہیں۔ یہ مقبولیت بھی کم کم کرداروں کے حصے میں آئی۔

’فروزن‘ کی پہلی فلم نے آسکر ایوارڈز سمیت کئی اعزازات اپنے نام کیے تھے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس فلم کے ہنر مندوں کی ٹیم میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی میر ظفر علی بھی شامل تھے، جن کا شمار پہلی فروزن فلم کی اس فاتح ٹیم کے رکن کے طور پر ہوتا ہے، جنہیں آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

نتیجہ

یہ فلم والٹ ڈزنی پکچرز کی 58ویں فلم ہے، جبکہ ’فروزن‘ کے سلسلے کی دوسری فلم، جو 2D اور 3D ورژن میں ریلیز کی گئی ہے۔ اگر میری رائے مانگی جائے تو میں یہی کہوں گا کہ اس فلم کو ضرور دیکھیے کیونکہ خیالی دنیا کو تصویری پردے پر عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا، اور اس کو دیکھنے کے بعد یقینی طور پر بچوں کے تخیل کو بھی وسعت ملے گی۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔